سئیوں نی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آ گیا
پندرہ اور سولہ دسمبر کی درمیانی شب دشمن (انڈیا) نے ڈھاکہ کو باقی دنیا سے کاٹ دیا۔ ڈھاکہ ایئرپورٹ کا رن وے مسلسل حملوں سے ناکارہ ہو چکا ہے۔ ڈھاکے میں داخلے کے میرپور پل پر دشمن کا قبضہ ہے۔ پاکستانی ریجنل ہائی کمان نے بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
علی الصبح کرنل پنو، میجر جے ایس سیٹھی، کیپٹن نربھے شرما اور لیفٹننٹ تیجندر سنگھ ایک فوجی جیپ میں سوار ہوتے ہیں جس پر سفید کپڑا نہ ہونے کے سبب ایک سفید قمیض لہرا رہی ہے۔ اس جیپ میں وہ ڈھاکہ چھاؤنی میں موجود ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل اے اے کے نیازی کے لیے جی اوسی ٹینتھ ڈویژن میجر جنرل گندھرو ناگرہ کا ہاتھ سے لکھا پیغام لے کر پہنچتے ہیں۔
کاغذ پر لکھا ہے ’مائی ڈیئر عبداللہ میں یہاں ہوں۔ کھیل ختم ہو چکا ہے۔ میری تجویز ہے کہ آپ خود کو میرے حوالے کردیں۔ آپ کی سلامتی کا خیال رکھا جائے گا۔‘
کیپٹن نربھے شرما کا کہنا ہے کہ جنرل نیازی کاغذ کی طرف دیکھ کے بڑبڑا رہے تھے، ’پنڈی میں بیٹھے۔۔۔۔ نے مروا دیا۔‘
(نربھے شرما بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور ریاست میزورام اور ارونا چل پردیش کے گورنر رہے۔)
اس وقت کے فوجی ترجمان میجر صدیق سالک نے ’وٹنیس ٹو سرینڈر‘ میں لکھا کہ ناگرہ کا پیغام ملنے کے بعد جنرل نیازی نے میجر جنرل راو فرمان علی اور رئیر ایڈمرل محمد شریف سے مشورہ کیا۔
دونوں نے صلاح دی کہ مزید لڑنے کا فائدہ نہیں۔ ڈھاکہ کا دفاع ٹوٹ چکا ہے۔ چنانچہ جی او سی ڈھاکہ میجر جنرل محمد جمشید کو جنرل ناگرہ کے استقبال کے لیے بھیجا گیا۔
تین دن پہلے خود نیازی کو بھی یقین نہیں تھا کہ صورتِ حال اتنی تیزی سے پلٹے گی۔ اسی لیے انھوں نے 14 دسمبر کو بین الاقوامی میڈیا سے خوش گپیاں لگاتے ہوئے بی بی سی پر برہمن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی پھبتی کسی اور ہتھیار ڈالنے کے امکانات پر کہا ’ دشمن میری لاش پر سے گذر کے ہی ڈھاکہ میں داخل ہو سکتا ہے۔‘
مگر 14 کی شام کو ہی چہرے ست گئے جب پنڈی سے ٹیلی گرام آیا کہ ایسٹرن کمانڈ حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے لیے بااختیار ہے ۔
16 دسمبر کی سہہ پہر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں دستخطی تقریب سے پہلے روئٹرز کے نمائندے نے جی او سی ڈھاکہ میجرجنرل جمشید سے تاثرات جاننے چاہے۔ جمشید نے کہا ’ایسا کیا ہو گیا؟ کھیل میں ایک ہارتا ہے ایک جیتتا ہے۔‘
مغربی پاکستان کے عام آدمی کو کچھ نہیں پتہ تھا کہ کیا کھیل چل رہا ہے۔ رات گئے ریڈیو پاکستان نے ڈھائی سطر کی خبر نشر کی۔ مشرقی پاکستان میں جنگ بندی ہو گئی ہے۔ ایک سمجھوتے کے تحت انڈین فوجیں ڈھاکہ میں داخل ہو گئی ہیں۔‘ اور اب سنیے موسم کا حال۔۔۔
تفصیل بی بی سی پر نشر ہوئی اور پورا مغربی پاکستان سکتے میں آ گیا۔ مگر سنسر کی گرفت اتنی سخت تھی کہ اگلے دن (سترہ دسمبر) روزنامہ ڈان کی سات کالمی شہہ سرخی تھی۔ ’فتح تک جنگ‘ اور بغل میں دو کالمی سرخی تھی ’مشرقی بازو میں لڑائی تھم گئی‘ باقی اخبارات میں بھی ایسی ہی سرخیاں تھیں۔
وہ یحییٰ خان جو 14 دسمبر کو مشرقی کمان کو ’جہاں رہو خوش رہو‘ کا پیغام دے کر ٹاٹا کر چکا تھا اور 16 دسمبر کی شام سرینڈر کی اطلاع بھی مل چکی تھی۔ 17 دسمبر کو سہہ پہر ڈھائی بجے مغربی محاز پر جنگ بندی کے بعد شام کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ’جنگ جاری رہے گی، چپے چپے پر، کھیتوں میں، کھلیانوں میں۔‘
لوگوں نےاس سنگین مذاق کا برا مناتے ہوئے پشاور میں اس کا گھر جلا دیا (آپ پنڈی کی ہارلے سٹریٹ میں 1977 تک نظربند رہے۔ 10 اگست 1980 کو آپ کے تابوت پر قومی پرچم ڈالا گیا۔)
روئیداد خان ماشااللہ 100 برس سے اوپر کے ہو چکے ہیں۔ (اللہ انھیں لمبی عمر دے) آپ یحییٰ حکومت کے سیکریٹری اطلاعات تھے۔ آپ نے حقِ نمک نبھاتے ہوئے 25 مارچ 1971 کے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ سے 16 دسمبر تک آہنی سنسر کی پالیسی کو تندہی سے عملی جامہ پہنایا اور مغربی پاکستانیوں کو اس پورے عرصے میں ’ انڈین ایجنٹ غدار بنگالیوں‘ کے خلاف بے مثال عسکری کامیابیوں کی لوری سناتے رہے۔ مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ اس بابت انکل روئیداد نے ایک بھی منفی خبر پاکستانی ذرائع ابلاغ میں نہیں چھپنے دی۔
مارننگ نیوز کا اسٹٹنٹ ایڈیٹر انتھونی مسکرین ہاس کراچی سے لندن پہنچنے میں کامیاب ہوا اور یوں جولائی 1971 میں سنڈے ٹائمز میں پہلی تفصیلی سٹوری چھپی جس سے دنیا کو پتہ چلا کہ مشرقی پاکستان میں کس طرح کا آپریشن ہو رہا ہےاور اس کے بعد بین الاقوامی طور پر یحییٰ حکومت نکسن اور کسنجر کی حمایت کے باوجود تنہا ہوتی چلی گئی۔
آج انکل روئیداد دھڑلے سے کہتے ہیں کہ اس المیے کے ذمہ دار یحییٰ اور بھٹو تھے۔ سنسر تو اس لیے تھا کہ قوم کا مورال ڈاؤن نہ ہو ۔( ریاست کی یہ پالیسی آج بلوچستان پر کامیابی سے نافذ ہے)۔
جبکہ آئی ایس پی آر کے اس وقت کے ڈائریکٹر بریگیڈئیر اے آر صدیقی کے مطابق عین لڑائی کے دنوں میں بھی یحییٰ خان اور ان کے دستِ راست جنرل عبدالحیمد کا مورال میڈم نور جہاں وغیرہ کی بدولت ہائی رہتا تھا۔ میڈم ٹوکیو میں بھی ہوتیں تو فون پر صدر صاحب کو فلم ’مستانہ ماہی‘ کا گانا سنانا نہ بھولتیں ’سئیوں نی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آ گیا۔‘
شیخ مجیب الرحمان نے سنہ 1966 میں چھ نکات پہلی بار لاہور میں پیش کیے تھے۔ ایوب خان کی ڈائریوں میں 1966 کی ڈیٹ لائن سے ایک جگہ لکھا ہے ’آج میں نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو اس سوال کا جائزہ لے گی کہ اگر مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا ہے تو پاکستان کی معاشی تصویر کیا ہو گی؟‘
جسے معاشی تصویر کا موازنہ کرنا ہے، ڈھاکہ جا کے بچشمِ خود کر لے۔ مورال ہمارے حصے میں آ گیا ترقی ان کے حصے میں سیاست ہمارے ہاں کل بھی بی ٹیم تھی آج ماشااللہ سی ٹیم بن چکی ہے،اور کیا چاہیے۔