دنیابھرسے

’پاکستان کو چوڑیاں پہنانے والے‘ نریندر مودی کے تیسری بار وزیراعظم بننے سے پاکستان انڈیا تعلقات میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟

Share

انڈیا میں عام انتخابات کے بعد اب آنے والی حکومت کا خاکہ کافی حد تک واضح ہو چکا ہے۔ نریندر مودی حکومت بنانے کا اعلان کر چکے ہیں اور حکومت سازی کی لیے بی جے پی کی حلیف پارٹیاں اور ان کے مخالفین پر مشتمل انڈیا الائنس (انڈیا) اس وقت جوڑ توڑ اور مشاورت کے مرحلے میں ہیں۔

کئی مہینوں تک جاری رہنے والی انتخابی مہم میں پاکستان کی گونج سنائی دیتی رہی۔ خاص طور سے نریندر مودی نے متعد بار پاکستان کو نشانہ بنایا۔ ریاست بہار کے مظفرپور علاقے میں ایک تقریر میں اپنے مخالف انڈین نیشنل کانگریس کے زیر قیادت سیاسی اتحاد پر بزدل ہونے کا الزام لگاتے ہوئے مودی نے دعویٰ کیا کہ انڈیا الائنس کے لیڈر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے خوفزدہ ہیں۔

’اگر پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں تو ہم پہنا دیں گے۔ ہمیں معلوم تھا کہ پاکستان کے پاس کھانے کو اناج نہیں۔ لیکن اب ہمیں پتا چلا ہے کہ ان کے پاس چوڑیوں کی بھی کمی ہے۔‘

نریندر مودی کے حامیوں سے بھرے پنڈال نے انھیں اس جملے پر خوب داد تھی۔

اس طرح ریاست گجرات میں ایک جلسے میں انھوں نے اپنے سیاسی مخالف راہل گاندھی اور ان کی پارٹی پر پاکستان نواز ہونے کا الزام لگایا اور جلسے میں آئے اپنے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے سنا ہوگا کہ اب پاکستانی لیڈرز کانگریس کی جیت کے لیے دعا کررہے ہیں۔‘

’پاکستان شہزادے یعنی راہل گاندھی کو انڈیا کا وزیراعظم بنوانا چاہتا ہے۔ پاکستان اور گانگریس کی شراکت اب پوری طرح بے نقاب ہو چکی۔‘

یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ سنہ 2019 میں بھی نریندر مودی اور ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا انتخابی بیانیہ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان مخالف جذبات بھڑکا کر کھڑا کیا تھا۔ اس بار سرحد پر تو امن سکون رہا لیکن پاکستان پر لفظی حملے ہوتے رہے۔

اس سب کے باوجود پاکستان میں انڈین انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دیکھی گئی۔

کچھ سوشل میڈیا صارفین جن میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری بھی شامل ہیں، کے سمیت کچھ لوگ اس بارے میں ہلکی پھلکی ٹویٹس کرتے رہے لیکن اسے کسی بڑے ایشو کے طور پر زیر بحث نہیں لایا گیا۔

چونکہ پاکستان میں روایتی طور پر انڈین سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں دیکھی جاتی اور نہ ہی عام لوگوں کو وہاں کے سیاسی خدوخال سے زیادہ واقفیت ہے اس لیے پولنگ کے آخری مرحلے تک جب بھی ہماری عام لوگوں سے بات ہوئی تو ان کے ذہنوں میں صرف اس بات کو لے کر خدشات تھے کہ اگر انڈیا میں ایک بار پھر بی جے پی سرکار بنی تو وہاں پر موجود مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوگا؟

ووٹ

’چار سو پار کا خواب چکنا چور‘

تاہم چار جون کو جب الیکشن نتائج سامنے آئے اور عمومی اندازوں اور ایگزٹ پولز کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی کو توقع سے کافی کم نشستیں ملیں تو پاکستان میں میڈیا اور لوگوں کو خوشگوار حیرت ہوئی اور ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔

کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے مودی کا ’چار سو پار‘ کا خواب چکنا چور ہونے کی ہیڈلائنز لگائیں اور مودی کے انتحابی مخالفین کی مزاحمت اور کامیابی پر تجزیے اور تبصرے ہوتے رہے۔

نریندر مودی اور ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی اس بار دعویٰ کر رہی تھی کہ وہ لوک سبھا میں چار سو سے بھی زیادہ نشستیں جیتیں گے لیکن وہ 300 کی حد بھی عبور نہیں کر پائے یہاں تک کہ بھارتیہ جنتا پارٹی تو سادہ اکثریت لینے میں بھی کامیاب نہیں ہو پائی اور اتحادیوں کے بغیر حکومت بنانے کے قابل نہیں۔

لیکن اس کے باوجود انڈیا میں حکومت تو بی جے پی کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس ہی کی بننے کا امکان ہے کیونکہ مجموعی طور پر ان کے پاس کانگریس کے حمایت یافتہ انڈیا بلاک سے زیادہ نشستیں ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے ان نتائج پر رائے دی۔ کئی پاکستانی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پاکستان اور انڈیا کے انتخابات کا موازنہ کرتے رہے۔

زبیرعلی خان نے لکھا کہ پہلے پاکستان اور اب انڈیا میں عوام نے ثابت کیا کہ میڈیا ’مینیج‘ کر کے کامیابی کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔

داوڑ بٹ بولے کہ ’عوامی احتساب ہی جدید ریاستوں کی بنیاد ہے۔ پاکستان میں ایسا احتساب ناپید ہے جہاں غیر جمہوری ادارے غیر آئینی طریقوں سے منصفانہ انتخابات کی راہ میں حائل ہیں۔‘

شجاع عظمیٰ نے لکھا کہ پاکستانی بہت منافق ہیں وہ انڈیا میں تو سیکولر پارٹیوں کو جیتتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خود دہشتگردی کرنے والی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔

روایتی میڈیا پر تجزیوں اور تبصروں کا مرکز مودی کی مسلسل تیسری حکومت میں انڈین مسلمانوں کے حوالے سے تحفظات پر رہا۔

انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنے اداریے میں اس امید کا اظہار کیا کہ اس عاجزانہ کامیابی کے بعد سیاسی مفادات کے لیے مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی اشتعال انگیز بیان بازی اور زہرآلود فرقہ واریت میں کمی آئے گی جس کا پرچار پچھلے دس سال سے کیا جا رہا تھا۔

انڈیا

’مزید جارحانہ اور پراعتماد انڈیا‘

ان الیکشن نتائج کے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟ عوامی حلقوں کی طرح خارجہ پالیسی کے حلقوں میں بھی یہ خیال پایا جاتا ہے کہ کم مارجن سے جیتنے کے باوجود اور داخلی طور پر سیاسی لحاظ سے کمزور ہونے کے باوجود اپنی تیسری وزارت عظمیٰ کے دوران بھی مودی سرکار سے پاکستان کے حوالے سے کسی مثبت پیشرفت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اسلام آباد کے انسٹیوٹ فار سٹریجک سٹڈیز میں انڈیا سڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس سمجھتے ہیں کہ دونوں ملک اس وقت ایک سخت گیر موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر انڈیا کا رویہ انتہائی غیرلچکدار ہے۔

اس ماحول میں پاکستان میں توقع یہی ہے کہ بی جے پی سرکار اپنی پاکستان مخالف پوزیشن کو برقرار رکھے گی بلکہ اس بات کا ڈر رہے گا کہ اس انتخابی شکست کے بعد وہ پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکا کر اپنے لیے عوامی حمایت میں اضافہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔

ڈاکٹر خرم عباس نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایسی صورت میں کشمیر، گلگت بلتستان اور سندھ طاس معاہدے جیسے معاملات پر درجہ حرارت بڑھ سکتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ اس وقت انڈیا میں ایک سیاسی اور سٹریٹجک ہم آہنگی ہے کہ پاکستان سے تعلقات کو بہتر کرنے میں کوئی سیاسی یا اقتصادی فائدہ نہیں۔

انڈیا کے سابق وزیردفاع اور نریندر مودی کے بہت قریب سمجھے جانے والے راج ناتھ سنگھ ’پاکستان کو گھر میں گھس کر مارنے‘ کی بات کر چکے ہیں۔

یہی بی جے پی کی پالیسی ہے جسے ان کے رہنما انتخابی بیانیے میں بھی دہراتے رہے ہیں۔ اس لیے مستقبل میں بھی بی جے پی سرکار کی پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی جارحانہ پالیسی ہی جاری رہنے کا امکان ہے۔

ڈاکٹر خرم عباس کی رائے میں انڈیا کی جانب سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور پاکستان دشمن مسلح گروہوں کی خفیہ مدد کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ انڈین ہینڈلرز کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر پاکستانی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی ہوتے رہے۔ ان واقعات پر پاکستان کو کافی تشویش ہے۔

ڈاکٹر عباس کے مطابق 30 ستمبر سے پہلے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ریاستی انتخابات ہونے تک پاکستان کو یہ خدشہ بھی رہے گا کہ اسے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کسی دہشتگرد کارروائی میں ملوث کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اگر وہاں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ہوا تو مودی سرکار پاکستان کو اس میں گھسیٹ لے گی۔

’جب تک پاکستان پر تنقید بی جے پی کو سیاسی فائدہ دیتی رہے گی تعلقات کے معمول پر آنے کی سوچ صرف خواہش ہی رہے گی تاہم ان سب باتوں کے باوجود پاکستان کشیدگی کم کرنے کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی اور کسی مشترکہ دوست کی مدد سے رابطے بہتر کرنے کے لیے گنجائش ضرور رکھے گا۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت کے حوالے سے پاکستان کے وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کچھ اشارے دیے تھے، ڈاکٹر خرم عباس کے تجزیے کے مطابق اس حوالے سے پاکستان کی پالیسی ’ویٹ اینڈ واچ‘ کی ہو گی۔ ’وہ انتظار کرے گا کہ دہلی سے کیسی اشارے ملتے ہیں۔ اسی کے مطابق پاکستان حکمت عملی اختیار کرے گا۔‘

’کوئی پارٹی تعلقات معمول پر لانے کی جرات نہیں کر سکتی‘

انڈیا

اسلام آباد میں خطے کی صورتحال پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک انسٹیوٹ فار ریجنل سٹڈیز میں انڈیا پر تجزیہ کار مریم مستور کا خیال ہے کہ نریندر مودی نے گذشتہ دس برس میں پاکستان مخالف جذبات کو اتنا بھڑکا دیا ہے کہ فی الحال بی جے پی اور اس کا انتخابی اتحاد تو کیا کوئی بھی پارٹی پاکستان سے تعلقات کو معمول پر لانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔

مریم کہتی ہیں کہ اپنی اتنخابی سیاست بچانے اور اقتدار میں آنے کے لیے نریندر مودی نے جس حد تک پاکستان کے خلاف نفرت کو بڑھا دیا، ایسی صورت میں یہ امید رکھنا کہ وہ یا کوئی بھی اور سیاسی شخصیت پاکستان کے ساتھ تعلقات میں نرمی لانے کی بات بھی کر پائے ابھی تو تقریباً ناممکن لگتا ہے۔

’تو بھلے مودی تگڑے مینڈیٹ سے آئیں یا کمزور پاکستان کے لیے تو یہ برابر ہے بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے اور لوگوں کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹانے لیے پاکستان کو مزید نشانہ بنانے سے گریز نہ کریں۔‘

لیکن ڈاکٹر خرم عباس کہتے ہیں کہ صرف ایک امید ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ نریندر مودی اپنے لیے کیسی میراث چھوڑنا چاہتے ہیں۔

بہت سے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ بحیثیت وزیراعظم یہ ان کا آخری دور ہو سکتا ہے۔ تو اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایک امن قائم کرنے والے شخص کے طور پر یاد رہنا چاہتے ہیں یا پھر تقسیم کرنے والے کے طور پر۔