بات بات پر بھڑک اُٹھنے والے والدین سے کیسے نمٹا جائے؟
’میرے والدین نے مجھے ذہنی دباؤ کا شکار کر دیا تھا، میں تقریباً روز ہی رویا کرتی تھی۔ اس لیے میں نے انھیں نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا۔ کسی بیٹی کے منھ سے اپنے والدین کے لیے ایسے الفاظ سُننا عجیب سا لگتا ہے اور بیٹی بھی وہ جو خود ماں بن چکی ہو۔‘
ساریکا کہتی ہیں کہ برسوں سے ان کے والدین نے انھیں ’بے جا تنگ‘ کر رکھا ہے اور اس وجہ سے ان کی دماغی صحت بھی متاثر ہوئی۔
ملائیشیا میں مقیم 30 سالہ ساریکا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اس سے شدید متاثر ہوئی، خاص طور پر جب میں حاملہ تھی۔‘
انھوں نے اپنے والدین سے رابطہ بالکل محدود کر دیا ہے لیکن ان کے لیے والدین سے دوری اختیار کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔
ساریکا مزید کہتی ہیں کہ ’ہمیشہ ایک گناہ کا سا احساس رہتا ہے۔‘ لیکن ایسا کرنے والوں میں ساریکا اکیلی نہیں۔
کینیا سے تعلق رکھنے والی ایشلے کہتی ہیں کہ ’میرے والد ایک خودپسند شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ کبھی بھی میرے سکول نہیں آئے، میری گریجویشن پر نہیں آئے۔ ان کے پاس ہمیشہ کوئی بہانہ ہوتا تھا۔‘
ایشلے کے مطابق ہمیشہ ان کے والد ان کے معاملات میں غیر موجود رہے اور پھر بھی انھیں ایشلے سے شکایات رہتی تھیں۔
’اس بے جا تنگ کرنے والے برتاؤ سے محفوظ رہنے میں میری والدہ نے میری مدد کی۔ اس سے بچانے کے لیے وہ جو کرسکتی تھیں انھوں نے کیا۔‘
ایشلے کے مطابق ’ان کے والدین کی شادی تو بہت پہلے ختم ہو گئی تھی لیکن وہ پھر بھی اس رشتے میں رہے کیونکہ افریقی سماج میں طلاق ایک بُری چیز سمجھی جاتی ہے۔‘
ایشلے نے اپنے والد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’اب وہ اکثر یہ پوچھنے کے لیے مجھے فون کرتے ہیں کہ مجھے نوکری ملی یا نہیں تاکہ میں انھیں کچھ خرید کر دے سکوں۔‘
ایشلے اور ساریکا بھلے ہی ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دور رہتی ہوں لیکن ان کی زندگیوں میں ہمیں مماثلت نظر آتی ہے۔
ان دونوں خواتین کے مطابق ان کے والدین ضرورت کے وقت ہمیشہ غائب رہے لیکن پھر بھی وہ انھیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے کیریئر کے حوالے سے فیصلوں، لوگوں سے تعلقات اور شادیوں میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔
ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت سارے لوگوں نے بھی اس حوالے سے ویڈیوز پوسٹ کی ہیں اور بتایا ہے کہ انھوں نے اپنے والدین سے رابطے کیوں منقطع کیے۔ ان سب کا یہی کہنا ہے کہ والدین کے بے جا تنگ کرنے کی وجہ سے وہ بچپن سے ہی ڈر اور پچھتاوے کا شکار رہے ہیں۔
برٹش ایسوی ایشن فار کاؤنسلنگ اینڈ سائیکوتھراپی سے منسلک ماہرِ نفسیات آیو اڈیسیو کا کہنا ہے کہ ’والدین کی طرف سے بے جا تنگ کیے جانے کی وجہ سے ماہرِین نفسیات کی مدد لینے والوں کی تعداد کافی زیادہ بڑھ گئی ہے۔‘
بے جا تنگ کرنے والے والدین ہوتے کیسے ہیں؟
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق بچوں کو عزت و احترام دیا جانا چاہیے اور انھیں تشدد اور شرم کے احساس سے آزاد ہونا چاہیے۔
بے جان تنگ کرنے والے والدین سے مراد وہ افراد ہیں جو بچوں کی مثبت پرورش نہیں کرتے بلکہ ان میں منفی خصوصیات ہوتی ہیں جیسے کہ بچوں ڈرانا دھمکانا، شرمسار کرنا یا ان کے فیصلوں پر اختیار رکھنے کی کوشش کرنا۔
آیو اڈیسیو کہتی ہیں کہ بچوں سے ان کے پارٹنر کے حوالے سے سوال کرنا بے جا تنگ کرنے کے ذمرے میں نہیں آتا لیکن ان سوالات کے دوران بچوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنا یا بھڑک اٹھنا ضرور بے جا تنگ کرنا کہلاتا ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں ’کبھی کبھار والدین انجانے میں ایسا کر رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ آگاہی یا علم میں کمی ہو سکتی ہے۔‘
بچوں کے فیصلوں پر اختیار رکھنے والے اور خود پسند والدین
آیو اڈیسیو کہتی ہیں کہ ان کا واسطہ اکثر دو طرح کے والدین سے پڑتا ہے۔ بے جا تنگ کرنے والے والدین میں ایک وہ ہیں جو اپنے بچوں کے کیریئر، تعلیم، پیشہ ورانہ زندگی اور رشتوں میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔
دوسرے وہ والدین ہوتے ہیں جو کہ خود پسند ہوتے ہیں۔ یہ افراد اپنی ذات کو اپنے بچوں پر فوقیت دیتے ہیں۔
تاہم برطانیہ میں مقیم ماہرِ نفسیات ایلیسن کورنر کہتی ہیں کہ بے جا تنگ کرنے والے والدین کی مزید اقسام بھی ہیں۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایلیسن نے ایک ویب سائٹ بنائی ہے جہاں وہ نوجوانوں کی ذہنی صحت بہتر کرنے کے طریقے شیئر کرتی ہیں۔
ان کے مطابق بے جا تنگ کرنے والے والدین کی بہت سی اقسام ہیں:
- ایسی مائیں جو بچوں سے پوچھے بغیر ان کے لیے فیصلے لے لیتی ہیں
- ایسی مائیں جو بچوں کے ہر کام میں غلطیاں نکالتی ہیں
- ایسی مائیں جن کی زندگی میں کچھ کمی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کمی اپنے بچوں کے ذریعے پوری کرنا چاہتی ہیں
- ایسے والد جو اپنے بچوں کو کچھ بھی خود سے بہتر کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے
- ایسے والد جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں آجاتے ہیں اور خود پر سے قابو کھو بیٹھتے ہیں
- ایسے والد جو تمام فیصلے اور ذمہ داریاں ماؤں پر چھوڑ دیتے ہیں
ایلیسن کہتی ہیں کہ وہ دنیا بھر سے اکثر ’دل چیر دینے والی اور دُکھی کہانیاں‘ سنتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر وہ اکثر متاثرین کی مدد کے لیے انھیں خودکشی سے محفوظ رکھنے والی بین الاقوامی ہیلپ لائن پر فون کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔
سماجی بوجھ
ساریکا کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے والدین کے بارے میں اپنے خاندان کے ایک قریبی شخص سے بات کرنے کی کوشش کی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کوئی ایسا فرد جو ان کے بارے میں مخصوص رائے نہ رکھتا ہو، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور بعد میں تمام لوگوں نے ان ہی پر الزامات عائد کیے۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہمارا کلچر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بچے غلط ہیں اور والدین ہمیشہ صحیح ہوتے ہیں۔ لوگ اکثر کہتے ہیں بنا آگ کے کہیں سے بھی دھواں نہیں اُٹھتا۔‘
پروفیسر کرس شنچنگ ہانگ کانگ یونیورسٹی سے منسلک ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ والدین کے ایسے رویوں کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر چین میں صرف ایک بچے کو جنم دینے کا قانون ہیں اور اسی سبب وہاں والدین اپنے بچے کے علاوہ کسی اور پر انحصار نہیں کرتے۔
’اسی وجہ سے بچے پر والدین کی توقعات پوری کرنے کے لیے زیادہ دباؤ پڑتا ہے کیونکہ اس کے والدین نے اس کی پرورش کرنے کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہوتی ہیں۔‘
بہت سارے والدین اپنے بچوں سے صرف جذباتی لگاؤ کی توقع رکھ رہے ہوتے ہیں اور بچے ایسے والدین کے لیے زیادہ فکرمند بھی رہتے ہیں۔ خاص طور پر جب ان کے والدین ایک ٹوٹی پھوٹی شادی میں جُڑے ہوتے ہیں یا پھر والد کا کسی اورخاتون سے بھی معاشقہ ہوتا ہے۔
پرفیسر کرس کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ سب بھی بے جا تنگ کرنے کے زمرے میں آتا ہے اور بچوں کے لیے اس حوالے سے بات کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کچھ ہی اپنی ماؤں کے لیے دُکھ سُکھ کے ساتھی بن جاتے ہیں۔‘
آیو اڈیسیو کہتی ہیں کہ ان تمام باتوں کے سبب بچوں کے دماغ پر ایسے اثرات پڑتے ہیں جس سے ان کی خود داری کو ٹھیس پہنچتی ہے، وہ اپنے ناقد ہوجاتے ہیں، ہمدردی رکھنا چھوڑ دیتے ہیں، لوگوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں یا لوگوں سے مدد مانگنے میں کترانے لگتے ہیں۔
ایسے والدین سے کیسے نمٹا جائے؟
ساریکا کہتی ہیں کہ ان کا ان کے والدین کے ساتھ رشتہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا جب انھوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے والدین ان کی شادی کے خلاف تھے۔
’میرے والدین نے ظاہری طور پر میرے لیے سب کچھ کیا اور میں نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘
ان کے مطابق ان کے والد اکثر کہتے ہیں کہ ’تم میرے خاندان کے لیے شرم کا باعث ہو۔‘
ساریکا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک ایسا وقت آیا کہ مجھے بھی لگنے لگا کہ شاید میں غلط ہوں۔‘
برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر آشا پٹیل کہتی ہیں کہ اپنے والدین کے ایسے اعمال کو غلط کہنا یقیناً بچوں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن بچوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذہنی صحت کو ترجیج دیں۔ ’کوئی بھی شخص آپ کی ذہنی صحت کی فکر نہیں کرے گا، یہ آپ کو خود ہی کرنا پڑے گا۔‘
آیو اڈیسیو کہتی ہیں کہ اپنے والدین سے غیرضروری بحث کیے بغیر بھی بچے اس رشتے میں حدود مقرر کر سکتے ہیں اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب وہ خود اعتراف کرلیں کہ اب وہ بچے نہیں رہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اکثر مریضوں میں یہ بات دیکھتی ہوں کہ وہ بڑوں کی طرح برتاؤ کرنے کے بجائے بچے بن جاتے ہیں۔‘
ایشلے نے بھی ان مشوروں پرعمل کیا اور اپنے والد کے ساتھ اپنے رشتے کو محدود کر دیا اور اپنی ذہنی صحت کو ترجیح دی۔
دوسری جانب ساریکا کہتی ہیں کہ وہ اپنی نومولود بیٹی کے لیے ایک اچھی والدہ بننے کے لیے پُرعزم ہیں۔
’میں بس اپنے والدین کی طرح نہیں بننا چاہتی، میں اپنی بیٹی کا ساتھ دینا چاہتی ہوں اور اسے اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے دینا چاہتی ہوں۔‘