پاکستان

چمن: کیمپ اکھاڑنے کے بعد مظاہرین کی ڈی سی آفس میں توڑ پھوڑ، متعدد گرفتار

Share

بلوچستان کے ضلع چمن میں مقامی حکام کی جانب سے مظاہرین کے کیمپوں کو اکھاڑ پھینکنے اور کوئٹہ چمن ہائی وے کھولنے کے بعد دھرنے کے شرکاء نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی، جس کے نتیجے میں 7 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

 رپورٹ کے مطابق مقامی حکام نے دھرنا مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کوئٹہ چمن ہائی وے کو آمدروفت کے لیے کھولا، تاہم مظاہرین نے کچھ ہی دیر بعد شاہراہ کو ایک بار پھر بلاک کردیا جس کے نتیجے میں سرحدی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہر قسم کی تجارت اور آمدورفت معطل ہو گئی۔

حکام نے بتایا کہ مقامی انتظامیہ، فرنٹیئر کور اور لیویز کے اہلکاروں نے آپریشن کیا اور سڑک سے تمام رکاوٹیں ہٹا دیں، کچھ افراد نے بتایا کہ مظاہرین کے کیمپوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔

سڑک کے دوبارہ کھلنے کے بعد افغان ٹرانزٹ، درآمدی اور برآمدی سامان سے لدے سینکڑوں ٹرک اور دیگر گاڑیاں سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوگئیں، جو شیلا باغ میں پھنسے ہوئے تھے۔

تاہم، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے وہاں سے چلے جانے کے بعد، دھرنے کے شرکا نے دوبارہ سے شاہراہ بلاک کردی اور چمن کے نواحی علاقے گڑنگ میں ٹرکوں اور لیویز اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔

پولیس اور لیویز اہلکاروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں کشیدگی بڑھ گئی، بعد ازاں مظاہرین کی بڑی تعداد چمن میں ڈی سی آفس کے سامنے جمع ہوگئی اور مقامی حکام کے آپریشن کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔

مظاہرین کے ایک گروپ نے ڈی سی آفس میں گھس کر توڑ پھوڑ کی، فرنیچر، کمپیوٹر اور دیگر سامان کو نقصان پہنچایا۔ تاہم دفتر پر تعینات لیویز فورس نے ہجوم کو منتشر کردیا اور اس دوران 7 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔

مقامی صحافیوں نے بتایا ہے کہ مظاہرین میں سے کچھ نے ڈی سی کمپلیکس کے احاطے میں واقع چمن پریس کلب کی عمارت پر بھی پتھراؤ کیا، جس کے نتیجے میں اس کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

ڈی سی اطہر عباس راجہ کے مطابق مظاہرین شام تک ان کے دفتر کے باہر موجود تھے اور اس معاملے پر بات چیت چل رہی تھی، انہوں نے آفس پر حملے کے نتیجے میں 7 افراد کی گرفتاری کی تصدیق بھی کی۔

دوسری جانب مظاہرین کا کہنا تھا کہ دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی اور غوث اللہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

شرپسندوں کا پولیو ٹیم پر حملہ

ایک بیان میں ضلعی انتظامیہ نے کہا کہ انسداد پولیو مہم کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں کچھ شرپسندوں نے پولیو ٹیم پر حملہ کرکے دو لیویز اہلکاروں کو زخمی کردیا اور خواتین پولیو ورکرز کو بھی زدوکوب کیا۔

ڈپٹی کمشنر نے چمن میں امن و امان کے لیے دھرنا کمیٹی کے رہنما سے مذاکرات کیے، تاہم مذاکرات کے دوران، کچھ مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر اطہر عباس راجہ پر حملہ کیا اور ان کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے سرخ لکیر عبور کر لی ہے اور اب ان کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی جائے گی۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ مظاہرین نے گزشتہ کئی ماہ کے دوران کئی بار ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دھرنے کے نام پر عوام کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانا اب قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا ہے کہ فساد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرکے امن بحال کیا جائے گا، انہوں نے بتایا کہ سرحدی تجارت سے متاثر ہونے والوں کو معاوضہ ادا کیا جا رہا ہے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ترجمان نے دھرنے پر کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کی بھی مذمت کی، اور حراست میں لیے گئے مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں دھرنا کمیٹی کے ڈنڈا بردار افراد نے پولیو ٹیم پرحملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں 4 لیویز اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

ترجمان صوبائی حکومت نے بتایا تھا کہ لیویز اہلکاروں سے اسلحہ اور انسداد پولیو مہم کی ٹیم سے ویکسین چھیننے کی کوشش کی گئی، ڈپٹی کمشنر چمن راجا اطہر عباس نے بتایا تھاکہ دھرنا کمیٹی کے ڈنڈا بردار افراد نے پولیو کی ٹیم پر حملہ کیا، اور کلی محمد حسن ٹھیکیدار، کلی میرالزئی اور کلی حاجی باقی جان میں زبردستی مہم کو بند کرنے کی کوشش کی گئی، ملزمان نے پولیس، لیویز سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی، علاقے میں مزید نفری روانہ کردی گئی۔