حقیقت اور عقیدت
ان دِنوں ایک پوسٹ بہت وائرل ہے، آپ بھی پڑھ لیجئے۔ جوزف نیٹر نے کیمرہ ایجاد کرکے سب سے زیادہ نقصان برصغیر کی’’ تصوف انڈسٹری ‘‘ کو پہنچایا۔ اس فرانسیسی گورے کا بیڑا غرق ہوکہ اب کسی بزرگ اور ولی نے کشتی کو کنارے نہیں لگایا، اس منحوس آلے کی ایجاد کے بعد کوئی ولی تیل کے کڑاہوں میں چھلانگ لگاتا نظر نہیں آیا، کیمرے کی ایجاد کے بعد نہ کوئی مردے کو زندہ کرتا ہے نہ کوئی بابا کچے دھاگے سے کنوئیں میں لٹکا نظر آتا ہے اور نہ کوئی ہوا میں اڑتا جاتا ہے۔ یہ پوسٹ نامور اور صاحب اسلوب اداکار فردوس جمال کے نام کے ساتھ وائرل ہوئی ہے۔ فردوس جمال ان اداکاروں میں سے ایک ہیں جو بہت پڑھے لکھے ہیں چنانچہ لگتا ہے یہ پوسٹ انہی کے ذہن کی دین ہے۔بات یہ ہے کہ فردوس جمال نے تو بہت سلیقے سے اپنی بات کہی ہے، وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کی منافع بخش انڈسٹری چلانے والے ان بزرگوں کے نام پر لاکھوں کروڑوں روپے کماتے ہیں، جلسوں اور مجالس میں سامعین کی ڈھیروں داد اس کے علاوہ ہے۔ مگر جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آج کی پڑھی لکھی نسل میں اس سے کہیںبڑےسوالات پیدا ہورہے ہیں اور ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ ان دنوں اس واعظ اور اس ذاکر کی کہیں کوئی ڈیمانڈ نہیں جو اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کے پیاروں کی حیات طیبہ کے بارے میں انہیں بتائے تاکہ وہ گمراہ ہونے کی بجائے ان کے اسوہ حسنہ کو اپنائیں۔ آپ جب انہیں وہ معجزے سنائیںگے جن کےبارےمیں قرآن مجید میں کہیں ذکر نہیں۔نبی اکرمؐ کے بارے میں صرف معراج کا ذکر ہے اور احادیث میں صرف ایک معجزے کا ذکر ہے اور اس کے راوی مستند ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے،افراد زیادہ تھے پانی یا کھانا کم پڑ رہا تھا حضورؐ نے اس برتن کو ہاتھ لگایا تو جتنی ضرورت تھی وہ پوری ہونے کے بعد بھی بچ گیا۔ میری اس بات کی تصدیق کسی بھی جید عالم دین سے کرا سکتے ہیں کسی واعظ یا ذاکر سے نہیں۔
بہرحال فردوس جمال نے تو کیمرے کی بات کی ہے،اب اس کا کیا علاج کہ فضاؤں میں چار پانچ سو مسافروں کو لے کر جہاز آسمان کا سینہ چیر کر ہزاروں میل کا سفر طے کر رہے ہیں، آپ ایک آلے کو کان سے لگائیں اور دنیا کے دوسرے کونے پر بیٹھے شخص سے گھنٹوں باتیں کریں، سنی سنائی بات کی بجائے آپ چاند پر چہل قدمی کرتے خلا نوردوں کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، آج کے سائنسدان آپ کوبتا سکتے ہیںکہ کل بارش ہوگی، وہ بتا سکتے ہیں کہ حاملہ کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ نر ہے یا مادہ ہے، وہ دو گردوں کی بجائے آدھے گردے کے ساتھ بھی آپ کو ریگولر زندگی بسر کرا سکتے ہیں۔ اوپر سے گوگل بھی آگیاہےآپ اس بے جان آلےسے کچھ پوچھیں،یہ بولنا شروع کر دے گا، مصنوعی ذہانت بھی ایجاد ہوگئی ہے، وہ آپ کیلئے شاعری بھی کرسکتی ہے، آپ چاہیں تو اسے موضوع بتائیں وہ آپ کی پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی سہولت سے دلوا دے گی۔ ہم پہلے صرف اپنی اس زمین ہی کو پوری کائنات سمجھتے تھے، قرآن نے اشارتاً بتایا کہ اس کے علاوہ بھی اور بہت سی دنیائیں ہیں، چنانچہ اللہ نے خود کو رب العالمین کہا، مگر اس کی تفسیر کسی مفسر نے نہیں سائنس دانوں نے کی اور بتایا کہ اربوں کھربوں دنیائیں اورہیں ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں کہ کروڑ ہا برس پہلے کی تخلیق کے باوجود ان کی روشنی سفر میں ہے اور ابھی تک ہماری زمین کو ٹچ نہیں کرسکی، ہمارے دینی فرائض کی ادائیگی میں بھی بہت سہولت پیداکردی گئی ہے، آپ حج پر جائیں، عمرے پر جائیں، زیارتوں پر جائیں، اب پیدل یا خچروں پر نہیں جانا پڑتا، آپ کیلئے شاہی سواری کا بندوبست کردیا گیا ہے۔ یہ تمام مقامات اور ہماری مسجدیں بھی گرمیوں میں سرد اور سردیوں میں گرم کردی گئی ہیں۔ میں اپنی بات مختصر کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عوام کو ان نیک بندوں کے بارے میں بھی سچ بتائیں جن کی ساری زندگیاں ہماری نظروں کے سامنے ہیں، ہم نے انہیں کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا، گفتگو میں ملاوٹ نہیں دیکھی، تمام عمر روکھی سوکھی کھائی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ لوگ ان کے پاس دعا کیلئے جاتے تھے اور ان کی دعا میں برکت ہوتی تھی، ان کی صحبت میں جو لوگ بیٹھتے تھے وہ اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہو کر اٹھتے تھے، ہم نے ان میں کوئی مافوق الفطرت کمال نہیں دیکھا، ان کا سب سے بڑا کمال اپنے نیک اعمال سے لوگوں کو دین کی طرف راغب کرناتھا۔ ان دنوں واعظ اور ذاکر بزرگوں سے جو کچھ منسوب کر رہے ہیں وہ اسلام کی نہیں صرف اپنی خدمت کرتے ہیں، ہمارے لئے صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کافی ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ہمیں حیوان سے انسان بننا پڑتا ہے جبکہ دوسری صورت میں بعض صورتوں میں آپ ایمان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
آخر میں اپنی ایک نعت جو میں نے روضہ رسولؐ کی دیوار کےساتھ ٹیک لگا کر کہی تھی:
ہے مرا چارہ گر مدینے میں
منزل و راہبر مدینے میں
سارے رستے حضورؐ کے گھر کے
ہو گئے ہم سفر مدینے میں
کتنی صدیوں پہ ہوگئے ہیں محیط
میرے شام و سحر مدینے میں
کتنی صبحیں ظہور کرتا ہے
جاگنا رات بھر مدینے میں
تو نے کچھ بھی تو دیکھنے نہ دیا
اے مری چشم تر مدینے میں
کیسے کعبے سے ہو کے لوٹ آؤں؟
میرا رختِ سفر مدینے میں
یاد فرمائیے مرے مولا
مجھ کو بارِ دگر مدینے میں
کتنے ہوتے ہیں خوش نصیب عطاؔ
جن کے ہوتے ہیں گھر مدینے میں