منتخب تحریریں

آٹا مافیا کا ظہور

Share

ہمارے ہاں کی پرانی روایت ہے کہ جب کسی چیز کی تردید بڑے شدومد اور زوروں سے کی جائے تو سمجھیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ آج کل یہی صورتحال ہے۔ حکومتی حلقے بڑے زوروشور سے کسی تبدیلی کا رد کر رہے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے کہ تبدیلی کے دعویدار اب خود کسی تبدیلی کے امکان کے منکر ہیں۔ ملک عزیز میں جب کسی حکومت کی مضبوطی کا دعویٰ کیا گیا تبھی حکومت کمزور ثابت ہوئی۔ جب کسی حکومت کی تبدیلی کے امکان کو رد کیا گیا تبھی حکومت تبدیل ہوئی اور اب بھی عین یہی صورتحال ہے۔ جیسے جیسے حکومتی دیوار کی اینٹیں سرکتی جا رہی ہیں ویسے ویسے طبلچیوں کی جانب سے دیوار کی مضبوطی کا طبلہ بجایا جا رہا ہے۔
تبدیلی کے دو امکانی منظرنامے ہیں۔ اسمبلی کی رخصتی اور اسمبلی کی موجودگی میں صرف وزیر اعظم کی رخصتی۔ اگر موجودہ سیٹ اپ کو تبدیل کرنا ہی مقصود ٹھہرا ہے تو پھر میرے خیال میں پہلا آپشن زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ عمران خان وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنے کے بجائے اسمبلی کو گھر بھیج دیں گے‘ مڈ ٹرم الیکشن کروا کر دوبارہ قسمت آزمائی کریں گے اور اگر (گو کہ اس کا امکان اس صورت میں کم ہی نہیں بلکہ معدوم نظر آتا ہے) وہ دوبارہ برسر اقتدار آ گئے تو پھر اصل دما دم مست قلندر ہوگا۔
ایمانداری کی بات ہے کہ عمران خان صاحب کو لوگوں نے ایک جنگجو اور سمجھوتہ نہ کرنے والا شخص سمجھ کر ووٹوں سے لادا تھا‘ لیکن اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہی عمران خان وہ والے عمران خان نہ رہے جو ٹی وی پر بیٹھ کر شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے‘ جو چوہدریوں کو کرپشن کا بڑا گھر قرار دیتے تھے‘ کسی قسم کی ایکسٹینشن کے خلاف دھواں دھار تقریر کیا کرتے تھے‘ این آر او دینے والوں کو صبح شام مطعون کرتے تھے اور کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کے دعویدار تھے۔ اب صورتحال یہ ہے شیخ رشید صاحب عمران خان کے وزیر ہیں‘ چوہدری پرویز الٰہی اتحادی ہیں، سپیکر پنجاب اسمبلی ہیں اور ان کی پارٹی وزارتوں میں حصہ دار ہے۔ ایکسٹینشن کے بارے میں کیا کہوں؟ سب کو مجھ سے کہیں زیادہ علم ہے۔ این آر او کا کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہو چکا ہے اور کرپشن پہلے کی طرح جاری و ساری ہے؛ تاہم اس کی شرح فیصد میں اضافہ ہو گیا ہے کہ افسران اب عمران خان کی حکومت کا نام لے کر لوگوں کو ڈراتے ہیں اور زیادہ ریٹ کے ساتھ سابقہ کام میں مصروف ہیں۔
اب ایسی صورت میں تحریک انصاف کو ووٹ ملنے کے کیا امکانات ہیں جب عمران خان کا طلسم ٹوٹ چکا ہے۔ سارے کے سارے وعدے ریت کی دیوار کی طرح ڈھے چکے ہیں۔ نوکریوں کا سیلاب کیا آنا تھا؟ بیروزگاری میں اضافہ ہو چکا ہے۔ پچاس لاکھ مکانوں نے کیا بننا تھا؟ حالیہ بارشوں اور برف باری نے غریبوں کے سر سے چھت چھین لینے میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ پٹرول کی قیمت قریب پچیس فیصد بڑھ چکی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں تھوڑے سے اضافے پر لوگوں کو بل نہ دینے کی تلقین کرنے والے اپوزیشن رہنما عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ ساری کی ساری مارکیٹ بیٹھی ہوئی ہے سوائے لطیفوں کی مارکیٹ کے۔ روز ایک نیا لطیفہ مارکیٹ میں آ جاتا ہے۔ ایک ستم ظریف نے کہا ہے: خان صاحب! آپ نے آٹھ روپے یونٹ پر بجلی کا بل پھاڑنے کا حکم دیا تھا‘ اب 18 روپے کا ایک یونٹ ہے‘ اجازت دیو تے کھمبے پٹ دیئیے؟
صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کو پہلے جتنے نہ تو ووٹ ملنے ہیں اور نہ ہی دائیں بائیں والی حمایت۔ دائیں بائیں والی حمایت سے میری مراد بالکل وہی ہے جو آپ سمجھے ہیں۔ تو ایسے منظرنامے میں جہاں عمران خان پہلے ہی ادھر اُدھر سے گھیر گھار کر دیئے گئے ووٹوں سے اسمبلی میں معمولی اکثریت لے کر بیٹھے ہوئے تھے اور اب وہ گھیرے گئے ووٹ سارا گھیرا توڑ کر واپسی کی کال دینے پر آئے ہوئے ہیں۔ بھلا صورتحال کب تک کنٹرول میں رہ سکتی ہے اور آئندہ کے منظرنامے میں ان میں سے کونسی پارٹی ان سے دوبارہ ہاتھ ملانے پر تیار ہوگی؟ ویسے تو پہلے بھی ان سے ”ہتھ جوڑی‘‘ کروانے کا سہرا کسی اور کے سر جاتا ہے لیکن اپنی تمام اتحادی جماعتوں سے کیے گئے وعدے وعید بھی اسی شمار قطار میں ہیں جس میں پاکستان کے عوام شامل ہیں‘ یعنی وعدہ فردا۔ اور نتیجہ صفر بٹا صفر۔ جواب صفر۔ اصل مصیبت مستقبل کا منظرنامہ ہے۔ پہلی دو پارٹیوں کی لوٹ مار اور اسحاق ڈار اینڈ کمپنی کی جعلی فنانشل مینجمنٹ سب پر عیاں ہے۔ یہاں ”سب‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو عقل استعمال کرتے ہیں اور کسی پارٹی کے اندھے مقلد نہیں۔ وگرنہ اندھے مقلدین نے تو اپنی آنکھیں، کان اور زبان‘سب اپنی اپنی پارٹی کی موروثی لیڈرشپ کے پاس گروی رکھ چھوڑے ہیں اور اپنی عقل کے استعمال کو وسائل کا ضیاع تصور کرتے ہوئے سنبھال کر رکھ چھوڑا ہے تاکہ کہیں خرچ نہ ہو جائے۔
اب ایسے لوگوں کے سامنے کیا راستہ باقی بچا ہے؟ میں نے دو تین ایسے ہی لوگوں سے پوچھا تو ان کا جواب بھی مختلف تھا۔ کسی نے کہا کہ بہرحال ن لیگ اور پی پی پی کے مقابلے پر اب بھی عمران خان کو ترجیح دے گا۔ کسی کا جواب تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے کے بجائے اس بار گھر بیٹھے گا اور کسی کا جواب تھا کہ ابھی ”تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘ قدرت کے کارخانے کی صناعی جاری ہے اور کوئی بہتر صورتحال سامنے آ سکتی ہے لیکن جو بات سب میں مشترک تھی یہ ہے کہ کسی صائب الرائے شخص نے مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی طرف واپسی کا عندیہ بہرحال نہیں دیا۔ یہ ایک صحت مند علامت ہے کہ بہت سے لوگ موجودہ حالات سے تنگ و پریشان ہونے کے باوجود سابقہ لٹیروں اور چوروں کو اپنی دوسری ترجیح بنانے پر تیار نہیں۔
ایسی صورتحال میں دو پارٹیاں اندر ہی اندر خوش ہیں اور ان کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے ہیں۔ یہ چوہدری صاحبان اور شاہ محمود قریشی ہیں۔ چوہدری صاحبان تو خیر سے اپنی خاندانی مروت کے باعث منتخب نمائندوں میں بھی اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں اور وقت پڑنے پر مخالف پارٹیوں سے بھی ووٹ کھسکا لینے میں مہارت رکھتے ہیں اور اوپر کی امداد پر صرف نامزدگی کی حد تک بھروسہ کرنے کے قائل ہیں جبکہ میرے پیارے شاہ محمود قریشی سارے کا سارا وزن اوپر والوں پر ڈالنے کے قائل ہیں کہ وہ اپنی محنت کا محنتانہ بھی صرف انہی سے لینے کے قائل ہیں جن پر انہوں نے محنت کی ہے۔ دوستوں کی ایک محفل میں کل پرسوں اسی موضوع پر بات ہوئی تو ایک دوست نے از راہ مذاق کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب نے اپنی شیروانی ایک بار پھر دھلوا کر استری کروا لی ہے۔ دوسرا کہنے لگا: نہیں! انہوں نے شیروانی کی دھلائی اور استری وغیرہ نہیں کروائی بلکہ وارڈروب سے نکال کر اچھی طرح جھاڑی ہے، پہن کر فٹنگ چیک کی ہے اور پھر دوبارہ تھوڑی آگے کرکے دوبارہ لٹکا دی ہے کہ کیا پتا کس وقت ضرورت پڑ جائے۔ ایک شرپسند دوست نے مجھ سے پوچھا کہ اگر بالکل آزادانہ اور غیرجانبدارانہ الیکشن ہوں تو شاہ محمود قریشی صاحب کو پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی میں کتنے ووٹ ملیں گے؟ میں نے کہا: انہیں کم از کم دو ووٹ تو بہرحال ضرور ملیں گے ایک ان کے برخوردار زین قریشی کا اور دوسرا ان کے بھانجے ظہور حسین قریشی کا۔ وہ دوست ہنسا اورکہنے لگا: میرے اس آزادانہ سے مراد بالکل آزاد الیکشن تھا۔ رشتے داریوں کی مجبوریوں سے بھی آزاد۔ خاندانی رشتوں کی زنجیروں سے بھی بالاتر اور مکمل آزاد۔ انگریزی میں جسے Ultimate fare and free کہتے ہیں۔ اگر ایسے الیکشن ہوں تو پھر شاید (شاید پر بہت زیادہ زوردیتے ہوئے) وہ ایک ووٹ حاصل کر لیں۔ اب میں یہ نہیں بتائوں گا کہ وہ اکلوتا ووٹ کس کا ہوگا۔ لیکن یہاں فیئر اینڈ فری الیکشن کا صرف خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ معاملات صندوقچیوں کے مرحلے سے پہلے ”سیدھے پدرے‘‘ ہو جاتے ہیں۔ الیکشن ڈے پر کاریگری ایک باقاعدہ فن ہے اور جو اس فن میں گھامڑ ہے اسے چاہئے کہ وہ الیکشن لڑنے کے بجائے اس پیسے سے فٹافٹ فلور مل لگا لے۔ ایک سال کے اندر اندر ساری انویسٹمنٹ واپس مل جائے گی۔ پاکستان میں فی الوقت فلور مل سے جلدی ”پے بیک‘‘ والا اور کوئی کاروبار نہیں ہے۔ آٹا مافیا نے ایسی اندھی مچائی ہے کہ لوگ شوگر مافیا کو بھول گئے ہیں۔