وقت نے دی ہے تمہیں چارہ گری کی مہلت
پانچ فروری کو یہ آزاد جموں و کشمیر اسمبلی کا خصوصی اجلاس تھا۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار فاروق حیدر کی دعوت پر وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان اس اجلاس کے مہمانِ خاص تھے۔ 1990 سے یہ دن ”یوم یک جہتی کشمیر‘‘ کے طور پر منایا جا رہا ہے، لیکن اس بار اس کی خاص اہمیت تھی۔ 6 ماہ قبل (5 اگست 2019 کو) مودی حکومت نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کو اس کی خصوصی آئینی حیثیت سے بھی محروم کر دیا تھا۔ تب سے یہ خطہ ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا، روئے زمین پر سب سے بڑی جیل، جہاں اسی نوے لاکھ انسان تمام بنیادی انسان حقوق سے محروم ہیں۔ اُدھر مودی سرکار کے نئے شہریت قانون نے ”بھارتی سیکولرازم‘‘ کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے، یہاں تک کہ پریانیکا گاندھی بھی چیخ پڑیں: کیا بھارتی جمہوریت، بھارتی سیکولرازم یہی ہے؟ مودی کے ان جنونی اقدامات نے بھارت کی داخلی یک جہتی کیلئے نئے چیلنج پیدا کر دیئے ہیں‘ جن سے نمٹنے کیلئے کنٹرول لائن (یا پاک بھارت سرحد) پر اس کی طرف سے کوئی بھی احمقانہ مہم جوئی غیر متوقع نہیں۔ آزاد جموں و کشمیر اسمبلی سے خطاب میں وزیر اعظم کا ان دھمکیوں پر یہ تبصرہ بالکل بجا تھا کہ ایک ایٹمی ملک کے سربراہ کی طرف سے دوسرے ایٹمی ملک کو یہ دھمکیاں کسی نارمل انسان کا کام نہیں (اور ایک ابنارمل شخص سے کسی بھی پاگل پن، کسی بھی حماقت کی توقع کی جا سکتی ہے)۔
آزاد کشمیر میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ یہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ 21 جولائی 2016 کے انتخابات آزاد کشمیر کی تاریخ کے شاید سب سے زیادہ پُرجوش انتخابات تھے جن میں تحریک انصاف بھی (پہلی بار) میدان میں اتری تھی۔ عمران خان صاحب نے یہاں 9 انتخابی جلسوں سے خطاب کیا (اس پر شیخ رشید کا تبصرہ دلچسپ تھا، ان کے بقول عمران خان ایک عظیم اثاثہ تھا، جسے آزاد کشمیر کی سیاست میں اتارنا، اس سیاسی اثاثے کو ضائع کرنے کے مترادف تھا) تب نواز شریف کو ”پاناما‘‘ کا سامنا تھا اور آزاد کشمیر کے انتخابی معرکہ میں خان صاحب اس ہتھیار کو خوب ا ستعمال کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی نے نوجوان (اور نوآموز) بلاول کو میدان میں اتار دیا تھا۔ ”مودی کا یار‘‘ اس کی انتخابی مہم کا عنوان تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کیلئے میاں صاحب نے پرویز رشید اور آصف کرمانی کو بھیج دیا تھا۔
پاکستان میں عام انتخابات ”غیر جانبدار عبوری حکومت‘‘ کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں معاملہ مختلف تھا۔ یہاں الیکشن پیپلز پارٹی کی Sitting گورنمنٹ کی موجودگی (اور فوج کی نگرانی) میں ہو رہے تھے۔ ووٹرز لسٹیں بھی کمپیوٹرائزڈ تھیں اور شفافیت کا یہ عالم کہ چیف جسٹس کو بھی شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ لاہور میں وادی اور جموں کے مہاجرین کے دو حلقوں میں سے ایک میں تقریباً 600 ووٹوں سے مسلم لیگ (ن) کی تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست انتخابات کے صاف شفاف ہونے کا ایک اور ثبوت تھا۔ آزاد کشمیر کے گزشتہ انتخابات میں ٹرن آئوٹ 52 فیصد تھا اور اس بار یہ 62 فیصد کو پہنچ گیا تھا۔ ان صاف اور شفاف انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے کمال کر دکھایا۔ چالیس میں سے اکتیس نشستوں کے ساتھ دو تہائی اکثریت حاصل کر لی تھی۔ پیپلز پارٹی تین اور تحریک انصاف صرف دو نشستیں حاصل کر پائی تھی۔ بلاول بھٹو سائنسی دھاندلی کا الزام لگا رہے تھے جبکہ خان کا رویہ خوشگوار حیرت کا باعث تھا کہ انہوں نے نہ صرف انتخابی نتائج کو تسلیم کیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کو مبارکباد دینے میں بھی تامل سے کام نہ لیا اور اس پر خود میاں صاحب کا تبصرہ بھی دلچسپ تھا ”کامیابی دھرنے سے نہیں، کچھ کرنے سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔
آزاد کشمیر میں وزیر اعظم سردار فاروق حیدر کی قیادت میں، دو تہائی اکثریت کی حامل مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو، اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔ سردار فاروق حیدر اور (ان کی حکومت) مسلم لیگ (ن) سے اپنی وفاداری کے اظہار میں بھی کسی تامل کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ہمیں تو سردار صاحب کے دفتر میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن ان کے ملاقاتی بتاتے ہیں کہ وہاں اب بھی نواز شریف صاحب کی تصویر اُسی طرح موجود ہے۔
5 فروری کو یوم یک جہتیٔ کشمیر پر، وزیر اعظم پاکستان کا آزاد جموں و کشمیر اسمبلی سے خطاب ایک سالانہ روایت بن چکا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار میں بھی یہ روایت قائم رہی۔ اب عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں، تو ان کا خطاب بھی اسی روایت کا تسلسل تھا۔ آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے عمران خان کا بھرپور خیر مقدم (اور ان کیلئے گارڈ آف آنر)، وزیر اعظم پاکستان کیلئے عزت و احترام کا اظہار تھا۔ یہی جذبہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کی تقریر میں بھی نمایاں تھا جب وہ کہہ رہے تھے: کشمیر کے مسئلے پر ہم پاکستان کے شانہ بشانہ ہیں، کشمیر میں پاکستان کا پرچم ہم کبھی نہیں گرنے دیں گے۔ پاکستان کی طرف آنے والی گولی ہم اپنے سینے پر کھائیں گے۔ انہیں کشمیر اور کشمیریوں کیلئے پاکستان اور پاکستانی قوم کے جذبوں‘ قربانیوں کا اعتراف تھا؛ تاہم انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے اختلاف تھا۔ انہیں یقین تھا کہ یہ ہندوستان کے حق میں جائے گی۔ انہوں نے یہاں فلسطین پر ٹرمپ کی حالیہ ”ثالثی‘‘ کا حوالہ دیا، جس نے فلسطین کا بیڑہ غرق کر دیا اور یہ اپنے اصل رقبے کا صرف 15 فیصد رہ گیا۔
مودی کے جارحانہ (اور احمقانہ) طرز عمل اور کشمیر کی نازک صورتحال کے حوالے سے پاکستان میں قومی اتحاد و یک جہتی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سردار فاروق کی وزیر اعظم سے گزارش تھی کہ اس حوالے سے کردار ادا کریں۔ ”خودکواوپر کریں، اپنا دامن وسیع کریں، بازو پھیلائیں۔ Reconciliation کی طرف جائیں۔ ٹاک شوز میں لڑائی جھگڑے بند کروائیں کہ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل رُکے اور قومی اتفاق کی فضا پیدا ہو‘‘۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر کا کہنا تھا، میری کوئی بات آپ کی طبیعت پر گراں گزر رہی ہو، تو میں معذرت خواہ ہوں۔ یہاں انہوں نے فیض صاحب کی طویل نظم کی کچھ سطور پیش کرنے کی اجازت بھی چاہی:
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے، نہ اپنی رِیت نئی
گر آج اوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
اپنی گفتگو کے اختتام سے پہلے سردار فاروق حیدر نے خان صاحب کو مخاطب کیا: جناب! یہ شعر بطور خاص آپ کے لیے ہے ؎
وقت نے دی ہے تمہیں چارہ گری کی مہلت
آج کی رات، مسیحانہ فساں، آج کی رات
اس دوران وزیر اعظم پاکستان کے چہرے پر دھیمی دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔ اپنے خطاب کا آغاز انہوں نے وہاں سے کیا، جہاں سردار فاروق حیدر نے اختتام کیا تھا:
پلیز! مجھے ان لوگوں سے مفاہمت کے لیے نہ کہیں، جو پیسہ لوٹ کر باہر لے گئے، جنہوں نے ملک کو مقروض اور اداروں کو بدحال کر دیا۔ میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں، لیکن میں اپنے گھر میں چوری کرنے والوں سے دوستی کیسے کر لوں؟ سردار فاروق حیدر کے اشعار کا جواب ہمارے خان صاحب نے بھی شعر میں دیا ؎
مفاہمت نہ سکھا جبرِ نا روا سے مجھے
میں سربکف ہوں، لڑا دے کسی بلا سے مجھے
لیکن انہیں شاید غلط فہمی ہوئی تھی۔ سردار فاروق حیدر کسی کے لیے این آر او نہیں مانگ رہے تھے، وہ تو اس قومی مفاہمت کی بات کررہے تھے، جو ان کے خیال میں (اور ہم جیسوں کے خیال میں بھی) وقت کا تقاضا ہے۔