پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت کا دور کب اور کیوں شروع ہوا؟
مزاح کی دنیا کے عظیم نام معین اختر نے ایک بار کہا تھا کہ ’میچ کو برباد کرنے میں کمنٹیٹرز کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے‘۔ یہ بات انہوں نے ازراہِ مذاق کہی تھی لیکن یہ بہت بڑی حقیقت بھی ہے۔
واقعی میچ کو یادگار بنانے یا اسے برباد کرنے میں کمنٹری اور کمنٹیٹر کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے۔ ذرا کمنٹری کے بغیر کرکٹ کا تصور کیجیے، بلکہ ایسا کیجیے میچ دیکھتے ہوئے ریموٹ کنٹرول اٹھائیے اور ٹیلی ویژن کی آواز بند کردیجیے۔ میچ کا آدھا مزا تو گویا وہیں پر ختم ہوگیا کیونکہ یہ کمنٹیٹر کا جوش، اس کی آواز کا اتار چڑھاؤ اور میچ کے سنسنی خیز لمحات کا پَل پَل کا بیان ہی ہوتا ہے جو کرکٹ بلکہ ہر کھیل کو مکمل کرتا ہے۔
ٹیلی ویژن کی آمد سے قبل جب ریڈیو کا زمانہ تھا تو شائقینِ کرکٹ اور کھیل کے درمیان واحد رابطہ یہی کمنٹیٹر ہوتے تھے۔ ریڈیو کی کمنٹری ہی دراصل کسی مقابلے کے دوران اس پر رواں تبصرے کا عروج تھی۔ کیونکہ میچ کے دوران جو کچھ ہوتا تھا سامعین اس کے بارے میں صرف سُن سکتے تھے، اس لیے کمنٹیٹر کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ اپنے سننے کو والوں کو میچ کی ایسی عمدہ منظر کشی پیش کرے کہ گویا وہ خود میدان میں ہی موجود ہوں، گزرتے وقت کے ساتھ ہم نے بہت بڑے بڑے ناموں کو یہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے دیکھا ہے۔
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 5ویں سیزن میں بھی ہر ہر مرحلے پر ہم کمنٹیٹرز کے تبصروں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی پی ایس ایل انتظامیہ نے کمنٹیٹرز کا ایک بہترین پینل ترتیب دیا۔ رمیز راجا اور وقار یونس جیسی مقامی آوازوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ڈینی موریسن، مائیکل سلیٹر، جونٹی رہوڈز، ڈومینک کورک اور کاس نائیڈو کی شاندار کمنٹری سننے کو مل رہی ہے اور اب تو مارک بوچر بھی پاکستان آگئے ہیں اور سب کی جانی پہچانی آواز ایلن ولکنز کی آمد بھی جلد متوقع ہے۔
انگلش کمنٹیٹرز کے اس شاندار پینل کے اعلان کے ساتھ ہمیں ایک اور خوش خبری سنائی گئی کہ اس سال پی ایس ایل کے میچوں میں قومی زبان اردو میں بھی رواں تبصرے ہوں گے۔ یہ وہ مطالبہ تھا کہ جو پی ایس ایل کے پچھلے چاروں سیزنز میں ڈان کے انہی بلاگز پر دہرایا گیا ہے کیونکہ ہم اردو کمنٹری کی عدم موجودگی کو پی ایس ایل کی چند خامیوں میں سے ایک سمجھتے تھے۔
ویسے ہوسکتا ہے کہ نئی نسل کے لیے اردو کمنٹری کوئی نیا اور انوکھا خیال ہو لیکن اصل میں کرکٹ میچوں میں اردو کمنٹری کی تاریخ 50 سے 60 سال پرانی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد 2 سے 3 دہائیوں تک تو ریڈیو پر صرف انگریزی کمنٹری ہی ہوتی تھی۔
بعدازاں 1960ء کی دہائی میں معروف صحافی منیر حسین نے اردو کمنٹری کا آغاز کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پاکستان فنونِ لطیفہ کے ہر شعبے میں ایک سرپرست ادارے کی حیثیت رکھتا تھا۔ ڈراموں سے لے کر کھیل کے رواں تبصروں تک، بہتر سے بہترین کی تلاش و انتخاب اور ایسے باصلاحیت افراد کو پروان چڑھانا ریڈیو پاکستان اپنا فریضہ سمجھتا تھا۔
منیر حسین بھی ریڈیو پاکستان ہی کی فراہم کی گئی سیڑھیوں کو چڑھتے گئے اور اردو کمنٹری کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ پھر وہ زمانہ آیا کہ کرکٹ ہو یا ہاکی، ہر اہم کھیل کی براہِ راست نشریات میں اردو کمنٹری لازمی ہوتی تھی۔ آج بھی آپ یوٹیوب پر پاکستان کے پرانے کرکٹ یا ہاکی میچ دیکھیں تو آپ کو اس پر اردو زبان میں بہترین رواں تبصرہ سننے کو ملے گا۔
اسٹیفن ویگ نےاپنی کتاب ’کرکٹ اور بعد از نو آبادیاتی عہد میں قومی شناخت‘ میں یہاں تک لکھا ہے کہ پاکستان میں اردو کمنٹری کی آمد سے یہاں کرکٹ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
پھر بدلتے وقت کے ساتھ ریڈیو کا زوال آگیا اور ٹیلی ویژن ہمارے گھروں بلکہ زندگیوں میں داخل ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ اس نے کرکٹ کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ ریڈیو پر جہاں مقابلہ نظروں سے اوجھل ہوتا تھا، ٹی وی پر سب کچھ سامنے آگیا۔ پھر کرکٹ میں آنے والی نت نئی جدتوں کی وجہ سے میچ کی براہِ راست نشریات کی ذمہ داری پروفیشنل کمپنیوں کے ہاتھ آگئی۔
یہ بین الاقوامی ادارے نشریات کے معاملات دیکھنے لگے، ان کے اپنے کمنٹری پینلز بھی بننے لگے اور یہیں سے آہستہ آہستہ اردو کمنٹری کا زوال شروع ہوگیا۔ آہستہ آہستہ ریڈیو ماضی کا حصہ بن گیا اور آج چند ایف ایم ریڈیو چینل ہی ہیں جو اردو میں کمنٹری پیش کرتے ہیں، ٹیلی ویژن سے تو اردو کمنٹری کا تقریباً خاتمہ ہی ہوچکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پی ایس ایل 5 میں اردو کمنٹری کی آمد کا اعلان کیا گیا تو دل خوش ہوگیا کہ شاید ہمیں وہ بھولی بسری آوازیں ایک مرتبہ پھر سننے کو ملیں، شاید حسن جلیل کمنٹری کرتے نظر آجائیں، یا پھر طارق سعید اور مرزا اقبال بیگ ریڈیو کے بجائے ٹیلی ویژن پر اپنی اردو کے ساتھ جلوہ گر ہوں؟ لیکن پتا چلا کہ انتظامیہ نے خود کو دستیاب تبصرہ کاروں سے کام چلایا ہے۔ انگریزی کمنٹری کے پینل کے وہ شرکا جو اردو جانتے ہیں، انہی کو 5 اوورز کے لیے اردو میں تبصرہ کرنے کے فرائض بھی سونپ دیے گئے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اس سیزن میں اب تک کا سب سے مایوس کن پہلو اردو کمنٹری ہی ہے۔ اردو میں انگریزی الفاظ کا بے جا، بے موقع و محل استعمال یہاں تک کہ چند معیوب اور ذو معنی الفاظ تک کہہ جانا میچوں میں معمول کا حصہ بنتا جارہا ہے۔
گزشتہ روز ہی ایک میچ کے دوران ایک کمنٹیٹر نے کچھ یہ کہا، ’بابر اعظم wait کرکے تھوڑا late کھیلتے ہیں، ان کا hand eye coordination بہت کمال کا ہے۔ ان کی stroke making دیکھیں، اس میں آپ کو balance نظر آتا ہے‘۔ اگر یہی اردو کمنٹری ہے تو معاف کیجیے، اس مرتبہ بھی قومی زبان کی پخ لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔
دراصل پی ایس ایل انتظامیہ نے جتنی محنت انگریزی کمنٹری پینل بنانے کے لیے کی تھی، اگر اس کے مقابلے میں نصف محنت بھی اردو کمنٹری کے لیے کی جاتی تو یہ حالت نہ ہوتی۔
طارق سعید، عقیل ثمر یا مرزا اقبال بیگ کو لانے میں بھلا کون سا مسئلہ تھا؟ اگر تھا تو ان کے علاوہ بھی کئی ایسے نوجوان کمنٹیٹرز ہیں جو کمال کی اردو کمنٹری کرتے ہیں۔ اردو کمنٹیٹرز کے لیے ریڈیو کا رُخ کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اب بھی کسی حد تک نرسری کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ چاہے ریڈیو پاکستان کی سرکاری سرپرستی نہ رہی ہو لیکن نجی ایف ایم چینلوں پر بہت اچھے تبصرہ کار موجود ہیں۔
یہ بہترین موقع تھا اردو کمنٹری کو نئی زندگی عطا کرنے کا اور مکمل طور پر پاکستان میں ہونے والے اس سیزن میں پاکستانیت کا نیا روپ بھرنے کا۔ لیکن اس موقع کو بُری طرح ضائع کیا گیا۔ امید ہے کہ اس غلطی سے سبق سیکھتے ہوئے اگلی مرتبہ سوچ سمجھ کر اردو کمنٹری پینل بنایا جائے گا اور اس کے معیار کو انگریزی کے برابر لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔