امریکہ ، چین مناقشت کے ممکنہ انجام کا خوف
اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی عالمی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والوں نے یہ تاثر پھیلانا شروع کردیا تھا کہ دُنیا کی چودھراہٹ کے جنون میں مبتلا ہونے کے بجائے چین اپنی معیشت اور معاشرے کو جدید تر اور توانا ترین بنانے میں مصروف ہوگیا ہے۔اس سے قبل عوامی خیال یہ تھا کہ سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد امریکہ واحد سپرطاقت بن چکا ہے۔ہاتھی کے پائوں میں چونکہ سب کا پائوں آجاتا ہے۔اس لئے دُنیا بھر کے ممالک اب امریکہ کی نقالی پر مجبور ہوں گے۔ واشنگٹن میں واضح ہوا نظام ’’گلوبل ویلج‘‘ کا روزمرہّ بن جائے گا۔”End of History”یعنی ’’تاریخ‘‘ کے خاتمے کا ذکربھی ہوا۔دُنیا بھر کی ’’سنجی‘‘ ہوئی گلیوں میں امریکہ کے ’’مرزا یار‘‘ کی طرح دندناتے ہوئے چھاجانے کی راہ بنتی نظر آئے۔نائن الیون کے بعد مگر امریکہ افغانستان اور عراق پر مسلط کردہ جنگوں کی وجہ سے اپنا وقار کھوبیٹھا۔ ان جنگوں پر ہوئے بھاری بھر کم اخراجات نے اس کی معیشت کابھٹہ بھی بٹھانا شروع کردیا۔اوبامہ نے ان جنگوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ عراق سے نکل آیا مگر افغانستان سے واپسی کا راستہ نہ ڈھونڈپایا۔ بالآخر America Firstکا نعرہ بلند کرتے ہوئے ٹرمپ وائٹ ہائوس پہنچ گیا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد دُنیا ہی نہیں اپنے قریب ترین اتحادیوں کو بھی رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے اس نے فقط امریکی معیشت کی رونق بحال کرنے پر توجہ مرکوز کردی۔چین کے ساتھ تجارت کو بھی اس ضمن میں مشکل تر بنانے کی کاوشیں شروع کردیں۔دُنیا کو ’’خودغرض‘‘ نظرآتے ٹرمپ نے بالآخر اپنے ملک میں بے روزگاری کو تقریباََ ختم کردیا۔دیہاڑی داروں کی اُجرت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ مارچ 2020کے اختتام تک اس کے بدترین نقاد بھی یہ اعتراف کرتے پائے گئے کہ نومبر2020میں وہ بآسانی ایک بار پھر صدارتی انتخاب جیت لے گا۔ڈیموکریٹ پارٹی اس کے مقابلے کے لئے کوئی تگڑا امیدوار بھی ڈھونڈنہیں پائے گی۔اپنی صفوں میں انتشار کی بدولت بلکہ ٹرمپ کے ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’لبرل‘‘ مخالفین ڈیموکریٹ پارٹی کو برطانیہ کی لیبرپارٹی کی طرح سیاسی اعتبار سے کمزور تر بنادیں گے۔کرونا وائرس نے لیکن تمام تر خوش گمانیوں کو خاک میں ملادیا ہے۔کرونا کے ابتدائی ایام میں ٹرمپ کو کامل یقین تھا کہ اس وائرس کے تباہ کن اثرات صرف چین تک محدود رہیں گے۔امریکہ اس سے قطعاََ محفوظ رہے گا۔ صاحبانِ علم کا بازاری زبان میں تمسخر اُڑانے کا عادی ٹرمپ اس حقیقت سے بے خبر رہا کہ وباء پھیلاتے وائرس تاریخِ عالم میں آج تک کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں رہے۔ نام نہاد گلوبل ویلج میں جہاں نیویارک جیسے شہروں میں کمرشل پروازوں کو لینڈنگ کے لئے بسااوقات کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے کرونا کی آمد کو روکا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ بالآخر یہ وائرس امریکہ بھی پہنچ گیا۔کرونا کے امریکہ پہنچ جانے کے بعد بھی ابتدائی دنوں میں ٹرمپ اسے عمومی نزلہ زکام ٹھہراتے ہوئے نظرانداز کرتا رہا۔اس کے بارے میں فکرمند ہوئے صحافیوں کو ’’جاہل‘‘ پکارتا تھا۔انہیں Fake Newsسے اجتناب کے مشورے ہی دیتا رہا۔صحافت سے اس کی مخاصمت کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ہکابکا مگر دُنیا اس وقت ہرصورت ہوگئی جب امریکی صدر نے وبائی امراض کے ڈاکٹر فائوچی جیسے نیک طینت ماہرین کا بھی حقارت سے تذکرہ شروع کردیا۔لاک ڈائون کی ضرورت کو تسلیم کرنے میںبھی اس نے بہت وقت ضائع کردیا۔اس کی جہالت بھری رعونت نے بالآخر امریکہ کو اب کرونا کا دُنیا بھر کے تناظر میں بدترین شکار بنا دیا ہے۔نیویارک جیسے شہر میں لاشوں کے انبار نظر آتے ہیں۔دُنیا کی سب سے بڑی معیشت کئی ہفتوں سے مفلوج ہوچکی ہے۔لاکھوں افراد روزانہ کی بنیاد پر حکومت سے امدادی رقوم کی فریاد کررہے ہیں۔بے تحاشہ گھرانوں کو ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی خیراتی اداروں سے بھیک مانگنا پڑرہی ہے۔ہسپتالوں میں مریضوں کے ٹیسٹ کرنے کی گنجائش مفقود ہے۔امریکہ کے بڑے شہروں ہی میں نہیں بلک دیہی علاقوں میں بھی رہائشی خوف سے اپنے گھروں میں دب کر بیٹھ گئے ہیں۔ Live Audienceکے روبرو Ratingsکے ریکارڈ بنانے والے اینکر اب بھی اپنے گھروں میں مقید ہوئے ٹاک شوزکی رونق لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔عالمی معیشت کی اجارہ دار کمپنیوں کی اکثریت اس فکر میں مبتلا ہے کہ ان کا دھندا کس حد تک سکڑسکتا ہے۔ٹرمپ مگر حیران کن حد تک ایک انتہائی ڈھیٹ آدمی ہے۔کرونا کے حوالے سے اپنائے رویے کو رعونت سے بھلاکر روزانہ Reality TVکا مصالحہ بھری پریس کانفرنس سے خطاب کرتا ہے۔وہ شاداں ہے کہ اس کی پریس کانفرنس Ratingsکے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔اس کے ذریعے وہ بدستور اپنے ناقدین کو رگیدتا رہتا ہے۔ تاثر یہ دینا چاہ رہا ہے کہ وفاقی حکومت کرونا کی وجہ سے لوگوں پر نازل ہوئی مصیبت کی ذمہ دار نہیں۔ریاستیں جنہیں ہم پاکستان میں صوبے کہتے ہیں شہریوں کے تحفظ کا بندوبست نہیں کر پائیں ۔اس ضمن میں وہ خاص طورپر ان صوبائی حکومتوں کے سربراہوں کو لتاڑتا رہتا ہے جن کا تعلق Democratجماعت سے ہے۔ٹرمپ نے جب Reality TVکا مصالحہ بھری پریس کانفرنسوں سے خطاب کا آغاز کیا تو اس کی مقبولیت 49فیصد تک بڑھ گئی۔معاشیات کے ’’قانونِ تقلیل افادہ‘‘ والا قانون مگر ٹی وی پر ہمیشہ براجمان ہوئے سیاسی رہ نمائوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ٹرمپ کے حامیوں کو یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ یہ پریس کانفرنسیں اب مثبت کے بجائے منفی اثرات دکھانا شروع ہوگئی ہیں۔نجی ملاقاتوں میں اس کے دوست اور بہی خواہ تصور ہوتے سیاستدانوں نے ٹرمپ سے درخواستیں شروع کردی ہیں کہ وہ روزانہ ٹی وی پر ا ٓکر لمبے لمبے بھاشن دینا چھوڑ دے۔وہ کسی مشورے کو ابھی تک لیکن خاطر میں نہیں لارہا۔ٹرمپ کے مقابلے میں نیویارک کا گورنر بھی تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی پر آتا ہے۔انتہائی ایمان داری اور انکساری سے لیکن وہ کرونا کی شدت کو تسلیم کرتا ہے۔اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے عوام کے دُکھوں کو حقیقی معنوں میں بانٹتا نظر آتا ہے۔اس کا تعلق ڈیموکریٹ جماعت ہے۔اس جماعت میں روایتی سیاست دانوں اور انتہا پسند شمار ہوتے بائیں بازو والوں کے درمیان ایک فکری جنگ برپا تھی۔برنی سینڈرس انتہاپسند سوچ کا حامی تھا۔وہ مگر صدارتی انتخاب کی دوڑ سے دست بردار ہوگیا۔اوبامہ کے ساتھ آٹھ برس تک نائب صدر رہنے والا جوبائیڈن اب ڈیموکریٹ پارٹی کے واحد امیدوار کی صورت اُبھرتا نظر آرہا ہے۔اپنے مفادات کے حوالے سے متاثر کن حد تک کائیاں ٹرمپ جبلی طورپر یہ دریافت کرچکا ہے کہ کرونا کی وجہ سے نازل ہوئے عذاب کا حتمی ذمہ دار بالآخراس کی اتاولی طبیعت ہی کو ٹھہرایا جائے گا۔وباء کے موسم لوگوں کو سنجیدہ اور تجربہ کار قیادت سے حوصلہ طلب کرنے کو مجبور کردیتے ہیں۔جو بائیڈن کا تجربہ مابعد کرونا دور میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کرنے والے اناپرست ہمیشہ کسی Scapegoatکی تلاش میں رہتے ہیں۔ان کی خواہش ہوتی ہے کہ تباہی کی ذمہ داری ان کی نااہلی کے سرنہ آئے۔ اجتماعی پریشانی کا ’’حقیقی‘‘ ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرادیا جائے۔ٹرمپ بھی ویسا ہی اناپرست انسان ہے۔بہت مکاری سے وہ اور اس کے حامی امریکہ میں اب ایسی فضا بنانا شروع ہوگئے ہیں جس کی بدولت امریکی عوام کی اکثریت کو قائل کردیا جائے کہ کرونا کی صورت ان پر جوعذاب نازل ہوا ہے اس کا حقیقی ذمہ دار صرف اور صرف چین ہے۔بہت مہارت سے اب کہانی یہ گھڑی جارہی ہے کہ چین کے شہر ووہان میں جب کرونا نمودار ہوا تو اس کے بارے میں حقائق کو وہاں کی ’’آمرانہ‘‘‘ اور ’’آزاد صحافت کی دشمن‘‘ حکومت نے اپنے شہریوں ہی سے نہیں بلکہ دُنیا سے بھی چھپایا۔صحت عامہ کے عالمی ماہرین کو خاطرخواہ معلومات فراہم نہ کی گئیں۔عالمی ادارئہ صحت(WHO)کو بھی اس ضمن میں بلکہ ’’گمراہ کن‘‘ معلومات کے فروغ کے لئے استعمال کیا۔
چین نے اپنے ہاں کرونا پر قابو پانے کے بعد فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مرض کی زد میں آئے ممالک کی کھلے دل سے مدد کرنے کی کوشش کی۔امریکی میڈیا نے اس کاوش کو Donation Diplomacyیعنی ’’خیراتی سفارت کاری‘‘‘ ٹھہراتے ہوئے PRکی بھونڈی کوشش قرار دیا۔بدقسمتی یہ بھی ہوئی کہ یورپ کے چند ممالک کو کرونا کے ٹیسٹ کے لئے چین نے جو آلات فراہم کئے تھے وہ کئی حوالوں سے غیر معیاری ثابت ہوئے۔ چین اب دیگر ممالک کو ایسے آلات پہنچانے میں بہت وقت لیتا ہے۔ انہیں چین سے باہر بھیجنے سے قبل اس امرکو یقینی بناتا ہے کہ وہ Perfect معیارکے حامل ہوں۔انگریزی محاورے والا Damageمگر ہوچکا ہے۔یہ حقیقت اب عیاں ہورہی ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ اور اس کے اتحادی ماضی میں سوویت یونین کے خلاف سردجنگ کے دوران پراپیگنڈہ کے لئے اپنائے تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے چین کو کرونا کے باعث آئے عذاب کا یک وتنہا ذمہ دار ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ مختلف النوع محاذوں پر امریکہ اور چین کے مابین ایک بھرپور مناقشت کا آغاز ہوچکا ہے۔اس کا انجام سوچتے ہوئے خوف آرہاہے۔