جنسی قوت بڑھانے والی ویاگرا میں کورونا وائرس کی دوا کے لیے کیا سبق ہے؟
جب دو دہائی قبل امریکہ میں ویاگرا دریافت کی گئی تو اس وقت اس کے بارے میں بہت زیادہ بحث ہوئی۔ مردوں میں جنسی کمزوری دور کرنے والی اس دوا کو ایک طرح کا انقلاب قرار دیا گیا۔
اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے اس کا مقابلہ مانع حمل گولی کی دریافت سے پیدا ہونے والے اثرات سے کیا گیا۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اسے بنانے والی فائزر کمپنی نے درحقیقت اسے دل میں خون کے بہاؤ کو سہل کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔
دل میں خون کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے درد کی شکایت ہوتی ہے جسے انجائنا کہا جاتا ہے۔ جب ویاگرا کی طبی آزمائش ہوئی تو اس کے دلچسپ اثرات دیکھے گئے۔ اس سے مردوں کے جسم میں جوش کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔
ویاگرا کا استعمال
اس نتیجے کے بعد کہ یہ دل کی پریشانی پر قابو پانے کے لیے دوسری ادویات کی ہی طرح ہے، محققین نے اس پر کام بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
لیکن جب انھیں ویاگرا کے منفی اثرات کے بارے میں پتا چلا تو انھوں نے تحقیق جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اب ویاگرا کا استعمال نہ صرف مردوں میں جنسی کمزوری دور کرنے کے لیے ہوتا ہے بلکہ قلیل مقدار میں اس کا استعمال دل سے متعلق خون کے مسئلے کے لیے بھی ہوتا ہے۔
یہ دوا بازار میں ریواٹیو کے نام سے دستیاب ہے۔
یہ اس حقیقت کی ایک دلچسپ مثال ہے کہ ایک دوا جن مقاصد کے لیے تیار کی جاتی ہے وہ بعض اوقات کسی دوسری بیماری کے لیے کارآمد ہوجاتی ہے۔
ایٹرفیرون جیسی ادویات
ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے کئی فوائد ہیں۔ حالیہ دنوں کے دوران کووڈ 19 کی ویکسین کی دریافت کے سلسلے میں بہت سی ادویات کا تجربہ کیا گیا ہے۔
اس میں کلوروکوئن اور اس سے وابستہ ہائیڈروکسی کلوروکوئن، ریمیڈیسیور اور بیٹا ایٹرفیرون جیسی دوائیں شامل ہیں۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ یہ دوائیں جو درحقیقت کورونا وائرس کے لیے نہیں بنیں،کس حد تک مؤثر ہوسکتی ہیں۔
یہ طریقہ کب کب کامیابی کے ساتھ استعمال ہوا اور اس کے فوائد کیا ہیں؟
وقت کی بچت
اس عمل کو ڈرگ ریپوزیشننگ یعنی دوا کا متبادل استعمال کہا جاتا ہے۔ ماہرین اس عمل کے سب سے بڑے فائدے کے طور پر وقت کی بچت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
برطانیہ کی لیورپول یونیورسٹی میں کلینیکل اینڈ مولیکیولر فارمولوجی کے پروفیسر منیر پیر محمد نے بی بی سی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’کسی دوا کو جب بالکل صفر سے بناتے ہیں تو پہلے اسے لیبارٹری میں تیار کرتے ہیں اور پھر خلیوں پر اس کے اثرات کی جانچ کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کا کلینیکل مطالعہ کرتے ہیں۔ انسانوں پر آزمانے سے قبل اسے مزید کئی قسم کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔’
’اس کے بعد اسے لائسنس کے بہت سارے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عمل میں 10 سے 17 سال لگ سکتے ہیں۔ کورونا کے موجودہ بحران کو دیکھتے ہوئے اگر ہم اپنے طریقہ کار میں انتہائی تیزی کا مظاہرہ کریں تو بھی اس دوا کو مارکیٹ میں لانے میں کم از کم پانچ سال لگیں گے۔ ہمارے پاس ابھی اتنا وقت نہیں ہے۔‘
طبی آزمائش
پروفیسر منیر پیر محمد مزید کہتے ہیں: ’دوا کی بازیافت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ تیار کی گئی دوا کا تجربہ انسانوں پر کیا جا چکا ہوتا ہے، لہٰذا اس کے محفوظ ہونے کے بارے میں ڈیٹابیس موجود ہوتا ہے کہ یہ کیسے کام کرتی ہے۔ ایسے میں صرف ایک ہی بات معلوم کرنی ہوتی ہے کہ یہ کسی خاص بیماری کے علاج کے لیے مفید ہے یا نہیں۔‘
بہر حال پیر محمد واضح کرتے ہیں کہ براہ راست انسانوں کو دینے سے پہلے طبی آزمائش ضروری ہیں کیونکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ کام کرے گی یا نہیں۔ یہ مختلف حالات میں کتنی مؤثر ہے اس کا پتا صرف طبی آزمائش سے ہوسکتا ہے۔
پیسے بچانا
وقت کی بچت کے ساتھ اس عمل سے یقیناً پیسے کی بھی بچت ہوتی ہے۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف مرڈوک میں فارماکالوجی کے پروفیسر ایان مولانے کہتے ہیں: ’ایک دوا ساز کمپنی ایک نئی دوا کی دریافت پر دو ارب ڈالر خرچ کرتی ہے جس کو مارکیٹ تک پہنچنے میں کئی سال لگتے ہیں۔‘
پہلے سے تیار دوائی کے مقابلے نئی دوا کا تیار کرنا ایک بہت مہنگا سودا ہے۔
پروفیسر ایان مولانے کہتے ہیں: ‘کسی دوا پر پیٹنٹ کی مدت ایک خاص وقت کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ اگرچہ اس کا معاملہ مختلف ہوتا ہے لیکن عام طور پر دوا کی رجسٹریشن کے 20 سال بعد تک پیٹنٹ قائم رہتا ہے۔‘
ایک بار وہ مدت پوری ہوجانے کے بعد کوئی بھی کمپنی اس دوا کو بناسکتی ہے اور اسے بیچ سکتی ہے۔
اس طرح کے تجربے میں پہلی کامیابی ایسپرن دوا کو ملی تھی۔
ایک صدی سے زیادہ عرصے تک اس دوا کا استعمال درد کو دور کرنے کے لیے ہوتا رہا ہے، لیکن اب کچھ مریضوں میں دل کے دورے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کم مقدار میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔
اور اب نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ بعض قسم کے کینسر کی روک تھام میں بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
پرانی دواؤں کا نیا استعمال
اس کے علاوہ ایک دوسری اہم مثال تھیلیڈومائڈ دوا ہے۔ یہ دوا سنہ 1950 اور 1960 کی دہائی میں جرمنی کی دوا ساز کمپنی گرینتھل نے تیار کی تھی۔
یہ دوا حاملہ خواتین میں پہلے تین مہینوں کے دوران چکر آنے کو روکنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔
اس دوا کو سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں بازار سے واپس لے لیا گیا تھا کیونکہ اس کے اثرات میں 10 ہزار سے زیادہ بچوں کو پیدائش کے بعد دشواری پیش آئی تھی۔
کئی دہائیوں کے بعد جب اس کی ریپوزیشننگ ہوئی تو اسے بون میرو کے کینسر اور لپروسی یعنی جذام کے علاج میں مؤثر پایا گیا۔
پہلے ان دواؤں کو اتفاق سے ہی کسی بیماری میں کارآمد پایا گیا تھا لیکن غور و فکر کے بعد دوا کی ریپوزیشننگ کا رواج عام ہوا۔
اتفاق میں برکت؟
بہر حال حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے اسے ممکن بنایا ہے۔
امریکی غیر سرکاری تنظیم کیورز ود اِن ریچ (علاج پہنچ میں) کے ڈائریکٹر بروس بلوم نے بی بی سی کو بتایا: ’وسیع اعداد و شمار اور مصنوعی ذہانت کے دور میں دانستہ طور پر دوا کی ریپوزیشننگ آسان ہو گئی ہے۔‘
اگر آپ احتیاط سے دوا کا انتخاب کرتے ہیں جیسا کہ کووڈ 19 کے معاملے میں ہو رہا ہے تو آپ کس طرح فیصلہ کریں گے کہ کون سی دوا منتخب کریں؟
کورونا کے معاملے میں سب سے پہلے ان دواؤں کو منتخب کیا گیا جو دوسرے وائرس کے لیے تیار کی گئی تھی جیسے کہ ریمیڈیسیور۔
یہ دوا ایبولا کے علاج کے لیے بنائی گئی تھی لیکن اس کا نتیجہ منفی آیا۔
کس بنیاد پر دوا کو منتخب کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے؟
کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوائیں وائرس کے لیے نہیں ہوتیں وہ اینٹی وائرل ثابت ہوتی ہیں۔
پیر محمد کہتے ہیں کہ دواؤں کے انتخاب کے لیے بہت سارے معیار استعمال ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ انھوں نے کہا: ’یہ کسی جادو کی چھڑی کی طرح نہیں ہے۔ اس کا کچھ اثر ہوسکتا ہے جیسا کہ ریمیڈیسیور کے معاملے میں ہوا ہے اور یہ آپ کو ہسپتال جانے سے بچاسکتا ہے۔ لیکن پوری طرح صحتیاب نہیں کرسکتا۔‘
ادویات کی ریپوزیشننگ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مارکیٹ کو اس میں دلچسپی نہیں ہے۔
بلوم کا کہنا ہے کہ تجارتی طور پر اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ریپوزیشننگ کو ابتدائی مراحل میں حمایت حاصل نہیں ہوتی۔
اس میں لاگت کم آتی ہے اور اسی لیے اس کی اہمیت ہے۔ اگر کمپنی کو منافع نظر نہیں آتا تو وہ ریپوزیشننگ کے عمل سے بچتی ہیں۔