عید ہوندی سی ساڈہے ویہلے ۔۔۔
ہم اور ہمارے بڑے تو ہر برس کی طرح اس سال بھی بس باتیں ہی بکھانتے رہ گئے کہ عید سادگی سے منانا چاہیے اور آس پاس کے لوگوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔
پر اچھا یہ ہوا کہ اس بار کورونا بھی سادگی کے عملی معنی دیکھ کر سٹپٹا گیا۔ باقی دنیا میں بھلے جو بھی تماشا ہو رہا ہو۔ ہمارے ہاں کورونا آگے آگے اور لوگ پیچھے پیچھے ہیں۔
آصف زرداری نے صدر بننے کے بعد گڑھی خدا بخش میں جب یہ الفاظ کہے تھے تو کورونا پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ ’ارے موت ہمیں کیا ڈرائے گی۔ہم تو وہ لوگ ہیں جو موت کا تعاقب کرتے ہیں۔‘
پورا برس عید کے سیزن کا انتظار کرنے والے دکانداروں اور خریداروں نے کورونا کو جھکائی دے کر شاپنگیانہ ہاتھ پاؤں مارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
وائرس کو بھی اس سیان پتی کا اندازہ نہ تھا لہٰذا اس نے اس ملک کو اٹلی اور سپین جیسے بزدل سماج فرض کر کے عملاً کلائی پکڑ کے روکنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی کہ جن کا ایمان ہے کہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔ یا جن کا عقیدہ ہے کہ عید کی خریداری کا ایک دن چین سے گھر بیٹھنے والی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
پاکستانی مڈل اور لوئر کلاس نے جو کچھ رمضان کے آخری ہفتے میں سماجی فاصلے کے ساتھ کیا ویسا تو سکندر نے پورس کے ساتھ بھی نہیں کیا۔ نام نہاد ضوابط کی دکاندار اور خریدار نے جیسے دھجیاں اڑائیں۔ یہ مناظر دیکھ کر مجھے پہلی بار ان دو مصرعوں کا اصل مفہوم سمجھ میں آیا۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے اِدھر نکلے
اگرچہ کورونا نے رمضان کے آغاز میں ہی عید کی دھمکیانہ تہنیتی وارننگ بھی دے ڈالی تھی۔
اور جس جس نے اسے ایک عالمی فراڈ یا یہود و نصاریٰ و ملحدین کی سازش جانا اور پھر یہ گمان کیا کہ ارے ہم تو اوپر والے کے لاڈلے ہیں کورونا کیا بگاڑ لے گا۔انھیں کورونا نے اپنے تئیں پچھلے دو ماہ میں شایانِ شان جواب بھی دیا۔ مگر کورونا غریب کو کیا معلوم تھا کہ جو قوم خدا سے بھی نہ ڈرے، کورونا اس کے آگے کیا بیچتا ہے۔
جو جو معرکہ خرید و فروخت میں من کی مراد نہ پا سکے اب وہ سب خود سے جھینپتے ہوئے اپنے آپ کو ہی زیرِ لب سمجھا رہے ہیں کہ بھئی ان حالات میں جب روزمرہ زندگی کو ہی موئے کورونا نے یرغمال بنا کے رکھا ہوا ہے، کیسی عید کہاں کا تہوار۔ خوشی تو خوشی سے ہوتی ہے۔
میں کپڑے پہن کر جاؤں کہاں ، میں بال بناؤں کس کے لیے
پہلی بار میں نے بیشتر لوگوں کو عید کے موقع پر مہنگائی سستائی کی بحث میں بہت زیادہ الجھتے نہیں دیکھا۔ پہلی بار چند لوگوں کو سر کھجاتے دیکھا کہ بچوں کے بہانے کپڑوں، جوتوں کی خریداری کے لیے جو بجٹ جوڑ جوڑ کر مختص کیا گیا اب اس کا کیا کریں۔
بچے بھی پہلی بار نہیں پوچھ رہے کہ عید اور گرمیوں کی چھٹیوں میں گھومنے گھمانے کا کیا پلان ہے۔ پہاڑی علاقوں میں چھوٹے سے چھوٹا کاروباری بھی جو اس موسم میں نگاہ اٹھانے کی فرصت بھی نہ پاتا تھا اب اس کی منتظر آنکھیں خالی رستے تکتے تکتے پتھرا گئی ہیں۔
گویا کورونا میرے کالج کے دور کے این سی سی ڈرل ماسٹر صوبیدار گشتاسپ علی کے روپ میں سامنے آیا ہے جو بچوں کے سارے کس بل اور بہانے بازیاں تیر کی طرح سیدھا کر کے لیفٹ رائٹ کروانے کے لئے قصبے میں دور دور تک مشہور تھا۔
ابھی تو بقرعید آ رہی ہے۔ شاید مزید پیسے بچیں گے۔ کورونا کے ہوتے سڑکوں اور گلیوں میں کھلے عام ہجوم کے درمیان انفرادی و اجتماعی قربانی اس بار ممکن ہو سکے کہ نہیں؟ دنیا سنورنے سنوارنے میں کیا کیا عمر لگ جاتی ہے اور جب حیات بدلتی اور بگڑتی ہے تو دن ہفتے کا، ہفتہ سال کا اور سال صدی کا ہو جاتا ہے۔
میری تو عادت ہے موقع بے موقع بات بے بات الٹی سیدھی ہانکتے رہنا۔ آپ لوگ اپنی عید کیوں کھوٹی کرتے ہو۔ اب جیسی کیسی بھی سہی منا تو لی۔ اہلِ وطن اور نااہلِ وطن، سب ہی کو عید مبارک۔