کورونا وائرس: پاکستانی میڈیا ورکرز وبا سے کیسے متاثر ہو رہے ہیں اور ان کے تحفظ کے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں سے وابستہ ملازمین بھی کورونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی چند رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مختلف چینلز کی انتظامیہ کی جانب سے ایسے ملازمین کو بھی دفاتر میں حاضری یقینی بنانے کے لیے مجبور کیا جا رہا جن میں پہلے ہی کورونا کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں یا ان کی رپورٹس مثبت آ چکی ہیں۔
تاہم نجی چینلز کی انتظامیہ نے ایسے تمام دعوؤں کی تردید کی ہے۔
پاکستان میں چند چینلز کی انتظامیہ اپنے کورونا سے متاثرہ ملازمین کے حوالے سے تفصیلات فراہم کر رہی ہیں تاہم چند میڈیا مالکان ایسے بھی ہیں جو نہ صرف خود اس مسئلے پر بات کرنے سے ہچکچا رہے ہیں بلکہ چینل کے سینیئر اور جونیئر ملازمین کو بھی اس نوعیت کی اطلاعات فراہم کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔
اسلام آباد پریس کلب کے صدر شکیل قرار کے مطابق گذشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل کے دو ملازمین کو اس بات پر فارغ کر دیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے صحافیوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں اپنے ادارے میں کام کرنے والے دو ملازمین کے کورونا میں مبتلا ہونے کی تصدیق دیگر صحافیوں کو کر دی تھی۔
نجی میڈیا گروپ 92 نیوز سے وابستہ ایک صحافی کے مطابق ان کے ڈیسک پر کام کرنے والے ایک ملازم کا دو روز قبل کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے تاہم اس کے باوجود کسی بھی سٹاف کے رکن کو گھر سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وبا کی ابتدا میں ہی تمام سٹاف کو آگاہ کیا گیا تھا کہ گھر سے کام کرنے کا آپشن دستیاب نہیں ہے اور تمام سٹاف کو آفس میں حاضری یقینی بنانی ہو گی۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے اسلام آباد آفس کی عمارت میں 250 کے لگ بھگ ملازمین کام کرتے ہیں اور چند دکھاوے کے اقدامات کے علاوہ کام پہلے کی طرح جاری ہے اور تمام شفٹوں میں پورا سٹاف کام کر رہا ہے۔
92 میڈیا گروپ کے سی ای او میاں رشید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں اور اسلام آباد آفس میں رابطہ کرنے کا کہا۔ جب اس گروپ کے شعبہ ایچ آر کے نمائندے سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اس حوالے سے کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔
نجی میڈیا گروپ اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے صرف کراچی آفس میں اب تک 79 ملازمین کے کورونا ٹیسٹ مثبت آ چکے ہیں تاہم اس ادارے کے نائب صدر عماد یوسف نے ان تمام احتیاطی تدابیر اور قواعد و ضوابط کی بارے میں بی بی سی کو تفصیل سے آگاہ کیا ہے جن پر چنیل انتظامیہ فی الوقت عمل پیرا ہے۔
گذشتہ روز پاکستان کے انگریزی روزنامے بزنس ریکارڈر کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ اس ادارے کے اسلام آباد بیورو میں کام کرنے والے تین رپورٹرز کے کورونا ٹیسٹ مثبت ہونے کے باوجود انھیں بجٹ کوریج کے لیے آفس طلب کیا گیا تھا۔
بزنس ریکارڈر، آج ٹی وی اور آج انٹرٹینمنٹ کے گروپ چیف شہاب زبیری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دیگر میڈیا اداروں کی طرح ان کے ادارے کے بھی نو ملازمین اب تک کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ تاہم انھوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ ملازمین کو متاثر ہونے کے باوجود آفس آنے کا کہا گیا تھا۔
’اس حوالے سے فیک نیوز جانتے بوجھتے پھیلائی گئی ہے۔۔۔تمام ملازمین جن کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے وہ اپنے اپنے گھروں میں قرنطینہ میں ہیں اور ادارہ ان سے رابطے میں ہے۔’
اس سے قبل اے آر وائی کے اسلام آباد آفس اور نجی ٹی وی چینل ہم نیوز میں بھی میڈیا ورکرز میں کورونا کی تشخیص کے بعد یہ دفاتر کچھ وقت کے لیے بند کر دیے گئے تھے۔
نجی اداروں میں کیا ایس او پیز اختیار کیے گئے ہیں؟
شہاب زبیری نے بتایا کہ ان کے ادارے کے تمام دفاتر میں ایس او پیز پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔
’صرف انتہائی ضرورت کا سٹاف آفس سے کام کرتا ہے، آج ٹی وی میں ایک تہائی سے بھی کم سٹاف آفس آ کر کام کر رہا ہے، تمام مارننگ اور شام کے شوز کے اینکرز اپنے اپنے گھر سے پروگرام ہوسٹ کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ آفس آنے والوں کے لیے داخلی دروازوں پر ڈس انفیکٹ کرنے کے گیٹ اور ہینڈ سینیٹائزرز نصب ہیں۔ آفس میں موجود عملے کے ہر رکن کے دن میں دو مرتبہ ماسک اور دستانے تبدیل کروائے جاتے ہیں۔
’تمام دفاتر کھلنے سے قبل ڈس انفیکٹ کیے جاتے ہیں جبکہ شفٹ کے اختتام پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہفتے میں ایک مرتبہ پورے آفس کو سیل کر کے مکمل طور پر ڈس انفیکٹ کیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ سماجی فاصلے کا انتہائی خیال رکھا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ دیگر اداروں کے برعکس ان کے ادارے میں اس وبا کے دوران ملازمین کی تنخواہ میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کی گئی کیونکہ اس وبا میں ملازمین کی ذہنی صحت بہتر ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
دوسری جانب اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے نائب صدر عماد یوسف کہتے ہیں کہ ان کے میڈیا ادارے سے منسلک ملازمین کی تعداد لگ بھگ 1800 ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ادارے میں ہر طرح کے ایس او پیز موجود ہیں تاہم سٹاف سے پابندی کے ساتھ ان پر عملدرآمد کروانا بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اے آر وائی کے تمام دفاتر کے داخلی راستوں پر عملے کا جسمانی درجہ حرارت چیک کیا جاتا ہے، سپرے گیٹس نصب ہیں جبکہ ہینڈ سینیٹائزرز نصب ہیں۔
’وہ تمام ملازمین جنھیں تھوڑی سے بھی علامات ہیں انھیں بذات خود آفس آنے سے منع کیا گیا ہے۔ سماجی رابطے کا خیال رکھا جاتا ہے، 80 فیصد سٹاف اس وقت گھر بیٹھا ہے اور وہاں سے کام کر رہا ہے۔‘
’فنانس، اے آر وائی ڈیجیٹل کی پوری ٹیم گھر سے کام کر رہی ہے، نیوز ٹرانسمیشن اور ٹیکنیکل لوگ جن کے آئے بغیر نشریات نہیں چل سکتی انھیں تو آنا پڑتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ مارننگ شو اور شام کے پروگرام میں کسی مہمان کو مدعو نہیں کیا جا رہا بلکہ وہ پروگرام میں شمولیت سکائپ کے ذریعے کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے ہی میڈیا بزنس ڈاؤن ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے آنے والے اضافی اخراجات علیحدہ ہیں۔
نجی دفاتر کی عمارت کب سیل کی جاتی ہے؟
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات کا کہنا تھا کہ نجی دفاتر اور اداروں کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے پہلے گائیڈ لائنز کا اجرا کیا جا چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان گائیڈ لائنز کے مطابق تھرمل سکینرز، ہینڈ سینیٹائزرز، فیس ماسک کا استعمال، ملازمین کے درمیان بیٹھنے کی جگہوں پر دو میٹر فاصلہ برقرار رکھنا، دفاتر کو باقاعدگی سے مکمل طور پر ڈس انفیکٹ کرنا، کورونا سے بچاؤ کے معلوماتی پوسٹرز دفاتر میں چسپاں کرنا، کاغذ اور فائلز کا کم سے کم استعمال، بزرگ ملازمین کو دفاتر حاضری سے استثنا وغیرہ شامل ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کسی دفتر کی متاثرہ عمارت کو سیل کب کیا جاتا ہے انھوں نے کہا کہ یہ انسپیکشن ٹیم کی صوابدید ہوتی ہے۔
‘بلیو ایریا کے سعودی پاک ٹاور میں قائم مختلف دفاتر میں کام کرنے والے 22 ملازمین میں کورونا کی تصدیق ہوئی، تاہم جب موقع پر جا کر ٹیم نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ تمام افراد کسی ایک دفتر نہیں بلکہ الگ الگ دفاتر میں کام کر رہے تھے اور ظاہری طور پر یہ وائرس ان میں ایک دوسرے منتقل نہیں ہوا تھا۔ اسی بنیاد پر انسپیکشن ٹیم نے پوری عمارت کو سیل کرنے کی سفارش نہیں کی بلکہ ہر دفتر کے حوالے سے علیحدہ علیحدہ اقدامات کیے۔’
انھوں نے بتایا کہ دوسری طرف اسلام آباد کے ایک نجی دفتر کی عمارت کو صرف تین کورونا متاثرین کی موجودگی کے باعث بند کر دیا گیا تھا کیونکہ انسپیکشن ٹیم کے مطابق یہ تمام افراد ایک دوسرے سے متاثر ہوئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ عمارت کو سیل کرنے کی سفارش انسپیکشن ٹیم کرتی ہے اور وہ یہ فیصلہ حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرتی ہے۔