پاکستان

بلوچستان: ’کروڑوں‘ روپے مالیت کے کیمیکلز برآمد کرنے والی خاتون اسسٹنٹ کمشنر عائشہ زہری حکام کے رویے سے نالاں

Share

صوبہ بلوچستان میں حالیہ کارروائی کے دوران منشیات میں استعمال ہونے والے کیمیکلز ضبط کرنے والی خاتون اسسٹنٹ کمشنر عائشہ زہری کا الزام ہے کہ جب وہ برآمد شدہ مال لے کر تھانے پہنچیں تو حکام نے اسے قبضے میں لینے سے انکار کر دیا تاہم حکام نے اس بات کی تردید کی ہے۔

عائشہ زہری کی سربراہی میں سکیورٹی اہلکاروں کی ایک ٹیم نے بھاری مقدار میں منشیات میں استعمال ہونے والے کیمیکلز برآمد کیے ہیں۔

صرف تین لیویز فورس کے اہلکاروں اور ڈرائیور کی ٹیم کی سربراہی کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر، دالبندین عائشہ زہری نے یہ کمیکلز برآمد کیے جس کے بعد ان کا خیال تھا کہ انھیں اور سکیورٹی اہلکاروں کو اعلیٰ حکام کی جانب سے داد و تحسین ملے گی مگر اس کے برعکس انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عائشہ زہری نے بتایا کہ یہ کارروائی انھوں نے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین سے شمال میں 16 کلومیٹر کے فاصلے پر موکنٹک کے علاقے میں کی۔

عائشہ زہری کے مطابق اس کارروائی کے دوران فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تاہم وہ فورس کے جوانوں کے ساتھ موقع پر موجود رہیں۔

انھوں نے بتایا کہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد انھوں نے ایک گاڑی کو تحویل میں لیا ’جس میں بھاری مقدارمیں کیمیکلز تھے جنھیں افغانستان سمگل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی‘۔

اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق یہ کمیکلز افغانستان میں منشیات کے فیکٹریوں میں مختلف منشیات کی تیاری اور ان کو ریفائن کرنے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کے بقول برآمد کیے جانے والے کیمیکلز کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔

کارروائی کے بعد مایوسی کیوں ہوئی؟

عائشہ زہری نے بتایا کہ جب وہ یہ کمیکلز لے کر لیویز تھانہ پہنچیں تو بہت خوش تھیں کیونکہ انھوں نے یہ کارروائی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’تھانے میں ڈیوٹی پر موجود لیویز فورس کے دفعدار نے برآمد شدہ مال قبضے میں لینے سے انکار کر دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس پر ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ لیویز فورس کے دفعدار نے ان کے استفسار پر بتایا کہ ’یہ ڈپٹی کمشنر کا حکم ہے کہ میڈم کوئی قبضہ میں لی گئی گاڑی یا ضبط شدہ سامان لائیں تو اسے قبضے میں نہ لیا جائے‘۔

مشیات
پاکستان میں سمگلرز سے برآمد شدہ منشیات نذرِ آتش کی جاتی ہے

عائشہ زہری کے مطابق انھیں یہ معلوم نہیں کہ کس قانون کے تحت ایسا کیا گیا اور وہ یہ بھی نہیں جانتیں کہ اس کی وجہ کیا ہے۔

بعد میں کیمکلز کی برآمدگی کی ایف آئی آر درج تو کی گئی لیکن خاتون اسسٹنٹ کمشنر اس سے مطمئن نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایف آئی آر عمومی طور پر سپاہی یا فورس کے کسی اہلکار کی مدعیت میں درج کرائی جاتی ہے لیکن ڈپٹی کمشنر کے کہنے پر ایف آئی آر ان کی (اسسٹنٹ کمشنر) مدعیت میں درج کرائی گئی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ان کو اذیت دینے کے لیے ایسا کیا گیا تاکہ انھیں ہر پیشی پر عدالت جانا پڑے۔

انھوں نے بتایا کہ ایف آئی آر میں ’مناسب دفعات بھی نہیں لگائی گئی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ان کو پریشاں کیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ ڈپٹی کمشنر ان سے ’کام لینے کی بجائے یہ مشورہ دیتے رہے کہ وہ رخصت پر چلی جائیں‘۔

انھوں نے کہا کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا جا رہا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا موقف کیا ہے؟

رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر چاغی فتح خجک نے خاتون اسسٹنت کمشنر کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی جو ویڈیو جاری ہوئی ہے اس میں وہ تھانے کے اندر بیٹھی ہوئی ہیں اور جو کیمیکلز انھوں نے برآمد کیے تھے وہ بھی تھانے کے اندر پڑے ہوئے تھے۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے صبح دس بجے درخواست آئی جس پر انھوں نے فوری طور پر مقدمہ درج کرانے کے احکامات جاری کیے اور ایف آئی آر 11 بجے تک درج ہو چکی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’انتظامیہ کے لوگوں کا کام اس طرح کا ویڈیو جاری کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ انھیں اپنا کام کرنا ہوتا ہے‘۔

ڈپٹی کمشنر نے خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے لگائے جانے والی الزامات کو اپنے خلاف ایک مہم قرار دیا ہے۔

عائشہ زہری کون ہیں؟

عائشہ زہری کا تعلق بلوچستان کے علاقے خضدار سے ہے۔

انھوں نے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کیا اور اب وہ صوبائی سروس کا حصہ ہیں۔

وہ بلوچستان میں ان تین خواتین میں شامل ہیں جو کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پہلی مرتبہ مختلف علاقوں میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

ایران اور افغانستان سے متصل سرحدی ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین میں ان کی اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے تعیناتی تین ماہ قبل ہوئی تھی۔

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک خاتون نے بلوچستان کے قبائلی ماحول اور دوردراز کے علاقے میں اسسٹنٹ کمشنر کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں اب تک جتنی بھی خواتین اسسٹنٹ کمشنر آئیں ہیں انھوں نے چاغی جیسے دوردراز علاقے میں کام نہیں کیا۔ تاہم ابھی ایک اور خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی حب کے علاقے میں ہوئی جو کہ کراچی سے متصل علاقہ ہے۔