حکیم الامت اور قائداعظم کی ادھوری تعلیم
شاعر مشرق نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ قائداعظم نے بار ایٹ لاء لنکنز اِن (Lincoln’s Inn) سے کیا۔ اپنی اپنی ڈگریاں حاصل کرنے سے پہلے نہ مفکرِ مسلمانانِ ہند اور نہ ہی معمارِ پاکستان پہ ایسی کوئی شرط عائد ہوئی کہ وہ قرآن پاک کی ناظرہ اور ترجمے کی مہارت حاصل کریں۔
دونوں کی خوش قسمتی ہی سمجھی جانی چاہیے کہ وہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے عہد میں طالب علم نہ تھے۔ ورنہ ممکن ہے یوں کرنا پڑتا۔ شاعر مشرق کو شاید مشکل نہ پیش آتی لیکن قائد اعظم‘ جن کی ساری تعلیم انگریزی میں تھی‘ کو تھوڑی بہت دِقت ضرور ہوتی۔
قائد اعظم سے بڑا محافظ مسلمانانِ ہند کا کوئی نہیں رہا۔ اُن کے بغیر برصغیر میں ایک مسلم ریاست کا قیام ناممکن ہوتا‘ لیکن قائد اعظم نے اپنی درخشاں زندگی میں عملی کام کیا شوشوں کا سہارا کبھی نہ لیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ ریاست قائم کر دی لیکن اُن کے اقدامات دیکھیے، اُن کی تمام کی تمام تقاریر چھان ڈالیے، کوئی فضول کا نعرہ نہیں ملے گا۔ لیکن اُن کی وجہ سے بننے والے ملک کی جو پاکستانی قوم کہلاتی ہے اُس کی تو زندگی ہی فقط نعروں اور شعبدہ بازی پہ مبنی ہے۔ عملی کام اس قوم سے ہوتا نہیں۔ مسائل ہیں کہ حل نہیں ہوتے۔ کشکول ہے تو لوہے سے زیادہ مضبوط۔ گداگری ہے تو سب سے آگے۔ اُونے پونے سودا ہونا ہوتا ہے تو اُس میں بھی قوم اور خاص طور پہ اُس کے حکمران پیش پیش‘ لیکن نعرہ لگتا ہے تو دین کا۔ اسلام کے کسی ایک اصول کی پاسداری یا عملداری ملک میں نہیں ہوتی۔ پورے کا پورا نظام، سماج سے لے کر معیشت تک، استحصال پہ مبنی ہے‘ لیکن اسلام کا نام ایسے چلایا جاتا ہے جیسے اس کے ہر اصول کی مکمل پاسداری کی جاتی ہو۔
مذہب سے لگاؤ کس معاشرے میں نہیں ہے؟ ہمارا مسلم معاشرہ ہے، مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے۔ ایک ہزار سال سے اسلام کی شناخت اور پہچان برصغیر میں قائم رہی ہے۔ تاقیامت یہ مسلمان معاشرہ رہے گا۔ سکھوں کو اپنے مذہب سے لگاؤ ہے۔ ہندوؤں کو اپنے مذہب پہ ناز ہے۔ یورپی ممالک اور امریکا میں سیکولرازم رائج ہے لیکن اکثریتی آبادی عیسائیت پہ یقین رکھتی ہے۔ آکسفورڈ اورکیمبرج کے پرانے کالجوں میں زمانۂ قدیم کے چرچ موجود ہیں جہاں اب بھی مذہبی رسوم ادا کی جاتی ہیں، حالانکہ اُن کالجوں میں تعلیم و تدریس کے معیار الگ بنیادوں پہ قائم ہیں۔
جہاں سے شاعرِ مشرق اور معمارِ پاکستان فارغ التحصیل ہوئے وہاں اگر یہ کہا جائے کہ ڈگریاں تب ملیں گی جب آپ انجیل سے چند اوراق پڑھیں گے اور اُن کا مفہوم بیان کر سکیں گے تو قہقہہ ایسا اُٹھے کہ اُس کی گونج ساتویں آسمان تک پہنچ جائے‘ لیکن یہاں بغیر کسی چوں و چرا کے چھ سات یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہے‘ اور فیصلہ ہوتا ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کی ڈگریاں تب تک نہیں دی جائیں گی جب تک طالب علم قرآن پاک کو بطور مضمون اختیار نہیں کریں گے۔
مذہبی عقیدہ اپنی جگہ ہے تعلیم کے تقاضوں کی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔ تعلیمی نظام ہمارا درست ہو نہیں رہا، معیار گر چکے ہیں اورگرتے جا رہے ہیں۔ نہ ایک نظامِ تعلیم بن سکا ہے‘ نہ ایک نصاب کی طر ف پیش قدمی ہو سکی ہے۔ ایک نظام ہے جس میں زبانِ تدریس انگریزی ہے۔ ایک سرکاری نظام تعلیم ہے جو کم حیثیت کا ہے اور جس میں زبانِ تدریس اردو ہے۔ پھر مدرسے ہیں جن کا اپنا نصاب ہے۔ ہمیں اس بات کی شرم نہیں آتی کہ انگریزی سکولوں کے او لیول اور اے لیول کے پرچے انگلستان سے آتے ہیں۔ وہیں پہ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں او لیول اور اے لیول کے امتحانات 1964ء میں ختم کر دئیے گئے تھے۔ ہم ہیں کہ انہیں اب بھی نشانِ امتیاز سمجھتے ہیں۔ جو کرنے کی باتیں ہیں وہ ہماری سمجھ اور دسترس سے باہر ہیں۔ لیکن شعبدہ بازی میں ہمارا مقابلہ کون کرے۔
چوہدری سرور صاحب نے جو کارنامہ کرنا تھا وہ کرلیا لیکن ان وائس چانسلروں سے کوئی پوچھے کہ جب یہ تجویز آپ کے سامنے رکھی جا رہی تھی تو بطور ماہرِ تعلیم آپ کو کچھ خیال نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟
پاکستان کی تاریخ میں جو چیمپئن شعبدہ باز رہے‘ ان میں ایک جنرل ضیاء الحق بھی تھے۔ خود سینٹ سٹیون کالج (St. Stephen’s) کے پڑھے ہوئے تھے۔ ملٹری اکیڈمی میں ساری تعلیم انگریزی میں تھی لیکن صدر پاکستان بنتے ہیں تو سکول کے نصاب کی پوری طرح اکھاڑ پچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ پاکستان سٹڈیز ایک مضمون بن جاتا ہے۔ اُن کا نام کیا لیں، ایک آدھ اور مضمون بھی لازمی قرار دے دیا جاتا ہے۔ جیسے اوپر عرض کیا‘ تعلیم کا معیار مسلسل گرتا جا رہا ہے لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں۔ اشرافیہ اور اوپر کے طبقات کے اپنے سکول، بیچارے عوام کیلئے ٹاٹ یا نچلے درجے کے سکول۔ حکمران طبقات کو اس تفریق سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن عوام کو بہلانے کیلئے سستی شعبدہ بازی پہ انحصار کیا جاتا ہے۔
فلسفۂ اقبال کا تھوڑا سا بھی اثر اس معاشرے پہ ہے؟ اقبال کی دُہائی کیا تھی کہ مسلمانانِ ہند جہالت سے نکلیں۔ کبھی تو یوں لگتاہے کہ اقبال کا اثر ہندوستانیوں نے ہم سے زیادہ لیا ہے۔ ہر شام جب لال قلعہ دہلی سے ہندوستانی پرچم اتارا جاتا ہے تو فوجی بینڈ پہ دُھن اقبال کی نظم ‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ پہ مبنی ہوتی ہے۔ اقبال کے انگریزی مضامین بعنوان Reconstruction of Religious Thought in Islam سے کوئی دور کا شائبہ بھی رکھتا ہو تو وہ سوچ سکتا ہے کہ فلسفۂ اقبال میں چوہدری سرور صاحب کے اقدام کی تھوڑی سی بھی گنجائش نکلے؟
پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس کے بنانے والے روشن خیال سوچ کے مالک تھے لیکن پاکستان ایسے ہاتھوں میں گیا جنہوں نے اس کا چہرہ مسخ کر دیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے پاس موقع تھا کہ ہمارا شمار ایشیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا۔ ملائیشیا (جس کا شروع کانام ملائیا تھا) ہمارے ملک سے دس سال بعد آزاد ہوا۔ وہاں کے لوگ بھی ہمارے جیسے مسلمان ہیں۔ محمد علی جناح سے بڑا لیڈر وہاں کوئی نہ تھا لیکن جو حکمران اُس ملک کو نصیب ہوئے ان کی سوچ اور کارکردگی جناح کے جانشینوں سے بہت آگے تھی۔ ملائیشیا کی تقدیر اُنہوں نے بدل دی۔ یہاں کے حکمران جناح کے قریب بھی نہ پھٹک سکے۔
یہ بھی دیکھیے کہ چوہدری سرور اپنی کارکردگی دکھا گئے لیکن کسی نے اس معاملے پر بات نہیں کی۔ مانا کہ عمران خان صاحب کی پہلی ترجیح کرکٹ تھی لیکن پھر بھی ارد گرد کے ماحول کا کچھ تو اثر ہونا چاہیے۔ انہوں نے گورنر پنجاب کو کچھ نہ کہا؟ کون سا مسئلہ ہے جس میں مقتدر حلقے اپنا اثر نہیں دکھاتے؟ ان حلقوں کو کچھ اچنبھا نہ ہوا جب یہ خبر سامنے آئی؟ سوال یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کا کرنا کیا ہے؟ جو ہم نے اس کے ساتھ کر دیا ہے وہ کافی نہیں؟ جو آتا ہے اپنے آپ کو سورما سمجھتا ہے۔ جیسے اوپر کہا‘{ اصل کام جو کرنے کے ہیں وہ ہوتے نہیں لیکن اِدھر اُدھر کے شوشے ہم نے ضرور چھوڑنے ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ شوشے چھوڑنا آسان ہوتا ہے۔
ایک اورمثال لے لیجیے۔ شہروں کی صفائی ہم سے ہوتی نہیں۔ میونسپل سروسز کا وہ حال کیا ہے جو افسانوں میں لکھاجاتا ہے۔ راولپنڈی ، لاہور اورکراچی کی صفائی کے ٹھیکے غیر ملکی کمپنیوں کو دئیے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ کئی ایک جگہ جائیے تو دیکھنے کو ملے گا کہ درختوں پہ اسمائے ربانی درج ہیں۔ مقدس ناموں کی اہمیت اور برکت سے کون انکاری ہو سکتا ہے‘ لیکن یہ کس نے کہا کہ صفائی کی طرف دھیان نہ دیں؟ یہ روایت بھی جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہوئی۔