پاکستان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: ایف بی آر کیا ممکنہ کارروائی کر سکتا ہے؟

Share

فیڈرل بورڈ آف ریونیو یعنی ایف بی آر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہویے اگلے چند روز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو نوٹس جاری کرے گا۔

19 جون کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے اکثریت کے فیصلے میں اس معاملے کو ایف بی آر کو بھیجنے اور متعقلہ حکام کو سات روز میں نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔

اگرچہ اس عدالتی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کسی حد تک ریلیف دیا گیا ہے تاہم اپنے حکم میں عدالت عظمیٰ نے ایف بی آر کے حکام کو دو ماہ میں اس معاملے کو نتیجے پر پہنچا کر اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو بھیجنے کا حکم دے رکھا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کی رپورٹ کی روشنی میں اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی کارروائی بنتی ہو گی تو اس بارے میں از خود نوٹس لے سکتی ہے۔

ایف بی آر

ایف بی آر کیا ممکنہ کارروائی کرسکتا ہے

انکم ٹیکس سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل حافظ ادریس نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر کوئی شخص اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرواتا ہے تو ایف بی آر کے حکام اس سے گذشتہ پانچ سال کے آمدن کے ذرائع نہیں پوچھ سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص 10 سال تک اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتا اور ایف بی آر کو اس کی جائیداد کے بارے میں معلومات مل جاتی ہیں تو ایف بی آر کے حکام انھیں انکم ٹیکس کے قانون کی شق 114 کے تحت گوشوارے جمع کروانے کا نوٹس جاری کریں گے۔

حافظ ادریس کے مطابق اگر وہ شخص نوٹس ملنے کے باوجود ٹیکس کے گوشوارے جمع نہیں کرواتا تو پھر انکم ٹیکس کے قانون کی شق 111 کے تحت نوٹس جاری کیا جائے گا اور یہ قانون جرمانے کی مد میں استعمال ہوتا ہے یعنی اگر کسی کی جائیداد پر جتنا ٹیکس لگے گا اسے اتنی ہی رقم جرمانے کے طور پر بھی ادا کرنی ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ ایسا بھی نہ ہونے کی صورت میں ایف بی آر انکم ٹیکس قانون کی شق 121 ڈی کے تحت نوٹس کی تعمیل نہ کرنے والے کے خلاف اس کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنا دے گا۔

حافظ ادریس کے مطابق متاثرہ شخص کو اس فیصلے کے خلاف انکم ٹیکس کمشنر کے پاس اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے اور اس کے علاوہ ایپلٹ ٹربیونل میں بھی اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر وہاں سے بھی فیصلہ درخواست گزار کے خلاف آئے تو اس کے پاس اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی جانے کا اختیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ حکام نے کسی شخص کے خلاف نوٹس کی تعمیل نہ کراونے پر انکم ٹیکس قانون کی شق 192 کے تحت مقدمہ درج کروایا ہو۔

فیصلے پر وکلا تنظیموں کا ردعمل

سپریم کورٹ
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس بارے میں بینچ کے ارکان جمعے کی شام چار بجے اکٹھے ہوں گے اور اگر ججوں کا کسی ایک معاملے پر اتفاق ہوا تو اس بارے میں مختصر فیصلہ سنایا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے معاملے پر وکلا برادری اس حد تک تو مطمئن ہے لیکن ان کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس گوشواروں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کے معاملے پر وکلا تنظمیں خوش دکھائی نہیں دیتی اور وہ اس معاملے کو نظرثانی کی صورت میں سپریم کورٹ میں لے جانے پر سوچ بچار کر رہی ہیں۔

پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے بی بی سی کو بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صداررتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر جو فیصلہ دیا گیا ہے اس میں اس ریفرنس کو کالعدم قرار دینے تک کا فیصلہ تو ان کی درخواستوں میں کی گئی استدعا کے عین مطابق ہے لیکن ان کی اہلیہ اور بچوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ ان کی توقعات کے برعکس ہے۔

انھوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کا احترام ہے لیکن اس فیصلے کے بارے میں نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کے حوالے سے سوچ بچار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں ملک کی تمام بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسل سے رابطے جاری ہیں۔

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستیں دائر کرنے والی بار کونسل سے بھی مشاورت جاری ہے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اس صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی جائے۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اس معاملے پر نظرثانی کی اپیل دائر کی جائے گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو چیلنج کریں گے تو عابد ساقی کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کی اہلیہ کریں گے۔

پاکستان

ان درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیجنے کی مخالفت کی تھی اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اس بارے میں خود فیصلہ کرے تاہم حکومت نے سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کی طرف سے اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیجنے کی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ اگر ایک لمحے کے لیے یہ تصور کرلیا جائے کہ ایف بی آر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہلخانہ کے خلاف کسی کارروائی کی سفارش کرتی ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل معزز جج کے خاندان کے خلاف آئین کے ارٹیکل 209 کے تحت کیسے کارروائی کرے گی جبکہ آئین کا یہ آرٹیکل صرف جج کے خلاف کارروائی کے بارے میں ہے۔

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے مختصر فیصلے میں ایف بی آر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے خلاف تحقیقات مکمل کر کے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنے کے بارے میں جو لکھا ہے اس بارے میں وکلا کی اکثریت کو اختلاف ہے۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کرنا تھا تو پھر فیض آباد دھرنے کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو فیصلہ لکھا تھا تو اس پر بھی من و عن عمل درآمد کرواتے۔

فیض آباد دھرنے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو فیصلہ تحریر کیا تھا اس میں وزارت دفاع کو ان فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا تھا جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کی تھی۔

اس فیصلے کے خلاف وزارت دفاع اور حکمراں اتحاد میں شامل کچھ جماعتوں نے نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے لیکن ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود نظرثانی کی اس درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔

امجد شاہ کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ممکنہ طور پر کارروائی کرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مختصر فیصلے میں ان افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں کوئی اشارہ بھی نہیں دیا گیا جنھوں نے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف غلط معلومات کی بنیاد پر صدارتی ریفرنس دائر کروایا اور جنھوں نے غیر قانونی طریقے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خاندان کی بیرون ممالک جائیداد کا سراغ لگانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

انھوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بھی انہی نکات پر ہی لکھا جاتا ہے جس کا ذکر مختصر فیصلے میں کیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ

’عدالت عظمیٰ نے جسٹس فائز عیسیٰ کو کلین چٹ نہیں دی‘

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے مطابق ابھی تک عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کلین چٹ نہیں دی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ایف بی آر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اپنی منی ٹریل فراہم نہیں کرتیں اور آمدن کے ذرائع بتانے میں ناکام رہتی ہیں جس کی روشنی میں ایف بی آر اگر بیرون ممالک میں جائیداد خریدنے کی ذمہ داری بالواسطہ جسٹس قاضی فائز عیسی پر ڈال دیتی ہے تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس سپریم کورٹ کے جج کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا تھا کہ ان جائیدادوں سے ان کے شوہر کا کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ ان جائیدادوں کی مالک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس وقت لندن میں یہ جائیدادیں خریدی گئیں اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے۔

سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے کوڈ آف کنڈکٹ میں یہ بات شامل ہے کہ وہ کسی معاملے میں درخواست گزار نہیں بن سکتے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایف بی آر کے حکام کو حکم دیا ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو نوٹس اسلام آباد میں معزز جج کی سرکاری رہائشگاہ پر بھجوائیں۔

’دونوں فریقین کو خوش کرنے کا تاثر ملا‘

ان درخواستوں کی سماعت کی کوریج کرنے والے صحافی حسنات ملک کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے کے ابتدائیے میں ہی کہا ہے کہ تفصیلی فیصلے میں اس ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کی وجوہات اور ان درخواستوں کی سماعت کے دوران جو نکات اٹھائے گئے ہیں اگر مناسب سمجھا گیا تو اس بارے میں حکم جاری کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس ریفرنس کو اکثریت کے ساتھ بدنیتی کی بنیاد پر کالعدم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا حکم بھی جاری ہو گا۔

لیکن اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیجنے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے دونوں فریقین کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی یعنی قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے کر وکلا کو خوش کیا گیا جبکہ اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیج کر حکومتی بیانیہ یعنی ’احتساب سب کا‘ کو تقویت دی گئی۔

فروغ

فروغ نسیم اور وزارت قانون کا حلف

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو مسترد ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے لیکن ان درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کو ابھی تک دوبارہ بطور وفاقی وزیر حلف اُٹھانے کے بارے میں نہیں کہا گیا۔

فروغ نسیم نے اس فیصلے کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ عدالتی فیصلے کے بعد حکومت کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے یہ معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا گیا ہے۔

فروغ نسیم ان درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے کی بنا پر اپنی وزارت سے مستعفی ہو گئے تھے۔ اس سے قبل گذشتہ سال بھی وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواستوں کی پیروی کرنے کے لیے بھی مستعفی ہوئے تھے۔

وزارت قانون کے ایک اہلکار کے مطابق فروغ نسیم کی طرف سے وزارت کا دوبارہ حلف لینے کے امکانات اس وقت تک کم ہیں جب تک کہ اس فیصلے کے خلاف ممکنہ طور پر نظرثانی کی درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں آ جاتا تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ وزیر اعظم ہی کریں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس مسترد ہونے کے بعد حزب مخالف کی جماعتیں وزیر اعظم اور صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔