جب پولو کے کھلاڑی کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کا مینیجر بنایا گیا
کرکٹ ٹیم کے کسی بھی غیر ملکی دورے میں تجربہ کار مینیجر کی موجودگی اس لیے ضروری سمجھی جاتی ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی توجہ صرف کھیل تک محدود کر کے انتظامی معاملات بااحسن خوبی خود سنبھال سکے۔
لیکن اگر مینیجر ایسا ہو جسے کھیل کی بنیادی سمجھ بوجھ ہی نہ ہو تو پھر اس کا منفی اثر نہ صرف ٹیم کی کارکردگی پر پڑتا ہے بلکہ جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔
سنہ 1962 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا دورہ انگلینڈ اس کی بڑی مثال ہے۔
اس دورے کے لیے ٹیم کا مینیجر بریگیڈیئر غازی الدین حیدر کو مقرر کیا گیا تھا جو پولو کے کھیل سے اپنی وابستگی کی وجہ سے مشہور تھے۔ انھیں کرکٹ ٹیم کا مینیجر بنائے جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں صدر ایوب خان کا فوجی دور حکومت تھا۔
پیٹر اوبورن کی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر‘ میں لکھا ہے کہ بریگیڈیئر غازی الدین حیدر کا تعلق فوجی گھرانے سے تھا۔ دوسری عالمی جنگ سے قبل وہ میرٹھ میں انڈین ملٹری اکیڈمی میں رہے تھے۔ سنہ 1960 میں وہ ترقی پا کر بریگیڈیئر بنے تھے اور سنہ 1966 میں انھیں مغربی پاکستان رینجرز کا ڈائریکٹر جنرل بنایا گیا تھا۔
بریگیڈیئر حیدر کو برطانوی فوج میں ’گازی‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ برطانوی فوجیوں کو ان کا پورا نام لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
بریگیڈیئر حیدر آٹھ سال تک پاکستان آرمی میں پولو کھیلتے رہے اور وہ پانچ سال تک پاکستان پولو فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد نے اپنی سوانح حیات ’پلیئنگ فار پاکستان‘ میں بریگیڈیئر حیدر سے متعلق اس دورے میں پیش آنے والے متعدد واقعات کا ذکر کیا ہے جو بظاہر بڑے دلچسپ معلوم ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ٹیم کے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔
’ہمارے تمام بولرز اچھا تھرو کرتے ہیں‘
حنیف محمد کا کہنا ہے کہ بریگیڈیئر حیدر ٹیم کی انگلینڈ روانگی سے صرف دو دن پہلے کراچی میں نیٹ پریکٹس کے دوران کھلاڑیوں سے متعارف ہوئے تھے۔ غالباً اسی وقت انھوں نے پہلی مرتبہ کرکٹ کو بھی قریب سے دیکھا تھا۔
انگلینڈ کے دورے میں پاکستانی ٹیم لارڈز پر پریکٹس میں مصروف تھی۔ انگلینڈ کا میڈیا وہاں موجود تھا جو اس کھوج میں لگا ہوا تھا کہ پاکستان کے دو باؤلرز کے باؤلنگ ایکشن مشکوک ہیں اور وہ تھرو کرتے ہیں۔
اس موقع پر صحافیوں نے بریگیڈیئر حیدر سے پوچھ لیا کہ سنا ہے کہ آپ کے دو باؤلرز گیند تھرو کرتے ہیں۔ بریگیڈیئر حیدر نے یہ جانے بغیر کہ کرکٹ میں تھرو کی اصطلاح کن معنوں میں استعمال ہوتی ہے، یہ کہہ دیا کہ ہمارے تمام باؤلرز بہت اچھا تھرو کرتے ہیں۔
انگلینڈ کے صحافیوں نے مینیجر صاحب کی اس بات کو مذاق سمجھا اور یہ معاملہ قہقہوں میں ٹل گیا۔
حنیف محمد کے مطابق اس ٹیم میں دو فاسٹ بولرز انتاؤ ڈی سوزا اور محمد فاروق کے بولنگ ایکشن مشکوک تھے۔
’مجھے کچھ نہیں سننا، آپ نے 499 رنز کرنے ہیں‘
حنیف محمد نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ’ایجبسٹن میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے دوران میری انگلی میں فریکچر ہو گیا، گھٹنے کی تکلیف بھی کافی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کس جگہ فیلڈنگ کروں۔ میں نے تھرڈ مین کا انتخاب کیا۔ میں کپتان جاوید برکی کو کہتا رہ گیا کہ میں کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، لیکن اس کے باوجود مجھے اس میچ میں کھلایا گیا۔‘
حنیف محمد کے مطابق یہ صورتحال کیا کم پریشان کُن تھی کہ ایسے میں میرا سامنا بریگیڈیئر حیدر سے ہو گیا جو کہنے لگے ’میں چاہتا ہوں کہ آج آپ 499 رنز سکور کریں۔ میں نے ان کے چہرے پر نظریں جما کر کہا کہ اس ٹوٹی ہوئی انگلی اور زخمی گھٹنے کے ساتھ اگر میں 100 رنز بھی کر لوں تو بڑی بات ہو گی۔ اس پر بریگیڈیئر حیدر نے جواب دیا ’میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔ آپ نے ہرحال میں 499 رنز بنانے ہیں۔‘
حنیف محمد کا کہنا تھا کہ مینیجر صاحب نے نہ صرف یہ حکم صادر فرما دیا، بلکہ حوصلہ افزائی کے لیے 15 پاؤنڈ دینے کا بھی اعلان کر دیا۔
نسیم الغنی کو بیٹنگ پر جانے سے روک دیا
ہیڈنگلے ٹیسٹ کے دوسرے دن کھیل ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے اعجاز بٹ کی وکٹ گری تو کپتان جاوید برکی نے خود بیٹنگ کے لیے جانے کے بجائے نائٹ واچ مین نسیم الغنی کو بیٹنگ کے لیے بھیج دیا جو ناٹ آؤٹ واپس آ گئے۔
اگلے دن جب کھیل شروع ہوا اور نسیم الغنی بیٹنگ کے لیے جانے لگے تو بریگیڈیئر حیدر نے انھیں روک دیا اور کہنے لگے کہ آپ بیٹنگ کے لیے نہیں جا سکتے۔ وہ بضد تھے کہ جاوید برکی بیٹنگ کے لیے جائیں۔ انھیں سمجھایا گیا کہ نسیم الغنی ناٹ آؤٹ بیٹسمین ہیں، اس لیے وہی بیٹنگ کرنے جا سکتے ہیں۔ بہت مشکل سے انھیں یہ بات سمجھ میں آئی۔
باؤنسر یا گگلی؟
اسی سیریز کے ایک میچ میں پیٹر پارفٹ اور دیگر بیٹسمین پاکستانی بولرز کی خوب پٹائی کر رہے تھے۔ حنیف محمد انگلی زخمی ہونے کے سبب فیلڈنگ نہیں کر رہے تھے اور ڈریسنگ روم کی بالکونی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران فاسٹ بولر محمد فاروق نے پیٹر پارفٹ کو باؤنسر کروائی جس سے وہ خود کو مشکل سے بچا پائے۔
یہ دیکھ کر بریگیڈیئر حیدر جوش میں آ گئے اور ڈریسنگ روم کے سنجیدہ اور خاموش ماحول میں ان کی آواز گونجی ’واٹ اے گگلی۔ واٹ اے گگلی۔ ویل ڈن فاروق۔‘
یہ سننا تھا کہ ڈریسنگ روم میں موجود ریزرو کھلاڑی اپنے چہرے چھپائے ہنسنے لگے۔