ایک اور لاحاصل کالم
گزشتہ ایک ہفتے میں پی آئی سی پر وکیلوں کے حملے پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اکٹھا کیا جائے ‘تو سینکڑوں صفحات پر مشتمل مسل مقدمہ تیار ہو جائے‘ لیکن اتنا کچھ لکھنے کے باوجود سب تحریروں میں جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ”ہونا ہوا نا کچھ نہیں‘‘۔ یہ جملہ ہمارے نظامِ عدل پر عدم اعتماد کا مظہر ہے اور حکومت کی رِٹ کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے‘ لیکن کیا کریں؟ حقیقت یہی ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ اگر یہ پتا ہوتا کہ افتخار چودھری کی بحالی ہم پر نوجوان وکلا کو مسلط کر دے گی تو کم از کم یہ عاجز تو اس تحریک کا حصہ نہ بنتا‘ جس نے قوم کو ایک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کون ہے جو نوجوان وکلا کی سرکشی سے محفوظ ہے؟ شریف آدمی کا تو کیا ذکر‘ وہ تو اس ملک میں سدا سے پس رہا ہے اور پٹ رہا ہے۔ اس نئی قوت نے تو ان کے کڑا کے نکال دیئے ہیں ‘جو خود کڑا کے نکالنے کے لیے مشہور تھے۔ ہر آدمی پولیس سے ڈرتا ہے‘ لیکن پولیس وکلا سے ڈرتی ہے اور ان کے آگے بے بس ہے۔ کوئی اونچی نیچی ہو جائے تو پولیس کو بالآخر کچہری آنا پڑتا ہے اور کچہری کوئی کچہری تھوڑی ہے؟یہ وکلاکا ذاتی تھانہ ہے ‘جہاں وہ ازخود اختیارات کے تحت کسی کا بھی ریمانڈ لے سکتے ہیں اور کسی کی بھی چھترول کرسکتے ہیں۔ ہر قانونی کارروائی میں کچہری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ خواہ ضارب ہو یا مضروب! اسے بہرحال کچہری آنا ہی پڑتا ہے اور سڑک پر وکیل بھائی جان سے پٹنے کے بعد جب وہ فریاد لے کر کچہری پہنچتا ہے ‘تو اسے پھر وکلا سے ہی پالا پڑتا ہے۔ پہلے اسے ایک وکیل پیٹتا ہے ‘پھر اسے وکیلوں کا جتھا اپنا نشانہ مشق بناتا ہے۔ پولیس والے تو کسی عدالت سے رجوع کر کے جج صاحبان سے ریمانڈ لیتے ہیں‘ وکیل حضرات موقع پر ہی عدالت لگاتے ہیں اور خود ہی منصف بن کر فیصلہ جاری کرتے ہیں۔ ریمانڈ کی مدت اور نوعیت کا فیصلہ بھی خود ہی کرتے ہیں۔ بعدازاں پٹنے والا معافی شافی مانگ کر ”باعزت‘‘ صلح کر لیتا ہے اور انصاف کا بول بالا ہو جاتا ہے۔
اب بھی یہی ہوگا۔ ڈاکٹروں اور بار کونسل وغیرہ کے نمائندے بیٹھیں گے‘ آپس کے گلے شکوے دور کریں گے‘ آئندہ کے لیے محبت اور بھائی چارے سے رہنے کا وعدہ کریں گے‘ گلے ملیں گے‘ ایک دوسرے کو مٹھائی کھلائی جائے گی اور دونوں فریق کسی نئے معرکے کی تیاری کے لیے تازہ دم ہو جائیں گے‘ تاہم صرف ایک کام ضرور ہوگا۔ ڈاکٹر آئندہ کسی وکیل کی پھینٹی نہیں لگائیں گے اور وکیل شاید کسی ہسپتال پر حملہ نہیں کریں گے۔ ہسپتال کے دروازے کے باہر یہ پابندی؛ البتہ ضروری نہیں ہوگی۔
وکلا تنظیمیں پوری طرح وکیلوں کی پشت پر ہیں۔ صرف زبانی کلامی مذمت سے قطع نظر بے انتہا منظم بار کونسلیں اپنے ووٹروں کی پشتیبان ہیں۔ مذمت وغیرہ محض لیپا پوتی ہے اور کچھ نہیں۔ کسی بار کونسل نے یہ نہیں کہا کہ ذمہ دار وکلا کے خلاف کارروائی کی جائے یا حملے میں ملوث وکلا سے ہم لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ بیان بڑا مزیدار ہے کہ وکلا کی صفوں میں چند کالی بھیڑوں نے اس معزز پیشے کو بدنام کر دیا ہے۔ ہم ان کالی بھیڑوں کی مذمت کرتے ہیں۔ چلیں مذمت ہوگئی اور بات بھی ختم ہوگئی‘ اگر حملہ کرنے والے واقعی کالی بھیڑیں ہیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی پر احتجاج کیسا؟ حملہ آوروں کے خلاف وہ کارروائی جو قانون کا تقاضا ہے اور قانون ہر شخص کے لیے یکساں ہے تو پھر ان کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی‘ اندراج مقدمہ‘ گرفتاری اور عدالتی کارروائی پر ہڑتال کس لیے؟ تین مریض جان سے گئے‘ سات کروڑ روپے کا نقصان ہوا‘ تین دن ہسپتال بند رہا اور اس سب کچھ ہونے پر وکلا تنظیموں نے حملہ آوروں کی مذمت کر دی تو بات کو ختم کر دینا چاہیے تھا؟ کیا قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے؟ اگر ایسا ہے تو آئندہ کسی لاوارث کی محض مذمت کر کے‘ اسے سارے قانونی تقاضوں سے فارغ کروایا جاسکتا ہے؟ آخر قانون سے ہر قسم کی واقفیت رکھنے والے خود کو قانون سے بالاتر‘ مستثنیٰ اور ماوراء رکھنے پر کیوں مُصر ہیں؟
کسی مائی کے لعل کی جرأت نہیں کہ وہ وکیلوں کو کچھ کہہ سکے۔ کہہ سکنا شاید میں غلط لکھ گیا ہوں۔ کسی کی جرأت نہیں کہ وہ وکلا کے سامنے اپنے حق جتا سکے‘ انصاف طلب کرسکے‘ کسی وکیل کو قانون کی پابندی کی یاد دہانی کرواسکے اور اسے قانون شکنی پر ٹوک سکے۔ وکیل کے علاوہ ہمارے نظامِ انصاف کے دو اہم حصے انتظامیہ اور عدلیہ ہیں۔ انتظامیہ میں پولیس آجاتی ہے‘ جو فوجداری مقدمات میں بعداز تفتیش عدالت میں چالان پیش کرتی ہے اور عدالت اس پر فیصلہ سناتی ہے۔ درمیان میں وکیل قانونی معاونت کرتے ہیں اور مدعی اور مدعا علیہ کی طرف سے دی گئی شہادتوں کو عدالت میں قانونی طریقہ کار سے پیش کرنے پر مامور ہوتے ہیں۔ عدالت ثبوتوں اور گواہان کی بنیاد پر فیصلہ کر دیتی ہے۔
اب‘ صورتحال یہ ہے کہ دیگر دونوں فریق‘ یعنی انتظامیہ اور عدلیہ اس درمیانی فریق (جو فیس لے کر صرف اور صرف قانونی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے عدالت کی قانونی معاونت پر مامور ہے) کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہیں۔ ہمارے سارے نظامِ انصاف کو وکیلوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ کسی عدالت میں اگر کوئی بڑا وکیل (اس بڑے وکیل سے میری مراد اے کے بروہی اور یحییٰ بختیار جیسے بڑے وکیل نہیں ‘بلکہ وکیل رہنما ہے) پیش ہو جائے تو وہ عدالت سے اپنے موکل کے لیے ریلیف قانون کی بنیاد پر نہیں‘ اپنے زور کی بنیاد پر طلب کرتا ہے۔ بار کونسلوں کے صدور وغیرہ علی الصبح اپنے موکلوں کی ضمانتیں ‘اسی زور کی بنیاد پر مانگتے ہیں اور حاصل بھی کرتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ بار کونسل کا الیکشن جیتنے سے پہلے جس وکیل کی فیس ہزاروں روپے میں ہوتی ہے‘ الیکشن جیت کر لاکھوں روپے ہو جاتی ہے۔ بقول ایک دوست کے‘ آخر ہم نے الیکشن میں لگائے گئے کروڑوں روپے وصول بھی تو کرنے ہیں۔
میں نے کل شام کو ملتان اپنے دو تین نہایت معزز اور ٹھنڈے مزاج کے وکیل دوستوں سے بات کی۔ وہ سب اس حرکت پر رنجیدہ تھے اور حملہ آوروں کی مذمت کر رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا ان وکلا پر دہشت گردی کا مقدمہ نہیں ہونا چاہیے؟ ان تینوں دوستوں کا جواب ایک جیسا تھا کہ یہ مسئلے کا حل نہیں۔ کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وکیلوں کی گرفتاریاں غلط ہیں؟ کہنے لگے: غلط تو نہیں ‘لیکن آپ خود سوچیں اس طرح کام کیسے چلے گا؟ میں نے کہا؛ کام کیسے نہیں چلے گا؟ کیا ایسے چلے گا‘ جیسے چل رہا ہے؟ وہ کہنے لگے :اس سلسلے میں بار کونسلوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ میں نے کہا: یعنی آپ چاہتے ہیں کہ میر تقی میرؔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیں‘ جو باعثِ بیماری ہے؟ وہ کہنے لگے: نہیں‘ ایسی بات نہیں۔ بار والے شرمندہ ہیں اور اپنے وکیلوں کی مذمت بھی کر رہے ہیں۔ میں نے کہا :کیا قانون کسی کو سرکاری املاک کے نقصان‘ ہسپتال پر حملے اور زیر علاج مریضوں کی جان سے کھیلنے پر محض مذمت کرنے سے معاف کرسکتا ہے؟ جواب ملا‘ قانون ایسا کہتا تو نہیں‘ لیکن افہام و تفہیم سے اگر بگڑی بات بن جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ میں نے کہا: آپ صاف کہیں کہ آپ وکلا کے خلاف جائز قانونی کارروائی پر راضی نہیں ہیں۔ کہنے لگے: آخر ہم نے اپنی کمیونٹی میں رہنا ہے۔ میں نے کہا: اب آپ سے مزید بات کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔
قارئین! آپ یقین کریں مندرجہ بالا سوال گو کہ تین مختلف دوستوں سے علیحدہ علیحدہ کئے تھے‘ مگر ان تینوں کے جواب تقریباً تقریباً ایک جیسے تھے۔ یہ وہ دوست تھے ‘جو نہایت ہی معقول‘ ٹھنڈے مزاج کے اور بڑے مہذب لوگ تھے۔ باقی کا آپ خود اندازہ لگالیں ۔
مجھے اصل خوف یہ ہے کہ جب انہی وکلا میں سے کوٹے کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے جج لیے جائیں گے تو انصاف کا کیا حال ہوگا؟ اگر گستاخی نہ سمجھا جائے تو ایک سوال ہے کہ ماتحت عدالتوں میں ججوں کے ساتھ مار پیٹ کرنے والے‘ بدتمیزی کرنے والے اور عدالتی تکریم کو برباد کرنے والے کتنے وکلا کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات بنے ہیں اور کتنے وکلا کو سزا ہوئی ہے یا ان کے لائسنس کینسل ہوئے ہیں؟ شاید گنتی کے دو چار۔ اور بس۔ قانون سے لاعلم فردوس عاشق اعوان کو تو دو دو نوٹس ملتے ہیں اور برسرعدالت ججوں کو مارنے پیٹنے والوں سے ”آئوٹ آف کورٹ‘‘ صلح ہو جاتی ہے۔ عدالت کی توہین تو توہین ہے‘ اس پر صلح کرنا فریقین کا اختیار ہی نہیں۔ (باقی صفحہ11پر)
چیف جسٹس صاحب نے تین دنوں میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور اس میں توسیع پر قانون سازی کے لیے چھ ماہ کی مدت دی‘ بڑا اچھا کیا‘ اگر وہ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری بارے بار کونسلوں کے اختیارات اور رویوں بارے بھی کوئی قانون سازی کر جائیں تو کیا ہی اچھا ہے۔ عدالتیں ڈاکٹروں کی ہڑتالوں کو تو غیر قانونی قرار دے دیتی ہیں یہ جو وکیل حضرات اپنے کسی ناجائز مطالبے کو دھکے سے منوانے کی غرض سے ہر دوسرے چوتھے دن ہڑتال کر کے اپنے موکلوں کو ذلیل و خوار کرتے ہیں اس بارے بھی کوئی قانون سازی کر دیتیں تو مخلوقِ خدا انہیں دعائیں دیتی۔ لیکن ایک پنجابی محاورہ ہے کہ ”ڈاڈھے دی ستی ویہاں سوہوندا اے‘‘ یعنی زور آور کی سات بیسیاں (سات ضرب بیس) بھی سو ہوتا ہے۔ لیکن داد دینی پڑے گی عمران خان کو‘ کہ اس حملے کے دوران‘ نئی ٹیم کے ساتھ پس اپنے عثمان بزدار ایک بار پھر صفر جمع صفر ثابت ہوئے ہیں‘ لیکن خان صاحب کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ممکن ہے بزدار صاحب اس کا سارا ملبہ نئے آئی جی پولیس پر اور چیف سیکرٹری پر ڈال کر مطالبہ کریں کہ یہ دونوں حضرات انہیں کام نہیں کرنے دے رہے۔ انہیں تبدیل کیا جائے اور کیا خبر عمران خان اپنے وسیم اکرم پلس کا یہ مطالبہ ایک بار پھر مان لیں۔