منتخب تحریریں

کراچی آرٹس کونسل کی پندرہویں عالمی کانفرنس

Share

کراچی آرٹس کونسل کی پندرہویں عالمی ادبی کانفرنس کا آج تیسرا دن ہے، میں جب الحمرا آرٹس کونسل کا چیئرمین تھا، میں نے بھی ہر سال عالمی ادبی کانفرنس منعقد کی اور لاہور کی فضائیں پاکستان اور پاکستان سے باہر کے ادیبوں اور دانشوروں کی گفتگوئوں سے معطر ہوتی رہیں۔ کراچی آرٹس کونسل نے اس نوع کی کانفرنس کا انعقاد دو ایک سال پہلے یا دو ایک سال بعد کیا، مگر سچی بات یہ ہے کہ کانفرنس کو تو آپ ایک طرف رکھیں لیکن اس کے نتیجے میں ایک ایسی شخصیت کا ظہور ہوا، جس نے ان کانفرنسوں کو ایک ایسے ماڈل کی شکل دی جس کی نقل آسان نہیں رہی، چنانچہ ان کی دیکھا دیکھی ایسی خوشگوار محفلوں کا آغاز دوسرے شہروں میں بھی ہوا، مگر کہاں وہ بات مولوی مدن کی سی۔ میں برادرم احمد شاہ کا ذکر کررہا ہوں جنہیں میں ادب کا ایک بڑا محسن سمجھتا ہوں۔ اس وقت پاکستان سیاست کے گدلے پانیوں میں گرا ہوا ہےمگر کراچی کا ایک گوشہ خوشبوئوں سے معطر ہے۔ میں اس کا نفرنس میں شریک ہوتا رہا ہوں، مگر گزشتہ اور امسال اپنی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکا جس پر برادرم احمد شاہ سے شرمندہ تو ہوں لیکن آپ یقین جانیں میں محسوس کر رہا ہوں کہ اس کے سارےسیشنز میںشریک ہوں اور محمودشام، زہرہ نگاہ، اسد محمد خان، انور مقصود، افتخار عارف، کشور ناہید، امجد اسلام، پیرزادہ قاسم، اصغر ندیم سید، نور الہدیٰ شاہ، یوسف خشک، ناصر عباس نیر، حفیظ خان، تحسین فراقی، ضیاء محی الدین اور سہیل وڑائچ سمیت کتنی ہی نامور شخصیات کو دیکھ رہا ہوں،سن رہا ہوں، حامد میر بھی بطور تجزیہ نگار کانفرنس میں شریک ہیں۔

میں نے چونکہ صرف دو دن پہلے اپنی علالت کی بناپر شرکت سے معذرت کی تھی چنانچہ میں مدعوئین سے لمحہ بہ لمحہ ’’اِن ٹچ‘‘ رہنے اور ان کے لئے ہر قسم کی سہولت مہیا ہوتے دیکھ رہا تھا، میں حیران ہوتا ہوں کہ اس کانفرنس کے دوران میں نے احمد شاہ کو دیکھا ہے، نہ ان کے ہاتھ پائوں پھولے ہوتے ہیں، نہ وہ کسی ٹینشن میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں، نہ انہیں کسی غلطی پر غصہ آتا ہے، وہ اسٹیج پر بھی بیٹھے ہوں تو ان کا دھیان چھوٹی موٹی کوتاہیوں پر ہی رہتا ہے اگر کوئی معزز مہمان بھی کسی موقع پر اپنے معزز نہ ہونے کا ثبوت دے تو احمد شاہ بھی سو میں ایک بار ہی سہی غیرمعزز بن جاتے ہیں۔

میں نے اپنی زندگی میں اندرون ملک اور بیرون ملک بے شمار کانفرنسیں اٹینڈ بھی کی ہیں اور ناروے اور بنکاک میں بطور سفیر پاکستان کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن جب کوئی کام آپ کا عشق بن جائے تو پھر صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔ بہرحال مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ کراچی آرٹس کونسل کی کانفرنس میںعلامہ اقبال کے سال کے حوالے سے اقبال کو پورے پروٹوکول کے ساتھ یاد رکھا گیا۔ لاہور سے ناصرہ اقبال اور تحسین فراقی، اقبال سیشن کے لئے مدعو کئے گئے ہیں۔ ایک بات بطور خاص میں کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ ادیبوں سے سیاست کی بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں صاحب ہم ادیب ہیں، ہمارا سیاست سے کیا کام، ہم سے بات کرنی ہے تو ادب پر کریں مگر کراچی آرٹس کونسل کی پندرہویں کانفرنس میں سیاست پر بھی ایک سیشن ہے۔ نئی کتابوں کی رونمائی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، سرائیکی زبان و ادب کو بھی نظر اندا ز نہیں ہونے دیا گیا۔ ادب میں بچوں کو عموماً نظر انداز کردیا جاتا ہے مگر یہاں تو بچوں کے ادب کے لئے بھی ایک پورا سیشن مختص کیاگیا ہے۔ میرے مرشد مشتاق احمد یوسفی کی یادیں اور باتیں بھی کانفرنس کا حصہ ہیں، میں کانفرنس میں تو بوجہ علالت شریک نہیں ہوسکا مگر میں ان کے حوالے سے اپنی یادیں تحریر کررہا ہوں، آپ کا نفرنس کی ہمہ جہتی کا اندازہ لگائیں کہ ریڈیو، تھیٹر، ٹی وی اور موسیقی پر بھی متعلقہ فنون کے ماہرین گفتگو کریں گے۔

آخر میں ایک تجویز، کیوں نہ پورے ملک میں قائم ادبی اور ثقافتی اداروں کو ایک لڑی میں پرونے کے لئےکسی چیدہ شخصیت کو ناظم الامور بنا دیا جائے تاکہ ہر ادارہ صرف وہی کام کرے جس کے لئے وہ بنایا گیا ہے اور اس میں بہترین کارکردگی دکھائے، حکومت کوچاہیے کہ اس کام کے لئے کسی سرکاری افسر کی خدمات لینے کی بجائے ادیبوں کی ایک کمیٹی سے اس نام کی اپروول لی جائے۔ ہمارے ہاں احمد شاہ ایسے بہترین منتظم شاید اور بھی ہوں تاہم کثرت رائے سے یہ کام ضرور ہونا چاہیے۔