فیچرز

نیوٹن کے سیب سے پہلے کششِ ثقل کو بیان کرنے والے ہندو اور مسلم فلسفی کون تھے؟

Share

آئزک نیوٹن کے سر پر سیب گِرنے کی کہانی ہم سب نے سُن رکھی ہے، چاہے اس میں سچائی ہو یا نہ ہو۔

یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ گریویٹی (کششِ ثقل) کی وجہ سے چیزوں کا گرنا ’لا آف یونیورسل گریویٹیشن‘ کے تابع ہے اور اس کی وضاحت نیوٹن نے سنہ 1687 میں پیش کی تھی۔

مگر نیوٹن کی تحقیق سے پہلے بھی زمین پر چیزیں اوپر سے نیچے گِر رہی تھیں۔ تو ان سے پہلے کے سائنسدانوں نے اس پر کیا وضاحتیں دی تھیں؟ یعنی جسے ہم آج گریویٹی (کششِ ثقل) کہتے ہیں اسے 17ویں صدی سے پہلے کیا کہا جاتا تھا؟

نیوٹن کی وفات کے کئی سال بعد ماہر طبیعات البرٹ آئن سٹائن نے کہا کہ گریویٹی پہلی چیز ہے جس کے بارے میں ہم بالکل نہیں سوچتے۔ کیونکہ ہمارے لیے یہ قدرتی امر ہے کہ پتھر ہمیشہ نیچے گِرتا ہے، اور اگر درخت سے پھل نہ توڑا جائے تو یہ نیچے گِرے گا۔

سنہ 2009 میں اپنی کتاب ’وائے ڈو تھنگز فال؟ اے ہسٹری آف گریویٹی‘ میں ماہر فلکیات الیگزینڈر شرمین اور برونو رینو منڈونکا اس مشاہدے سے شروعات کرتے ہیں کہ گریویٹی ایک خاص چیز ہے۔

شرمین لکھتے ہیں کہ ’اگر گریویٹی خاص نہ ہوتی تو سائنس کے دو سب سے ذہین لوگوں نیوٹن اور آئن سٹائن نے اپنی زندگیاں اسے سمجھنے میں کیوں لگا دیں؟ ان کی ذہانت تسلیم بھی اسی وقت کی گئی جب انھوں نے اس کے راز سے پردہ اٹھایا۔‘

گریویٹی

یونان سے ہند تک

ماہر فلکیات کے مطابق گریویٹی کی اہمیت دو چیزوں پر مبنی ہے: یہ یونیورسل یا عالمی ہے (وہ اصطلاح جو نیوٹن نے استعمال کی) اور یہ جنرل یا عام ہے (وہ اصطلاح جو آئن سٹائن نے استعمال کی)۔

تو گریویٹی کو پہلے کیسے سمجھایا جاتا تھا؟

اگر ہم سائنس کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ارسطو کو سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا فلسفی سمجھا جاتا ہے اور سائنس کی بنیادوں میں انھیں کے نظریات دیکھے جاتے ہیں۔

ڈنمارک میں نیلز بوہر انسٹیٹیوٹ کے ریسرچر راڈریگو پنوسو میسوڈو کہتے ہیں کہ انھوں نے ہر جزو کی خصوصیات کو اس نظریے سے الگ کیا کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ قدرتی طور پر ہر چیز کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔‘

’اگر ایک چیز زمین سے بنی ہے تو قدرتی طور پر یہ زمین پر واپس آ کر گرے گی۔ اگر کوئی چیز گیس یا باہری ہوا سے بنی ہے تو یہ قدرتی طور پر اوپر اٹھے گی۔‘

مینڈونکا ارسطو سے بھی پہلے ہندو سکالرز کے مشاہدے پیش کرتے ہیں۔ آٹھویں صدی قبل مسیح کے فلسفیوں کو معلوم تھا کہ نظام شمسی اور سورج گریویٹیشن کی بدولت اپنی جگہ موجود ہیں۔ ان کے خیال میں سورج سب سے بڑا ستارہ تھا جس کی اس ماڈل میں مرکزی پوزیشن ہے۔

’قدیم انڈیا کے ہندو دانشور کناد سے متعلق دلچسپ ریکارڈ ملتا ہے جنھوں نے ویشیشک فلسفے کی بنیاد رکھی۔

مینڈونکا کہتے ہیں کہ کناد نے اس نظریے کو سمجھنے کے لیے ’وزن‘ کا سہارا لیا۔ ’ہندو وید حقیقت کے قریب تھا مگر اصطلاحات اور سمجھ میں ابھی بڑا سفر باقی تھا۔‘

گریویٹی

قدرتی جگہ

تاہم ماہر فلکیات اتفاق کرتے ہیں کہ گریویٹی میں زیرو پوائنٹ کا نظریہ ارسطو نے دیا تھا۔ ’اس موضوع پر ان کا کام اب موجودہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن ان کی موت کے بعد بھی یہ علم کئی صدیوں تک پھیلایا گیا۔‘

پروفیسر ہوزے لیوز گولڈ فارب کے مطابق ’جدید دور سے قبل نشاۃ ثانیہ کی ثقافتی تحریک کے وقت میں کی گئی تحقیق اور تھیوریوں میں ارسطو کی طبعیات کا بڑا کردار تھا۔‘

’انھوں نے گِرتی چیزوں کو کچھ ایسے بیان کیا کہ زمین کائنات کے بیچ میں واقع ہے اور بھاری چیزیں قدرتی طور پر مرکزیت حاصل کرتی ہیں۔‘

گولڈ فارب کے مطابق یہ خیال کچھ ایسا ہے کہ ’اگر چیزوں کو چھوڑ دیا جائے تو وہ کائنات کے بیچ میں اپنی قدرتی جگہ پر آ جاتی ہیں، جو کہ زمین ہے۔‘

گریویٹی کی اصطلاح لاطینی زبان سے آئی ہے اور اس کے معنی ’بھاری‘، ’اہم‘ یا ’طاقتور‘ کے ہیں۔

ماہر لسانیات انٹونیو گیرالڈو ڈی کنہا کے مطابق گریویٹی کا ذکرِ عام 18ویں صدی میں شروع ہوا جس کا مطلب ہے کہ اسے نیوٹن کی تحقیق کے بعد استعمال میں لانے کا سلسلہ بڑھ گیا۔

شرمین کے مطابق سنسکرت میں گریویٹی کے لیے ’گروتواکرشن‘ کی اصطلاح ہے۔ ’اس کی شروعات لفظ گورو سے ہوتی ہے جو ہندو مذہب میں روحانی اساتذہ اور مذہبی رہنماؤں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق یہ یونانی زبان کے اس لفظ سے ملتا ہے جس سے مراد بھاری ہے۔

مینڈونکا وضاحت کرتے ہیں کہ آٹھویں صدی میں گریویٹی کے لیے لاطینی اصطلاح ’گریوس‘ استعمال ہوتی تھی۔ عرب دنیا سے یورپ تک سائنسی کتب میں اس کا ترجمہ کیا جاتا تھا۔ بھاری چیزوں کے لیے لاطینی مترجم گریوس کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس سے مراد بھاری کے ہیں۔

تاہم یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا کہ پہلے یہ لفظ کس نے استعمال کیا تھا۔ ان کے مطابق لاطینی زبان والی جن یورپی یونیورسٹیوں میں اسے پڑھایا گیا انھوں نے عربی کتب کا ترجمہ کیا تھا۔

گریویٹی

کشش ثقل کے نظریے میں ارتقا

مغربی دنیا میں ارسطو کا نظریہ غالب رہا لیکن سیاہ دور میں علم کے ارتقا کا عمل شروع ہوا اور 2000 سال کی سائنسی تحقیق نے ارسطو اور نیوٹن کے نظریات کو الگ کر دیا۔

گولڈ فارب کا کہنا ہے کہ آج سائنس کے مؤرخ سمجھتے ہیں کہ نیوٹن سے قبل کئی خیالات پیش کیے گئے تھے جو ارسطو کے بجائے نیوٹن کے نظریات کے زیادہ قریب تھے مگر اس کے باوجود گریویٹی پر یونانی فلسفہ زیادہ مانا جاتا تھا۔

اس کی مثال دیتے ہوئے مینڈونکا عرب فلسفی یعقوب ابن اسحاق الکندی کا حوالہ دیتے ہیں جنھوں نے لکھا کہ ستارے چیزوں اور لوگوں پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ’اس قوت کو ستاروں کی تابکاری سے منسوب کیا گیا جو خلا سے سیدھی لکیر میں زمین پر داخل ہوتی ہیں اور چیزوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔‘

بعد میں یہودی فلسفی سلیمان بن جبیرول نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہلکی چیزوں کے مقابلے بڑی اور بھاری چیزیں ساکن رہتی ہیں۔

ایرانی ماہر فلکیات عبدالرحمن منصور الخازنی نے یہ خیال دیا کہ گرنے والی بھاری بھرکم چیزیں سیارے کے مرکز کی طرف حرکت کرتی ہیں۔ ’ان کی تجویز دلچسپ ہے کہ چیزوں کی ثقل (گریویٹی کا عربی ترجمہ) زمین کے مرکز سے ان کے فاصلے پر منحصر ہے۔‘

آئنسٹائن

قوت اور حرکت کا تعلق

اس وقت بہت سی تھیوریاں پیش کی گئیں مگر ایک نظریہ باقی رہا جو انرشیا (جمود) کے قریب تھا۔ ماہر طبیعات فبیو رایا کہتے ہیں کہ ’جمود کا نظریہ سب سے زیادہ پھیلا ہوا تھا جس کا مطلب تھا کہ چیزیں کسی فورس (قوت) کی بدولت حرکت میں آتی ہیں۔‘

’جب قوت ختم ہوتی تھی تو چیزیں اپنی قدرتی حرکت (یا ساکن) میں واپس آ جاتی تھیں۔‘

مینڈونکا نے اس حوالے سے سکندریہ کے فلسفی فیلوپونوس کے کردار کو اہم قرار دیا ہے۔ ’ان کے مطابق آگے دھکیلنے پر چیز کو قوت ملتی ہے اور وقت کے ساتھ یہ قوت کم ہوتی جاتی ہے جس کے آخر میں اس چیز کی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔‘

گرنے والی چیزوں کے بارے میں فیلوپونوس پہلے ہی سمجھ گئے تھے اور اسی نظریے کو ہم آج گریویٹی کے نام سے جانتے ہیں۔

مینڈونکا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس خیال کے مطابق چیزیں زمین سے کشش محسوس کرتی ہیں اور انھیں مرکز کی طرف آنے پر مجبور کرتی ہے۔‘

تاہم فرانسیسی فلسفی ژان بوریدان نے گریویٹی پر ایک متبادل تھیوری پیش کی تھی۔ ’انھوں نے کہا کہ چیزیں اندرونی قوت کی وجہ سے نیچے گرتی ہیں لیکن وہ اس کی قوت کی بنیاد کی وضاحت نہ کر پائے۔‘

ڈی ونچی اور گلیلیو نے بھی گرتی چیزوں پر تحقیق کی تھی۔ پہلے یہ توجیح دی گئی کہ چیزیں اپنے وزن سے گرتی ہیں اور ہوا میں رکاوٹ محسوس کرتی ہیں۔ پھر یہ کہ تمام چیزیں اپنے وزن کے قطع نظر ایک ہی ایکسرلیشن (اسراع) سے گرتی ہیں۔

مگر کوئی بھی اس کی وضاحت کے لیے یونیورسل قانون پیش نہ کر سکا۔

نیوٹن کی تحقیق اس لیے عظیم تھی کیونکہ وہ کامیاب ہوئے تھے۔ ان سے پہلے کے سائنسدانوں نے ان کے لیے علم کا وسیلہ چھوڑا تھا جس سے وہ نہ صرف عالمی اور بنیادی قوت کو سمجھ سکتے تھے بلکہ اس نظریے کی وضاحت کر سکتے تھے۔

گولڈ فارب کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے اپنی تھیوریوں میں نئے کائناتی تصورات پیش کیے اور اس طرح ارسطو کی کائنات سے انحراف کیا۔‘

اس لیے قدرتی جگہ پر واپسی جیسے تصور کی ضرورت نہیں رہی۔ بلکہ چیزوں کے درمیان کشش کا نظریہ آیا، یعنی لا آف گریویٹیشن جو کہتا ہے کہ ایک چیز دوسری چیز سے کشش محسوس کرتی ہے جس کا تعلق وزن اور دونوں کے بیچ فاصلے سے ہے۔

یوں اس بارے میں سمجھنے کی کوشش شروع ہوئی کہ چیزیں زمین کی کشش ثقل کی بدولت اس کی طرف کیسے گرتی ہیں۔

ان کے مطابق نیوٹن کے نظریات نے کائنات کو چلانے والے مختلف قوانین پر تحقیق کے نئے راستے کھول دیے تھے۔