سیکس ایجوکیشن: کیا نوجوان نو عمری میں سیکس نہ کرنے کا مشورہ مان جائیں گے؟
نوعمری میں لڑکیوں کے حاملہ ہونے کی بڑھتی شرح کو روکنے کی غرض سے برازیل کی حکومت نے اپنے ملک کے 13 سے 19 سال کی عمر کے نوجوانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ شادی سے قبل نوعمری میں سیکس کرنے سے گریز کریں اور اسے شادی شدہ زندگی کے لیے بچا کر رکھیں۔
نوعمر لوگوں کو سیکس سے دور رکھنے کے اس متنازعہ حکومتی پروگرام پر ملک میں موجود صحت کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ تاہم برازیل کی وزیر برائے خواتین، خاندان اور انسانی حقوق ڈامارس ایلوس اس کی بڑھ چڑھ کر تائید کر رہی ہیں۔
خواتین کے امور کی وزیر پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس حکومتی پروگرام کی آڑ میں وہ عوام پر اپنا مذہبی ایجنڈہ زبردستی تھوپنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایسا اس وجہ سے کہا جا رہا ہے کیونکہ یہ وزیر برازیل کے موجودہ مسیحی صدر کے انتہائی قریب سمجھی جاتی ہیں۔
گذشتہ برس وزیر خواتین ڈامارس ایلوس نے بی بی سی برازیل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم صرف مزے کی خاطر سیکس کو فروغ دینے کی ایک زبردست مہم چلتی دیکھ رہے ہیں۔ نوعمری میں حمل کی بڑھتی شرح کو روکنے کا حل نہ تو کنڈوم ہے، نہ کوائل رکھوانا اور نہ ہی مانع حمل دواؤں کا استعمال۔ بلکہ اس کا واحد حل جنسی عمل (سیکس) سے مکمل طور پر اجتناب برتنا ہے۔‘
’جلد بازی کے بغیر، صحیح وقت پر‘
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2000 سے سنہ 2017 کے درمیان برازیل میں نوعمری میں حمل ٹھہرنے کی شرح 36 فیصد تک کم ہوئی ہے مگر اس کے باوجود لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک کی نسبت برازیل میں اس کی شرح اب بھی بہت زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق برازیل میں 15 سال سے 19 سال کی ہر ایک لاکھ لڑکیوں میں سے 62 لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں جبکہ عالمی سطح پر یہ شرح ایک لاکھ لڑکیوں میں 44 ہے۔ دنیا بھر میں نوعمری میں حاملہ ہونے کی سب سے زیادہ شرح مغربی ممالک اور سینٹرل افریقہ میں ہے۔
برازیل میں اس حکومتی مہم کا سرکاری نعرہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ’جلد بازی کے بغیر، درست وقت پر۔‘ اس مہم کی تشہیر سرکاری سطح پر سوشل میڈیا پر بھی کی جا رہی ہے۔
وزیر خواتین کہتی ہیں اس مہم کا مقصد نوعمری میں حاملہ ہونے اور جنسی تعلق سے پھیلنے والی بیماریوں کے خلاف ’کچھ نیا‘ کرنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس حوالے سے جاری مباحثے کو پیار سے آگے بڑھانا چاہتی ہیں تاکہ نوعمر بچوں کو سیکس کرنے سے قبل اس حوالے سے سوچنے پر مجبور کیا جا سکے۔
برازیل کی حکومت کا کہنا ہے وہ کسی پر اپنی زور زبردستی مسلط نہیں کرنا چاہتی بلکہ اس مہم کو ’اخلاقیات پر مبنی‘ مباحثے میں بدلنا چاہتی ہے۔
مگر اس سے قبل برازیل کے صدر برازیلی والدین کو کہہ چکے ہیں کہ وہ کتابوں سے ایسے صفحات پھاڑ دیں جس میں وزارت صحت کی جانب سے خواتین کے تولیدی نظام کے حوالے سے نوعمر بچوں کو آگاہ کیا گیا ہے اور یہ سمجھایا گیا ہے کہ سیکس کے دوران کنڈوم کو درست طریقے سے کیسے استعمال کیا جائے۔
’غیر موثر‘
اس حکومتی مہم کو صحت کے پیشے سے منسلک پروفیشنلز کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس بات کے سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں کہ اس طرح کی مہم موثر ہو سکتی ہے۔
برازیل کی پیڈیئیٹرک سوسائٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نوعمری میں حمل سے بچنے کا واحد سائنسی حل یہ ہے کہ سیکس کے حوالے سے مناسب رہنمائی اور تعلیم فراہم کی جائے اور لوگوں کو صحت کی سہولیات تک زیادہ سے زیادہ رسائی دی جائے۔‘
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سکول میں سکول سے باہر دی جانے والی سیکس کی آگاہی کی تعلیم نہ تو جنسی عمل کو فروغ دیتی ہے اور نہ ہی سیکس سے لگنے والی بیماریوں بشمول ایچ آئی وی کے خدشات کو بڑھاتی ہے۔
ادارے کے مطابق صرف ایسے پروگرام موثر ہو سکتے ہیں جن میں مناسب وقت پر سیکس اور کنڈوم کے استعمال یا مانع حمل ادویات کے استعمال کی تعلیم دی جاتی ہو۔
برازیل میں حزب اختلاف کی ایک رکن سیمبیا بومفم کہتی ہیں کہ موجودہ حکومت نوجوانوں کے خود سے فیصلے لینے کی صلاحیت کو کم کرنا چاہتی ہے۔
اپنی ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ’ایک ایسا ملک جہاں 13 سال سے کم عمر بچیوں کو سب سے زیادہ ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیا وہاں لڑکیوں کو یہ آزادی ہو سکتی ہے کہ وہ ’نا‘ کہہ سکیں۔‘
مسیحیت سے متاثر
گذشتہ برس برازیل کی وزیر خواتین نے نوعمری میں حمل ہونے کے مسئلے پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں بہت سے ایسے بین الاقوامی مقررین کو بلایا گیا جو سیکس سے پرہیز کرنے کا پرچار کرتے ہیں۔
اس سیمینار کے ناقدین نے امریکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں (امریکہ) اسی نوعیت کے چلائے گئے تمام پروگرام اور مہم بے سود رہے تھے اور ایسا ہی برازیل میں بھی ہو گا۔
بہت سے ممالک نوعمری اور شباب کے آغاز میں ہی حمل ٹھہرنے کے عمل کو روکنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق بدقسمتی سے ان پروگرامز میں اصل مسئلے کی طرف توجہ دیے بغیر لڑکیوں کو ہی قصوروار سمجھ کر ان کے طرز عمل اور برتاؤ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ نوعمری میں حاملہ ہونا دراصل سکولوں اور صحت عامہ کی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کے باعث ہے۔ لڑکیوں کو قصوروار نہ کہا جائے کیونکہ یہ سب جلدی میں اور بغیر منصوبہ بندی کے باعث ہوتا ہے۔
’عالم شباب کے آغاز میں حمل ہونا جانتے بوجھتے کیے جانے والے عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ متاثرہ لڑکیوں کی اس پورے معاملے میں، جو ان کی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے‘ بہت کم ہی مرضی شامل ہوتی ہے۔‘