ایسے استاد تو اب‘ خواب ہو گئے… (1)
بریگیڈیئر مقصود قریشی میرے دوست ہیں اور خوب آدمی ہیں۔ کل میرے پاس آئے تو اِدھر اُدھر کی باتوں کے ساتھ سکول کے زمانے کا ذکر چل پڑا۔ ساتھ بیٹھا ہوا ان کا بھتیجا معین کہنے لگا: اب نہ پہلے سے استاد ہیں اور نہ ہی پہلے جیسے شاگرد۔ میں نے کہا: ملبہ دونوں پر نہ ڈالیں‘ صرف استاد پر ڈالیں اور اس سے بڑھ کر والدین پر ڈالیں کہ اب نہ پہلے جیسے استاد ہیں اور نہ ہی استاد کے حوالے سے اس کی عزت و توقیر کو تسلیم کرنے والے اور بڑھانے والے والدین ہیں۔ بھلا بچے کا کیا قصور ہے؟ اسے تو جیسی تربیت گھر سے اور سکول سے ملے گی‘ وہی اس کی شخصیت بنائے گی۔ یہی لوگ معاشرہ تخلیق کرتے ہیں۔ سارا معاشرہ ہی بگاڑ کی طرف جا رہا ہے تو نئی نسل اس سے کیا سیکھ سکتی ہے؟ بچہ تو معصوم ہوتا ہے۔ جیسا سکھائیں گے‘ سیکھ جائے گا اور جیسا پڑھائیں گے‘ پڑھ لے گا۔ اس کی شخصیت سازی میں گھر اور مدرسہ بنیادی کردار انجام دیتے ہیں‘ لیکن اب تو دونوں جگہوں سے مثبت تربیت آہستہ آہستہ نا پید ہو رہی ہے۔ نمبر لینا بنیادی مقصد ہے اور اب تعلیمی ادارے‘ استاد اور والدین کو صرف اور صرف نمبروں سے غرض ہے۔ اکیڈمیوں کا زور ہے۔ رٹا چل رہا ہے۔ نوٹسز کا بازار گرم ہے۔ انٹری ٹیسٹ کی مارکیٹ زوروں پر ہے۔ ٹیوشن سکہ رائج الوقت ہے اور تعلیمی ادارے سے لے کر استاد تک‘ سب کے سب فیس بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں۔ طالب علم فیس دیتا ہے اور علم خریدتا ہے۔ استاد اور طالب علم کا باہمی رشتہ جو کہ روحانی اولاد اور روحانی باپ کا تھا اب محض کاروبار ہے۔ استاد کا عظیم مرتبہ اس سارے سسٹم میں کہیں غائب ہو گیا ہے۔ سو‘ شاگرد کیا کرے؟ اس کی تربیت کا بنیادی مرکزہ‘ جو اسے اعلیٰ انسان بناتا تھا‘ مفقود ہو گیا ہے۔ بے چارہ طالب علم کیا کرے؟ کہاں جائے؟ کہاں سے اچھا شہری بنے؟ کہاں سے معاشرے کا کارآمد حصہ بنے؟
بریگیڈیئر مقصود بتانے لگے کہ ان کے والد صاحب نے چاروں بھائیوں کو یعنی انہیں‘ ان کے بھائی ریاض قریشی‘ زکریا قریشی اور ڈاکٹر الطاف قریشی کو ماسٹر غلام فرید کے حوالے کر دیا۔ کیا شاندار استاد تھے۔ اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ میں پڑھانے والے ماسٹر غلام فرید کا تعلق سرگودھا سے تھا اور وہ بسلسلہ ملازمت ملتان میں تھے۔ انہوں نے چاروں بھائیوں کو درجہ بدرجہ چھٹی کلاس سے لے کر دسویں جماعت تک کے تعلیمی مدارج میں مسلسل اپنی نگرانی میں رکھا اور سکول کے بعد بلا معاوضہ والی پڑھائی میں مشغول رکھا۔ ٹیوشن فیس کو چھوڑیں‘ مقصود قریشی بتانے لگے کہ وہ چھٹیوں میں ان کے پاس صبح پڑھنے کے لیے جاتے اور اپنا ناشتہ ساتھ لے کر جاتے‘ تاہم دہی کی لسی ماسٹر غلام فرید کے گھر سے پیتے۔ اب ایسے استاد کہاں؟
اساتذہ کی بات چلی تو میں نے بھی اپنا دفتر کھول لیا۔ گھر آ کر پڑھانے والے غلام حسین کالے کے فرزند ماسٹر اقبال عرف ”ماسٹر بالی‘‘۔ غلام حسین کالا اپنے نام کی مناسبت سے بالکل کالا سیاہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسی رنگت کی وجہ سے لفظ ”کالا‘‘ اس کے نام کا حصہ تھا۔ وہ عدالت میں آواز لگانے پر مامور تھا۔ وہ جو عدالتوں کے باہر ”سرکار بنام فلاں‘‘ وغیرہ کی آواز لگاتے ہیں۔ غلام حسین وہی آواز لگانے والا تھا۔ بالکل اَن پڑھ۔ عدالت کے بعد وہ شام کو ملتان کی سوغات آلو‘ بھی‘ چھولے اور دال مونگ لگاتا تھا۔ چھ فٹ سے نکلتا قد‘ موٹاپے کی طرف مائل بدن‘ سیاہ رنگ اور سفید بڑی بڑی آنکھیں۔ دیکھ کر بچے خوفزدہ ہو جاتے تھے۔ ان خوفزدہ ہونے والوں میں میرا بھی شمار تھا۔ ایک تو وہ خود تھوڑا خوفناک تھا اور اوپر سے وہ خود بھی بچوں کو ڈرا کر خوش ہوتا تھا اور جونہی گلی میں کسی بچے کو دیکھتا چہرے پر غصہ طاری کر لیتا۔ آنکھیں مزید پھیلا لیتا اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پنجوں کی طرح کھول کر کندھوں سے اوپر لے جاتا اور منہ سے ڈرائونی آواز نکالتا۔ اب بھلا کس کی مجال تھی کہ ڈر کے مارے واپس نہ بھاگ جاتا‘ تاہم غلام حسین کالے نے سب بچوں کو ایک رعایت دے رکھی تھی کہ جونہی کوئی بچہ اسے اپنی ”چیچی انگلی‘‘ (چھنگلی) سیدھی کر کے اور باقی تینوں انگلیاں اور انگوٹھا لپیٹ کر ماتھے پر رکھ کر سلام کرتا تو وہ مسکرا کر اسے راستہ دے دیتا۔ ہم اسے دور سے دیکھتے ہی اپنی چھوٹی انگلی ماتھے پر رکھتے اور زور سے کہتے: چاچا کالا! چیچی انگلی کا سلام! اور پھر اس کی طرف دیکھے بغیر منہ ایک طرف سے کر کے گزر جاتے۔ محلے میں ایک اور بھی اسی تن و توش کا‘ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ موٹا اور صحت مند شخص تھا۔ کسی کو بھی اس کا نام معلوم نہیں تھا ‘مگر سب اسے بالو کہتے تھے۔ خدا جانے کہاں سے آیا تھا۔ محلے بھر میں کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ عمر تیس بتیس سال تھی ‘مگر ذہنی استعداد چار پانچ سال کے بچے کی تھی۔ انتہائی معصوم اور بے ضرر۔ سارا دن محلے میں گھومتا رہتا۔ جس گھر کا چاہتا دروازہ کھٹکھٹاتا اور روٹی مانگ لیتا۔ شاید ہی کوئی گھر ہو ‘جہاں سے اسے انکار ہوتا ہو۔ سارا دن گلیوں میں گھومتا۔ ہم اسے گھوڑا بناتے۔ اس کے کندھوں پر سواری کرتے۔ اسے ڈانٹتے ڈپٹتے۔ اس کی دل کھول کر پٹائی کرتے۔ اسے زمین پر لٹا کر اس کے پیٹ پر کودتے۔ وہ ہنستا رہتا۔ کبھی کبھی وہ بڑے زور سے روتا۔ محلے کی عورتیں اسے روتا دیکھ کر بڑی دکھی ہوتیں اور کہتیں: بے چارہ ہے تو وہی پانچ چھ سال کا بچہ‘ اللہ جانے اسے ماں باپ یاد آتے ہیں یا اور کوئی بات ہے۔ وہ رات کو حافظ عبدالعلیم کی ڈیوڑھی میں سوتا تھا۔ نہ اسے سردی لگتی ‘نہ گرمی۔ جو کپڑے مل جاتے وہی پہنے رکھتا۔ کبھی ہم بچے کھینچ کھانچ کر اس کی قمیص پھاڑ دیتے تو سردیوں میں بھی صرف پاجامے میں پھرتا رہتا ‘تا وقتیکہ اسے کوئی نئی قمیص بنوا دیتا۔ اسے محلے میں کسی کی قمیص پوری ہی نہیں آتی تھی کہ فوری طور پر اسے کوئی اپنی پرانی قمیص دے دیتا۔ برسوں تک محلے میں رہنے کے بعد وہ کہیں گم ہو گیا۔ کئی دن تک ہم اسے اِدھر اُدھر تلاش کرتے رہے ‘مگر وہ پھر دوبارہ کبھی نظر نہ آیا۔ خدا جانے کہاں چلا گیا۔
میں بھی خدا جانے کہاں پہنچ گیا ہوں۔ بات ہو رہی تھی ماسٹر اقبال کی۔ ماسٹر اقبال اپنے والد غلام حسین کالے کے ساتھ شام کو چنوں اور دال مونگ کے پھٹے پر بیٹھتا تھا اور صبح اپنا چھوٹا سا ”چھابا‘‘ لگاتا تھا‘ جس میں دال مونگ‘ آلو بھی چھولے اور ڈولی روٹی ہوتی تھی۔ ظہر سے عصر کے درمیان وہ ابا جی سے پڑھنے آ جاتا تھا۔ اس دوران وہ چھت پر لگے ہوئے لکڑی کے دو تختوں کے درمیان کپڑا لگا کر بنائے ہوئے پنکھے کو رسی سے کھینچتا۔ اسے پڑھائی کا شوق تھا اور وہ بڑا ہو کر ماسٹر بننا چاہتا تھا۔ ابا جی نے اس کا شوق دیکھ کر اسے سکول میں داخل کروا دیا اور اس کی فیس جو اس زمانے میں شاید ایک دو آنے ہو گی‘ وہ بھی دیتے تھے اور کتابیں بھی لے کر دیتے تھے۔ ماسٹر اقبال نے پانچویں جماعت پاس کر کے مڈل سکول میں داخلہ لے لیا۔ مڈل کرنے کے بعد پی ٹی سی کر کے وہ سکول ٹیچر بن گئے۔
وہ اپنی اس کامیابی پر ساری عمر شاداں رہے اور بڑے فخر سے کہتے کہ میں چھولے بیچا کرتا تھا اور ماسٹر بننے کے خواب دیکھتا تھا۔ میرا یہ خواب سچ ثابت ہوا اور اب میں ماسٹر ہوں۔ ماسٹر اقبال بعد میں کڑی جمنداں کے پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر بن گئے۔ وہ ابا جی کو اپنا محسن کہتے تھے اور مجھے گھر آ کر پڑھانے لگ گئے ‘مگر ابا جی نے منع کر دیا کہ آپ نہ آیا کریں۔ یہ آپ کے گھر آئے گا۔ میں میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں میں پانچویں کلاس میں داخل ہوا تو فرمائش کر کے ”گھنگھریالے بالوں والے ماسٹر‘‘ کی جماعت میں داخل ہوا۔ یہ ماسٹر غلام حسین تھے۔ ماسٹر اقبال کے شاگرد۔ میرے بہت سارے شاندار استادوں میں سب سے شاندار استاد۔ (جاری )