مولانا طارق جمیل کا قضیہ
جذبات کی گرد قدرے بیٹھ چکی۔ اب وقت ہے کہ اس قضیے کو سنجیدگی سے سمجھا جائے۔
مولانا طارق جمیل پہلے آدمی نہیں ہیں جو علما کی صف سے نکلے اور عمران خان کی حمایت میں سرگرم ہوئے ہوں۔ مولانا سمیع الحق سے مولانا حامدالحق تک اور مفتی عبدالقوی صاحب سے طاہر اشرفی صاحب تک، علما اور اس شناخت کے ساتھ جینے والے، کئی نام ہیں جو خان صاحب کی تائید اور نصرت کے لیے میدان میں ہیں۔ کوئی مدارس کے لیے ان کی خدمات پر رطب اللسان ہے اور کوئی انہیں مجاہدِ ختمِ نبوت کا جبّہ پہنا رہا ہے۔ ان کی حمایت پر کوئی ردِ عمل پیدا نہیں ہوا۔ مولانا طارق جمیل میدان میں نکلے تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟
جن علما نے عمران خان صاحب کی تائید کی، وہ ‘سیاسی علما‘ ہیں۔ ان کی وجہ شہرت علم نہیں، سیاست ہے۔ معاشرے میں وہ اسی عنوان سے سرگرم ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ وہ کسی گدی پر بیٹھے ہوں یا کسی مدرسے کے مہتمم بھی ہوں لیکن یہ اُن کا اصل تعارف نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن صاحب کی طرح۔ کہنے کو وہ مولانا ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان کا شمار اہلِ سیاست میں ہوتا ہے۔ سیاسی علما جب کوئی سیاسی قدم اٹھاتے ہیں تو اس پر کوئی اصولی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی رائے سے اختلاف ممکن ہے لیکن ان کے سیاسی اقدام کو اساسی طور پر غلط نہیں کہا جا سکتا۔
مولانا طارق جمیل کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ ان کی وجہ شہرت سیاست نہیں، دعوت ہے۔ وہ دنیا بھر میں دین کی دعوت دیتے ہیں اور ان کا مخاطب مسلمان بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ مسلمانوں کو وہ تجدیدِ ایمان کی دعوت دیتے ہیں اور غیرِ مسلموں کو قبولِ اسلام کی۔ دعوت کا مزاج یہ ہے کہ وہ مخاطب کے باب میں کسی امتیاز کو روا نہیں رکھتی۔ یہی نہیں، داعی مخاطبین سے دنیا میں کسی اجر کا مطالبہ بھی نہیں کرتا۔ دعوت کی شان یہ ہے کہ وہ غیر امتیازی ہوتی ہے اور صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے۔
دعوت کے بر خلاف سیاست کے مطالبات دوسرے ہیں۔ سیاست اصلاً دنیاوی امور سے متعلق ہے۔ اس میں مفادات کا ٹکرائو لازم ہے۔ مفادات تقسیم کرتے ہیں اور یوں سیاست کے نام پر کئی گروہ وجود میں آ جاتے ہیں۔ جب ایک داعی کسی ایک سیاسی گروہ سے وابستگی کا اعلانیہ اظہار کرتا ہے تو لازم کہ ہے کہ وہ دوسرے سیاسی گروہ سے دور ہو جائے۔ یوں اس کی دعوت بھی متنازعہ ہو جاتی ہے۔
یہی سبب ہے کہ اہلِ دعوت اقتدار کی سیاست (Power Politics) سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ ہمارے اسلاف کی تاریخ یہی ہے۔ مولانا طارق جمیل کا تعلق جس جماعت سے ہے، اس کی ساری تاریخ ان معنوں میں غیر سیاسی ہے۔ تبلیغی جماعت کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی، دونوں طرح کی سیاست سے الگ رہتی ہے۔ اسی بنا پر وہ اہلِ اسلام کی ایک عالمگیر جماعت بننے کے قابل ہوئی ہے۔ دنیا کا ہر ملک اس کے لیے اپنے دروازے کھول دیتا ہے۔
تبلیغی جماعت پر البتہ مسلکی چھاپ موجود ہے۔ اس کی وجہ سے دعوت کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ دیوبندی حلقے تک محدود ہو گئی۔ پاک و ہند میں غیر دیوبندی مساجد میں اس کا داخلہ بند ہے۔ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ دین کی دعوت پر جب کسی مسلک یا سیاسی جماعت کی مہر لگے گی تو اس کے لیے دعوت کے بہت سے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اب اگر اس کی کوئی نمایاں شخصیت کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کرے گی تو اس سے دعوت کو نقصان پہنچے گا۔ مولانا طارق جمیل کے معاملے میں یہی ہوا ہے۔ اس باب میں جماعت اسلامی کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ جماعت نے دعوت اور سیاست کو یک جا کرنا چاہا۔ اس کے نتیجے میں دعوت باقی رہی نہ سیاست۔
پھر اس معاملے میں مولانا نے جو استدلال مرتب کیا ہے، اس کی کمزوری بھی ظاہر و باہر ہے۔ خان صاحب کی حمایت میں مولانا طارق جمیل نے دو دلائل پیش کیے ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان ملک کی تاریخ کے پہلے حکمران ہیں جنہوں نے ریاستِ مدینہ کی بات کی ہے۔ یہ بیان خلافِ واقعہ ہے۔ ‘ریاست مدینہ‘ ملک کو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلانے کی ایک تعبیر ہے۔ اسی بات کے ابلاغ کے لیے، اس مفہوم کی حامل کئی اصطلاحیں اس سے پہلے بھی مستعمل رہی ہیں۔ جیسے اسلامی نظام، اسلامی انقلاب، نظامِ مصطفیٰ۔
جنہوں نے 1973ء کا آئین بنایا، انہوں نے بھی اسی کی ضمانت دی۔ جنرل ضیاالحق بھی یہی کہتے رہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد بھی نفاذِ اسلام کے نعرے پر بنا اور متحدہ مجلسِ عمل تو تھا ہی علما اور مذہبی لوگوں کا سیاسی اتحاد جو اسلام کے نفاذ کے علم بردار ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ عمران خان پہلے آدمی ہیں جنہیں ریاستِ مدینہ کی بات کی، خلافِ واقعہ ہے۔
مولانا کی دوسری دلیل یہ ہے کہ خان صاحب کی اہلیہ محترمہ پہلی خاتونِ اوّل ہیں جو شرعی پردہ کرتی ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان کے نزدیک شرعی پردے سے کیا مراد ہے‘ ورنہ ہماری اکثر خواتینِ اوّ ل ‘شرعی پردہ‘ ہی کرتی رہی ہیں۔ اگر خاتونِ اوّل کے اسلام کو مولانا نے دلیل بنایا ہے تو انہوں نے وہ تصاویر بھی دیکھی ہوں گی کہ کیسے وہ ایک مزار پر سجدہ ریز ہیں اور ساتھ مستقبل کے وزیر اعظم بھی۔ کیا مولانا کے نزدیک یہ عمل شریعت کے مطابق تھا؟ شاید اسی رویے کے لیے سیدنا مسیح ؑ نے فرمایا تھا کہ مچھر چھانتے ہیں اور اونٹ نگلتے ہیں۔
مولانا طارق جمیل کی یہ خوبی رہی ہے کہ وہ سب سے ملتے ہیں اور ان تک دین کی دعوت پہنچاتے ہیں۔ یہی ایک داعی کے شایانِ شان ہے اور اس کی سب تعریف کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ حکمرانوں سے خیر خواہی کا رویہ بھی دین کا مطالبہ ہے۔ خیر خواہی سے مراد انہیں دینی ذمہ داریوں کے بارے میں تذکیر ہے اور یہی ہمارے اسلاف کا رویہ رہا ہے۔ نواز شریف صاحب نے بھی بطور وزیر اعظم، انہیں کئی بار کابینہ سے خطاب کی دعوت دی اور انہوں نے وزرا کو ان کی دینی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا۔ ان سے لوگ یہی توقع رکھتے ہیں۔
جب وہ ایک حکومت کے حق میں مہم چلاتے ہیں تو داعی کے منصب سے اتر کر، ایک سیاسی جماعت کے کارکن بن جاتے ہیں۔ اس کا نقصان دعوت کو پہنچتا ہے اور داعی کے وقار کو بھی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا طارق جمیل جب خان صاحب کے ایک سپاہی اور کارکن کے روپ میں سامنے آئے تو عوام میں اس کا ردِ عمل ہوا۔ اگر وہ داعی کے بجائے کوئی سیاسی عالم ہوتے تو یہ ردِ عمل نہیں ہونا تھا۔
ردِ عمل کا لیکن یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بد زبانی کی جائے۔ مولانا اس کا شکار ہوئے۔ یہ رویہ یقیناً باعثِ افسوس ہے اور قابلِ مذمت بھی۔ شیخ الحدیث کی شہرت رکھنے والوں نے ان کے خلاف تمام اخلاقی ضابطے پامال کیے۔ یہ عمران خان ہوں یا نواز شریف، ان کی حمایت یا مخالف کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے۔ مولانا طارق جمیل پر جو تنقید کی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ ان کا رویہ ایک داعی کے شایانِ شان نہیں۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا، حدود سے تجاوز ہے۔
میری خواہش ہو گی کہ مولانا طارق جمیل اس ردِ عمل پر غور فرمائیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ ایک سیاسی جماعت کے حق میں مہم چلانا، دعوتِ دین کے لیے مفید ہوتا ہے یا سیاسی امور میں غیر جانب دار رہنا؟ تبلیغی جماعت کے اکابر کا رویہ کیا تھا اور ان کا کیا ہے؟ کیا انہیں اندازہ ہے کہ ان کا یہ رویہ، ان کے اورکتنے دوسرے لوگوں کے درمیان حجاب بن گیا ہے؟ اگر وہ ن لیگ یا کسی اور سیاسی جماعت کی تائید کرتے تو بھی اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔
مولانا طارق جمیل اگر اس کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے تو ان کے لیے اور دعوت کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ پھر ان پر اصولی اعتراض ختم ہو جائے گا۔ وہ بھی مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن کی صف میں کھڑے ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ پھر وہ داعی نہیں رہیں گے۔ فیصلہ اب ان کے ہاتھ میں ہے۔ دعوت اور سیاست پہلے ایک ساتھ چلے ہیں نہ اب چل سکتے ہیں۔