وسیم اکرم نے براہ راست میچ فکسنگ کی پیشکش کی تھی، سابق چیئرمین پی سی بی
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین خالد محمود نے تہلکہ خیز انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ قومی ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے فاسٹ باؤلر عطاالرحمٰن کو براہ راست میچ فکسنگ کی پیشکش کی تھی۔
پاکستان کرکٹ میں ایک مرتبہ پھر میچ فکسنگ کے حوالے سے بازگشت عروج پر پہنچ چکی ہے اور اس سلسلے میں سابق چیئرمین پی سی بی کے انکشافات کے بعد نیا پنڈورا باکس کھل چکا ہے۔
گزشتہ دنوں پی سی بی کے اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی کے سبب عمر اکمل پر تین سال کی پابندی عائد کردی گئی تھی جبکہ ماضی میں فکسنگ کے سبب تاحیات پابندی کا سامنا کرنے والے سلیم ملک کو دوبارہ پاکستان کرکٹ میں موقع دینے کے حوالے سے بھی بحث جاری ہے۔
ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود نے تہلکہ خیز انکشافات کرتے ہوئے قومی ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم پر الزامات عائد کیے۔
انہوں نے کہا کہ وسیم اکرم نے سابق فاسٹ باؤلر عطاالرحمٰن کو براہ راست میچ فکسنگ کی پیشکش کرتے ہوئے کارکردگی کم دکھانے کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے بدلے انہیں 90 کی دہائی میں 2 سے تین لاکھ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں عطاالرحمٰن نے خراب باؤلنگ کی تھی اور انہیں وسیم اکرم نے رقم دی تھی جس کا انہوں نے جسٹس قیوم کمیشن میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں اقرار کیا تھا۔
واضح رہے کہ قومی ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز وکٹ کیپر راشد لطیف نے 1995 کے دورہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے موقع پر پہلی مرتبہ پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کا انکشاف کرتے ہوئے ساتھی کھلاڑیوں سلیم ملک اور دیگر پر الزامات عائد کیے تھے۔
اسی سال آسٹریلین اسپنر شین وارن، ٹم مے اور مارک وا نے انکشاف کیا تھا کہ سلیم ملک نے 1994 میں آسٹریلیا کے دورہ پاکستان کے موقع پر انہیں اچھی کارکردگی نہ دکھانے کے عوض رشوت کی پیشکش کی تھی۔
ان الزامات کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے 1998 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج ملک محمد قیوم کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا جنہوں نے دو سال بعد تحقیقات کی بنیاد پر سلیم ملک اور ساتھی فاسٹ باؤلر عطا الرحمان پر تاحیات پابندی عائد کردی تھی۔
اس کمیشن کو اس وقت کے پی سی بی چیئرمین خالد محمود نے قائم کیا تھا جس کی سماعت طویل عرصے تک چلتی رہی تھی اور کھلاڑیوں کی جانب سے ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔
جسٹس قیوم کمیشن کمیشن نے چھ کھلاڑیوں وسیم اکرم، وقار یونس، سعید انور، مشتاق احمد، انضمام الحق اور اکرم رضا پر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
چند سالوں کے بعد عطاالرحمٰن اور سلیم ملک دونوں پر عائد تاحیات پابندی کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔
خالد محمود نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شدید دباؤ کے پیش نظر عطاالرحمٰن اپنے حلفیہ بیان سے مکر گئے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وسیم اکرم نے انہیں میچ فکسنگ کا حصہ بننے کی پیشکش کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے عطاالرحمٰن کو کہا تھا کہ وہ اپنے بیان سے پیچھے ہٹنے کے بجائے اس پر قائم رہیں اور میں بطور چیئرمین پی سی بی انہیں مکمل سپورٹ کروں گا۔
سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ میری یقین دہانی کے باوجود فاسٹ باؤلر نے یہ کہہ کر اپنے بیان سے یوٹرن لے لیا کہ انہوں نے یہ بیان جلد بازی میں دیا تھا اور انہیں غلط فہمی ہو گئی تھی جس پر جسٹس قیوم کمیشن نے ان پر تاحیات پابندی عائد کردی تھی۔
خالد محمود نے مزید انکشاف کیا کہ انہیں 1999 کے ورلڈ کپ کے تین میچوں پر شبہ ہے جس میں سے ایک بنگلہ دیش کے خلاف کھیلا گیا میچ بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ 1999 میں بنگلہ دیش کی ٹیم پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں شرکت کر رہی تھی اور اپنے گروپ میں آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ کو شکست دے کر ٹاپ کرنے والی پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش سے یکطرفہ مقابلے کے بعد میچ ہار گئی تھی۔
بنگہ دیش نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 9 وکٹوں کے نقصان پر 223 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں پاکستانی ٹیم صرف 161 رنز پر ڈھیر ہو گئی تھی۔
خالد محمود نے کہا کہ انہیں بھارت کے خلاف میچ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے فائنل میچ پر بھی شک ہے حالانکہ پاکستان اس میچ کے لیے فیورٹ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ لارڈز کی کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے تمام ماہرین کرکٹ کا ماننا تھا کہ جو کوئی بھی ٹاس جیتے گا اسے پہلے باؤلنگ کرنی چاہیے لیکن کپتان وسیم اکرم نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جس پر ہم سب دنگ رہ گئے۔
سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں ہم صرف 132 رنز پر ڈھیر ہو گئے اور انتہائی شرمناک انداز میں فائنل ہار گئے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے کھلاڑیوں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے کسی قسم کی مشکوک سرگرمیاں ہوتے ہوئے دیکھی تھیں لیکن تمام ہی کھلاڑیوں نے نفی میں جواب دیا اور ورلڈ کپ کے بعد مجھے چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ میرے خیال میں ان تین میچوں کے بارے میں میرے بعد آنے والے کرکٹ سربراہان کو تحقیقات کرانی چاہیے تھی اور وہ اب بھی مانتے ہیں کہ اس معاملے کی انتہائی باریک بینی سے تفتیش ہونی چاہیے۔