ایئرپورٹ پر خیر مقدم کا معاملہ… ایک قدیم کہانی
تین ماہ سے زائد پر محیط، کورونا کرائسس میں وزیراعظم عمران خان کا یہ پہلا دورۂ کراچی تھا۔ بلاول بھٹو زرداری یہ شکایت یا احتجاج ریکارڈ پر لاچکے تھے کہ جناب وزیراعظم اس دوران باقی تین صوبوں میں گئے لیکن سندھ کیلئے وقت نہ نکال سکے۔ عید سے دو روز قبل پی آئی اے طیارہ حادثے پر بھی یہ توقع بے جا نہ تھی کہ جناب وزیراعظم اظہار یکجہتی کیلئے کراچی تشریف لائیں گے‘ لیکن یہ توقع بھی پوری نہ ہوئی۔ طیارے کے پائلٹ اور ایک ایئر ہوسٹس کا تعلق لاہور سے تھا، وہ ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے بھی وقت نہ نکال پائے۔
کراچی کورونا وبا سے سب سے زیادہ متاثر تھا‘ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ اس سے نمٹنے میں سندھ حکومت سبقت لے جا رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کیلئے کلمۂ خیر نہ کہنے والے میڈیا پرسنز کو بھی حقیقت کے اعتراف میں عار نہ تھی۔ شاہ محمود قریشی اس دعوے میں حق بجانب تھے کہ جولائی 2018 میں کراچی کا مینڈیٹ پی ٹی آئی کیلئے تھا۔ اس صورت میں تو پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور مقامی قیادت کا کورونا سے نمٹنے میں سندھ حکومت سے تعاون اور اشتراکِ عمل اور بھی زیادہ ضروری تھا‘ لیکن معاملہ مخاصمت اور محاذ آرائی کا رہا۔ (اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اس میں کس کا کتنا قصور تھا؟) کراچی صدر مملکت عارف علوی کا آبائی شہر (اور حلقہ انتخاب بھی) ہے۔ خبر آئی کہ جناب صدر کراچی جائیں گے تو وزیر اعلیٰ سندھ سے ملاقات کریں گے، لیکن یہ بھی نہ ہو سکا۔
اب وزیراعظم کراچی تشریف لے جا رہے تھے تو توقع تھی کہ روز بروز پھیلتے ہوئے کورونا کے عفریت سے نمٹنے کے لیے وہ سندھ حکومت کے ساتھ مل بیٹھیں گے کہ مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے۔ سندھ حکومت کے ترجمان کے بقول، وزیراعظم کے دورے کی خبر آئی تو وزیر اعلیٰ نے اس روز (منگل کو) کوئی سرکاری مصروفیت نہ رکھی۔ وزیراعظم منگل کی شام تشریف لائے۔ ان کے پروٹوکول کی طرف سے سندھ حکومت کوکوئی باضابطہ اطلاع نہیں تھی۔ اس اطلاع پر ہی وزیراعلیٰ ، وزیراعظم کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ جاتے ہیں۔ جناب وزیراعظم کی اگلے روز کی کسی مصروفیت میں بھی وزیراعلیٰ مدعو نہیں تھے۔ وزیراعظم کی مصروفیات پی ٹی آئی کی مقامی لیڈرشپ، اپنے ارکان اسمبلی اور سیاسی اتحادیوں سے تبادلہ خیال تک محدود رہیں۔ ترجمان کا دعویٰ تھا کہ اس سب کچھ کے باوجود سندھ حکومت نے اپنے طور پر وزیراعظم کو مکمل پروٹوکول دیا؛ البتہ لاڑکانہ میں بدمزگی یوں ہوئی کہ بدھ کو وزیراعظم کی انصاف ہائوس آمد پر، پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے نعرے بازی کے علاوہ پتلا بھی نذرِ آتش کیا۔
میڈیا میں تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں نے 1988-90 میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور وزیر اعلیٰ پنجاب نوازشریف میں ”ریلیشن شپ‘‘ کا ذکر کیا‘ جب وزیر اعظم کی لاہور آمد پر وزیر اعلیٰ کسی اور سرکاری مصروفیت پر شہر سے باہر چلے جاتے تھے۔ 1988 کی انتخابی فضا، 1977 کی انتخابی فضا سے کم پُرجوش نہیں تھی، وہی پروبھٹو اور اینٹی بھٹو محاذآرائی۔ پروفیسر غفور احمد (مرحوم) اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کے سیکرٹری جنرل تھے۔ لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں آئی جے آئی کے منشور اور اس کے انتخابی نشان سائیکل کی رونمائی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: یہ 5 جولائی 1977 کو ختم ہونے والے سیاسی سفر کا نیا مرحلہ ہے۔ فرق یہ تھا کہ تب پیپلزپارٹی کی مخالف تمام جماعتیں پاکستانی قومی اتحاد (PNA) کے پلیٹ فارم پر، ایک انتخابی نشان اور نوستاروں والے پرچم کے ساتھ یکجا تھیں۔ اب آئی جے آئی گنتی کی حد تک تو 9 جماعتوں پر ہی مشتمل تھی لیکن میری نظر میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے سوا، باقی جماعتوں میں اکثریت محض بھرتی کی تھی۔ ان میں جناب غلام مصطفیٰ جتوئی کی نوزائیدہ نیشنل پیپلز پارٹی بھی تھی۔ جناب جتوئی سندھ میں اپنی آبائی سیٹ بھی نہ بچا پائے۔ وہ مظفرگڑھ سے غلام مصطفیٰ کھر کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخاب میں آئی جے آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کی وزارتِ عظمیٰ میں لیڈر آف دی اپوزیشن بنائے گئے۔
مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی، عبدالولی خان کی اے این پی سمیت بلوچستان اور سرحد کی نیشنلسٹ پارٹیاں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑرہی تھیں۔ کراچی اور حیدرآباد میں الطاف حسین کی زیرقیادت ایم کیو ایم ایک نئی سیاسی حقیقت تھی‘ جس نے جماعت اسلامی اور مولانا شاہ احمد نورانی کی جے یو پی کا صفایا کردیا تھا۔ پی این اے میں بھٹو مخالف تمام ووٹ یکجا ہوگئے تھے۔ آئی جے آئی کی تشکیل میں بھی فلسفہ تو یہی تھا لیکن عملاً یہ ممکن نہ ہوسکا؛ چنانچہ 16نومبر کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی 240 میں سے 93 سیٹوں کے ساتھ ایوان میں سنگل لارجسٹ قرار پائی، آئی جے آئی صرف 54 نشستیں جیت سکی۔ باقی 93نشستیں، دیگر جماعتوں میں تقسیم ہوگئیں؛ البتہ دو روز بعد ہونے والے پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں پانسہ پلٹ گیا۔ 240 نشستوں میں 108آئی جے آئی نے جیت لیں، 94 پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں، 32 آزاد جیتنے اور باقی 16نشستیں، دیگر چھوٹی جماعتوں کے کھاتے میں چلی گئیں۔ تب صدر کو اختیار حاصل تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کو، اس مفروضے کے ساتھ کہ اسے ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہے، وزیر اعظم نامزد کردیتا تھا۔ صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم نامزد کردیا تھا، اس میں پس پردہ کن قوتوں نے کیا کردار ادا کیا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔
ادھر پنجاب میں نوازشریف وزیر اعلیٰ نامزد ہو گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں صاحب کو ایک ہی دن، اور ایک ہی وقت میں حلف اٹھانا تھا۔ محترمہ کی خواہش اور کوشش تھی کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی نامزدگی اور حلف برداری ملتوی ہوجائے کہ اس دوران، وہ وفاقی حکومت کے اثرورسوخ کے ذریعے آزاد ارکان کو ملا کر پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اکثریت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی‘ لیکن یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ اعتماد کے ووٹ کا وقت آیا تو وزیر اعظم صاحبہ کے حق میں 148 اور مخالفت میں صرف 55 ووٹ آئے۔ ایم کیو ایم، مولانافضل الرحمن کی جے یو آئی اور اے این پی سمیت دیگر جماعتوں کی تائید بھی وزیر اعظم کو حاصل تھی۔ یہ الگ بات کہ بعد میں جناب صدر اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے محرومی کے نتیجے، وہ اپنے اتحادیوں کی تائید سے محروم ہوئیں اور ایوان میں متحدہ حزب اختلاف وجود میں آگئی تو تحریک عدم اعتماد میں محترمہ بڑی مشکل سے دس، گیارہ ووٹوں کی اکثریت سے سروائیو کرسکیں۔
25 دسمبر 1988 کو وزیر اعظم صاحبہ، لاہور کے پہلے سرکاری دورے پر آئیں تو وزیر اعلیٰ نوازشریف ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ انہوں نے گورنر ٹکا خاں کے ساتھ جہاز کے اندر جاکر وزیر اعظم صاحبہ کا استقبال کیا‘ لیکن بدقسمتی سے وہ پیپلز پارٹی کے جیالوں کی مخالفانہ نعرے بازی سے نہ بچ سکے۔ اگلے روز وزیر اعظم صاحبہ، وزیر اعلیٰ سے ملاقات کیلئے سی ایم ہائوس تشریف لے گئیں۔ گزشتہ روز ایئرپورٹ پر جیالوں کی پیداکردہ بدمزگی کے باوجود ملاقات کا ماحول خوشگوار تھا۔ اس موقع پر تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ ان میں معزز مہمان کیلئے کشمیری شال بھی تھی؛ تاہم اس موقع پر ایک آدھ بار قدرے طنزیہ فقرے بھی ہوئے۔ وزیر اعظم صاحبہ نے فرمایا، آپ پہلے (ایئراصغر خان کی) تحریک استقلال میں تھے، جس پر وزیر اعلیٰ کا ترُت جواب تھا: جی ہاں! جس طرح آپ کے پاپا (فیلڈ مارشل ایوب خان کی) کنونشن مسلم لیگ میں رہے تھے۔
25دسمبرکو لاہور ایئرپورٹ پر وزیر اعلیٰ نواز شریف کی طرف سے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا وہ پہلا اور آخری خیر مقدم تھا۔ یہ سلسلہ آگے کیوں نہ بڑھا یہ کہانی پھر سہی۔