ولیم کی ’’انارکی‘‘ اور طلبہ کی تحریک
جمعہ کی دوپہر سے بستر میں دبکاولیم ڈیل رمپل(William Dalrymple) کی تازہ ترین کتاب The Anarchy پڑھ رہا ہوں۔اپنے تئیں انارکی کا ترجمہ میں عموماََ خلفشار یا ابتری کرتا رہا۔بلھے شاہ نے اپنے دور پر طاری ہوئی افراتفری کو ’’کھلادرحشرعذاب دا‘‘ کہا تھا۔ولیم نے اپنی کتاب کا جو دیباچہ لکھا ہے اسے پڑھ کر مگر احساس ہوا کہ اس کی دانست میں انارکی کے لئے اُردو کا مناسب لفظ فتنہ ہوسکتا ہے۔یہ رائے دیتے ہوئے اس نے فقیر خیرالدین الہ آبادی نام کے ایک مؤرخ کا ذکر کیا ہے۔ایمانداری کی بات ہے کہ میں نے یہ نام کبھی نہیں سنا تھا۔ولیم کا مگر یہ دعویٰ ہے کہ تجارت کی خاطر ہمارے خطے میں وارد ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بے پناہ عروج اور پھیلائو کو سمجھنے کے لئے فقیر خیرالدین اکبر آبادی کی ’’عبرت نامہ‘‘ کے عنوان سے لکھی کتاب پڑھنا بہت ضروری ہے۔اس کتاب کے مطابق مغلیہ سلطنت کے بتدریج زوال سے ’’دارالامنِ ہندوستان دارالفتنہ‘‘میں تبدیل ہوگیا تھا۔
مغلیہ سلطنت کے زوال کے سبب ہر سو چھائی بدامنی اور اس کی بدولت خلقِ خدا کے دلوں میں جاگزیں ہوئے خوف ودہشت کا ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ہندوستان میں تجارت کے نام سے آئی اس ’’کاروباری کمپنی‘‘ نے جس کے لندن میں قائم ہیڈکوارٹر میں 35سے زیادہ ملازمین کبھی رکھے نہیں گئے تھے بنگال کو فتح کرنے کے بعد دہلی تک پہنچنے میں فقط 48سال لگائے۔ یہاں اس کی ملازمت میں 250کے قریب انگریز ’’کلرک‘‘ یا منشی تھے۔ ان ’’غیر ملکیوں‘‘ نے مگر اپنا تسلط جمانے کے لئے دولاکھ ’’مقامی‘‘ افراد پر مشتمل ایک فوج تیار کی جو اس دور کے جدید ترین اسلحہ کی بدولت ناقابلِ شکست ہوگئی تھی۔
مغلیہ سلطنت کے زوال اور ایسٹ اینڈیا کمپنی کے عروج کے عوامل کو سمجھنے کے لئے ولیم نے مارچ 2013سے جون 2019تک مسلسل چھ برس تحقیق کی ہے۔ایسٹ ایڈیا کمپنی کو اس نے سرمایہ دارانہ نظام کی منافع کمانے کی ہوس میں اختیار کی سفاکیت کی حتمی علامت قرار دیا ہے۔’’انارکی‘‘ ایک حیران کن کتاب ہے۔ ٹھوس حقائق کا کھوج لگانے کی بھرپور کاوش اور اندازِ بیان اتنا مسحور کن کہ اسے پڑھتے ہوئے نیند مجھ سے کہیں دور بھاگتی نظر آئی۔کوشش کروں گا کہ وقتاََ فوقتاََ اس کالم میں ولیم کی بیان کردہ چند کہانیوں کو دہراتے ہوئے ان سے جو سبق میں نے ازخود اخذ کئے ہیں آپ کے لئے بھی پیش کرتا رہوں۔
اس ضمن میں پہلا کالم لکھتے ہوئے اگرچہ ’’انارکی‘‘ کے مناسب اُردو متبادل کی تلاش میں اُلجھ گیا ہوں۔ولیم اسے ’’فتنہ‘‘ سے جوڑتا ہے۔لاہور میں ہم یہ لفظ عموماََ کسی فرد کے لئے استعمال کیا کرتے ہیں۔ کسی ایسے شخص کو تحقیر آمیز حقارت سے بیان کرنے کے لئے جو دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کے مابین لگائی بجھائی کے ذریعے فساد برپا کروانے کے چکر میں رہتا ہے۔علمی اعتبار سے ’’فتنہ‘‘ مگر کبھی اس سوچ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جس کے ذریعے معاشرے میں ہیجان برپا کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
’’فتنہ‘‘ کے بارے میں اپنے بچپن سے موجود تاثر کو ذہن میں رکھتے ہوئے مگر اس وقت بہت حیرانی ہوئی جب 1997میں پہلی بار ایران میں دس دن گزارنے کا موقعہ ملا۔تہران سے صحافیوں کے وفد کے ساتھ تاریخی شہر اصفہان جاتے ہوئے بس میں جو خاتون میرے ساتھ بطور مترجم بیٹھی تھی اس کے حسن کو حجاب کے باوجود دیکھتے ہوئے میں بوکھلا گیا تھا۔ گھبراہٹ میں اس کا نام پوچھا تو اس نے ’’فتنہ‘‘ بتایا۔ میں سمجھا کہ شاید مذاق کررہی ہے۔اس کا نام مگر واقعتا فتنہ تھا۔ایرانی مگر اسے ’’فتنے‘‘ کہتے ہیں۔جیسے ’’فرشتہ‘‘ نامی خاتون کو ’’فرشتے‘‘ پکارتے ہیں۔ میں نے معصوم بنتے ہوئے اس سے ’’فتنہ‘‘ کے معنی پوچھے تو اس نے بتایا کہ ’’حیران وپریشان کردینے والا حسن‘‘۔ یہ معنی جان کر میں نے ترنت اس سے ’’اسم بامسمی‘‘ کا ذکرکرتے ہوئے شکر گزار مسکراہٹ وصول کرلی۔
’’فتنہ‘‘ کے جو معنی اس ایرانی خاتون نے بتائے وہ مجھے اُردو کا ایک شعر یاد دلانے کا باعث بھی ہوئے۔ ’’فتنہ تو سورہا ہے‘‘ اس کا پہلا مصرعہ تھا۔دوسرا مصرعہ ٹھیک سے یاد نہیں۔اس کے بعد مگر ’’درِ فتنہ‘‘ کا ذکر آتا ہے جو شاعر کو مضطرب کئے ہوئے ہے۔ ’’فتنہ‘‘‘ ہی سے یاد آیا کہ میرے ایک عزیز ترین دوست ہیں۔ وطنِ عزیز کے نامور صحافی ہیں۔ہم انہیں کالج کے زمانے سے ’’فتنہ‘‘ پکارتے ہیں۔میرے بھائی کا ’’فتنہ‘‘ مگر ’’انقلابی‘‘ ہوا کرتاتھا۔ ایوب خان کے آخری دنوں میں ایوب خان کے خلاف طلباء کی جانب سے چلائی تحریک جس کے دوران میرے ’’فتنہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے بھائی پولیس کو لاٹھی چارج اور بعدازاں آنسو گیس کے استعمال کے ذریعے اپنی ’’تخریب کاری‘‘ سے مجبور کردیا کرتے تھے۔
دو روز سے ولیم کی ’’انارکی‘‘ پڑھتے ہوئے آج صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھنے بیٹھا تو ’’تازہ ترین‘‘ جاننے کیلئے فون پر سوشل میڈیا پر نظر ڈالنا ضروری تھا۔ میرے ٹویٹر اکائونٹ پر ایک گرماگرم بحث جاری تھی۔طلبہ کے مابین Solidarityکے نام سے ایک تحریک اُبھری ہے۔ہفتے کے روز اس نے پاکستان کے متعدد شہروں میں ’’لال لال‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ریلیوں کا اہتمام کیا۔ ’’سرفروشی کی تمنا‘‘ کا اظہار ہوا۔ایشیاء کو ’’سرخ‘‘ بنانے کے عہد بھی۔
لاہور میں 1960کی دہائی کے افتتاحی سالوں میں ابھی سکول ہی کا طالب تھا مگر ایوب خان کے خلاف نکالے جلوسوں میں شامل ہوکر خود بھی ایسے ہی نعرے لگایا کرتا تھا۔ پولیس کی لاٹھیوں کی وجہ سے کئی بار اُبلتے پانی میں آٹے کاچھان ڈال کر میری ماں جسم پر ابھری سوجن کو مٹانے کی کوشش میں مبتلارہتی تھی۔میری نسل اگرچہ ایشیاء کو ’’سرخ‘‘ کرنے میں قطعاََ ناکام ہوگئی۔ 1971کے دسمبر میں ہوئے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کالج پہنچا تو چند ہی ماہ بعد ’’ایک بہادر آدمی‘‘ یعنی جاوید ہاشمی کے نعرے بلند ہونا شروع ہوگئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور ہی میں اپنے تئیں ایشیاء کو ’’سبز‘‘ بناڈالا تھا۔اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سال آئے جس کے دوران ہم بحیثیتِ قوم افغانستان کو ’’جہاد‘‘ کے ذریعے آزاد کروانے میں مصروف نظر آئے۔ سی آئی اے کی بھرپور معاونت اور اس کی جانب سے فراہم کردہ ’’سٹنگر‘‘ میزائل کی بدولت برپا ہوئے اس جہاد کے نتیجے میں بالآخر سوویت یونین پاش پاش ہوگیا۔روس تک سکڑگیا۔
سوشل میڈیا پر چھائے کئی محب وطن دانشور مگر حال ہی میں نمودار ہوئے ’’لال لال‘‘ کا ورد کرتے نوجوانوں سے بہت ناراض نظر آرہے ہیں۔ان میں سے چند افراد تو یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ ’’لال لال‘‘ والی یہ تحریک درحقیقت سی آئی اے نے شروع کروائی ہے۔مقصداس کا پاکستان میں خلفشار کو ہوا دینا ہے۔مبینہ ’’خلفشار‘‘ کا ماڈل ہانگ کانگ میں کئی ماہ سے جاری تحریک سے جوڑا جارہا ہے جس نے ہمارے یار چین کو پریشان کررکھا ہے۔
’’لال لال‘‘ والوں کو طعنے یہ بھی دئیے جارہے ہیں کہ 1960اور 1970کے عشروں میں ’’ایشیاء سرخ ہے‘‘ کے نعرے بلند کرنے والے سوویت یونین کی ذلت آمیز تحلیل کے بعد ’’’یتیم‘‘ ہوئے گئے۔ ان میں سے کئی ایک نے بالآخر امریکی اور برطانوی سامراج کی متارف کرہ NGOsمیں پناہ ڈھونڈی۔یہ NGOsپاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے اور اس کا ’’اسلامی تشخص‘‘ تباہ کرنے کے لئے اب ’’لال لال‘‘ والوں کو استعمال کررہی ہیں۔اپنے پیشرو ’’سرخوں‘‘ کی طرح ’’لال لال‘‘ والے بھی لیکن جلد ہی ذلت ورسوائی سے دوچار ہوں گے۔
’’لال لال‘‘ والوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو رونق لگی ہوئی ہے میں اس سے لطف اندوز ہونے کے بھی قابل نہیں رہا۔ عرصہ ہوا ’’گوشے میں قفس کے‘‘ محدود ہوا بے اعتنائی والی ’’دہی‘‘ کھارہا ہوں۔مقامی اور عالمی اخبارات کو بہت غور سے پڑھنے کی وجہ سے مگر یہ التجا کرنے کو مجبور ہوں کہ آج کے ’’لال لال‘‘ والوں کو فقط ہانگ کانگ میں جاری تحریک سے نہ جوڑا جائے۔دنیا کے کئی ممالک میں ان دنوں خودروتحاریک ابھررہی ہیں۔فرانس میں کئی ماہ قبل ’’پیلی جیکٹوں‘‘ والی تحریک متعارف ہوئی۔ابھی تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کرپائی مگر جاری ہے۔لبنان میں نوجوان کئی ہفتوں سے سڑکوں پر ہیں۔چلی میں خوفناک مظاہرے ہوئے۔عراق کے بغداد،بصرہ اور نجف جیسے شہروں میں بھی خونریز ہنگامے جاری ہیں۔
ان سب ہنگاموں کا اصل سبب بے تحاشہ مہنگائی ہے جو متوسط طبقے کو تیزی سے خطِ غربت کی طرف دھکیل رہی ہے۔پڑھے لکھے نوجوان روزگار کے امکانات سے محروم ہوکر امید کھوبیٹھے ہیں۔ ’’یہ جینا بھی کیا جینا ہے؟‘‘ والا سوال دنیا کے کئی ممالک کو ہیجان میں مبتلا کرچکا ہے۔ایسے میں ہمارے ہاں ’’لال لال‘‘ والے نمودار ہوگئے ہیں تو انہیں عالمی تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کریں ۔ سی آئی اے کو اس کی اوقات سے زیادہ کریڈٹ نہ دیں۔