کیمبرج کے اے، او لیول نتائج ’دوبارہ جاری ہوں گے‘، پرائیویٹ طلبا کے لیے کوئی ریلیف نہیں
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے منعقد کیے گئے کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن (سی اے آئی ای) امتحانات کے گذشتہ ہفتے جاری کیے گئے نتائج پر سخت تنقید کے بعد ادارے نے گذشتہ روز اپنے اعلامیے میں اپنے جاری کردہ نتائج واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔
ادارے کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق جون 2020 سیریز کے نتائج طلبا کے سکولوں کی جانب سے بھیجے گئے نتائج سے کم نہیں ہوں گے۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث کیمبرج کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار امتحانات نہیں ہو سکے تھے۔
کیمبرج نے سکولوں اور کالجوں سے طلبا کے اکیڈمک شواہد جیسا کہ فرضی امتحانات، مکمل یا نامکمل کورس ورک اور اسائنمنٹس وغیرہ کی بنیاد پر نتائج تیار کرنے کا کہا تھا۔ جبکہ اساتذہ سے طلبا کی رینکنگ بھی طلب کی گئی تھی۔
ادارے کا مزید کہنا تھا کہ ان کی جانب سے جاری کیے گئے نتیجے میں جس طلبا کا رزلٹ بہتر گریڈ کا تھا، اس بھی کم نہیں کیا جائے گا اور وہ جلد از جلد اسے جمع کر کے اس کا اعلان کریں گے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر شفقت محمود نے بھی اسی حوالے سے اپنی ٹویٹ میں پاکستانی طلبہ کو خوش خبری سنائی کہ سکولوں کی جانب سے گیے گئے نتائج ہی حتمی تسلیم کیے جائیں گے اور ان کے بہتر گریڈ آئے ہیں انھیں کم نہیں کیا جائے گا۔
برطانیہ میں اسی حوالے سے طلبہ اور ان کے والدین میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا جس کے بعد اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہاں پر اے اور او لیول کے طلبہ کے نتائج ان کے اساتذہ کی جانب سے دیے جائیں گے اور اس کے لیے الگورتھم کا استعمال نہیں ہوگا۔
برطانوی سیکریٹری تعلیم گیون ولیمسن نے ان نتائج کی وجہ سے ہونے والی پریشانی پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ سکولوں کی جانب سے لیے گئے فرضی امتحانات کے نتائج اب اپیل کرنے کے طریقہ کار کا حصہ نہیں ہوں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ طلبہ اور والدین نتائج کے پورے نظام میں موجود ‘بے ربطیوں’ سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ گیون ولیمسن نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ یہ سال طلبہ کے لیے بالخصوص طور پر دشوار رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ‘میں بہت معذرت خواہ ہوں جو پریشانی طلبہ اور ان کے والدین کو اٹھانی پڑی لیکن میں امید کرتا ہوں کہ اب اس اعلان کے بعد انھیں بھروسہ ہوگا اور کچھ سکون ملے گا۔’
طلبا کا ردعمل
سوشل میڈیا پر موجود طلبا نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور وہ حکومت، میڈیا اور کیمرج کا شکریہ ادا کرتے نظر آئے۔
حماد مغل کہتے ہیں کہ انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ انتظامیہ سرگرم عمل ہے اور ہمارا ساتھ دے رہی ہے اور وہ جانتے تھے کہ معاملہ کتنا سنگین ہے۔
کئی صارفین شفقت محمود پر تنقید کرتے یہ کہتے نظر آئے کہ ’آپ کو کیمبرج سکول کے بچوں کے گریڈز کی کتنی فکر ہے جبکہ آپ کو یہ نہیں پتا کہ سرکاری سکولوں کے کتنے فیصد بچوں کو ابھی تک کتابیں ہی نہیں ملیں۔‘
طاہر نامی صارف کا کہنا تھا ’اے لیولز والے امیر اور مشہور طلبا کے لیے آپ کے فوری ردِعمل کی تعریف کرتے ہیں لیکن آپ کی پالیسیوں کا شکار گیارہویں اور بارہویں کے غریب طلبا کا کیا جن کے امتحانات میں کم نمبر آئے۔ برائے مہربانی براہ کرم ان غریبوں کو بھی سنیں۔‘
ہاشمی نامی صارف کا کہنا تھا ’جتنی فکر آپ کو کیمبرج والوں کی ہے اس سے آدھی بھی اگر گورنمنٹ سکولوں کے لیے دکھائی ہوتی تو آج وہ بھی کسی مقام پر کھڑے ہوتے۔‘
اس موقع پر کئی طلبا شفقت محمود سے شکایت کرتے بھی دکھائی دیے کہ ’کیمبرج کے پرائیوٹ سٹوڈنٹس کے لیے بھی کچھ کر لیتے۔۔۔ بچوں کا سال ضائع کرا دیا۔‘
وہ پوچھتے نظر آئے کہ ’پرائیویٹ سٹوڈنٹس کا کیا قصور ہے، ان کو پروموٹ کیوں نہیں کیا جا رہا؟ کمبائن دینے والے نا ادھر کے ہیں نا ادھر کے۔ ان کا بھی کچھ سوچ لیں۔‘