اقتدار کے کھیل میں چانکیہ اور میکاولی کے کرتب
جذبہ اگر سچا ہو اور اس کے اظہار کے لئے آپ ہر نوعیت کی قربانی کے لئے تیار ہوجائیں تو نریندر مودی جیسا فرعون صفت انسان بھی جھکنے کو مجبور ہوجاتا ہے۔2002میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے ہندوانتہا پسندوں کے ہیرو بنے مودی نے چند ہی روز قبل جھاڑ کھنڈ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا تھا۔بھارتی شہریت کے بارے میں بنائے نئے قوانین کی وجہ سے پھوٹے ہنگاموں کو اس نے آمرانہ رعونت کے ساتھ ’’مسلم انتہاپسندی‘‘ کے ساتھ جوڑنا چاہا۔طنزیہ انداز میں ’’فسادیوں‘‘ کے لباس کا ذکر کیا۔
اتوار کے سہ پہر دلی میں ایک اور انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مگر وہ بارہا اپنے ملک میں آباد مسلمانوں کو ’’بھارتی‘‘ تسلیم کرنے کو مجبور ہوا۔ مسلمانوں سے اپنی ’’محبت‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس نے بہت فخر سے حاضرین کو یاد یہ بھی دلایا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسے اعلیٰ ترین اعزازات سے نواز رکھا ہے۔قطر اس کا دل جیتنے کو بے چین ہے۔ایران کے ساتھ بھارت کے رشتے ’’تاریخی‘ ‘ ہیں۔
دلی کا ذکر کرتے ہوئے وہ اس امر پر بھی اصرار کرتا رہا کہ مودی سرکار نے اس قدیمی شہر کی ’’غیر قانونی بستیوں‘‘ کے باسیوں کو مالکانہ حقوق دئیے ہیں۔یہ حقوق دیتے ہوئے ان بستیوں کے باسیوں سے ان کا مذہب نہیں پوچھا گیا۔40لاکھ رہائشیوں نے اس سہولت کا فائدہ اٹھایا ہے۔اس کی حکومت کو ’’مسلم دشمن‘‘ قرار دینا لہذا زیادتی ہوگی۔
’’گجرات‘‘ کا قصائی ’’کے طورپر مشہور ہوئے نریندر مودی کی اتوار والی تقریر کو میں نے انٹرنیٹ کی بدولت تین بار سنا۔یہ سنتے ہوئے میرے اداس دل میں جامعہ ملیہ کے ان بچوں اور بچیوں کے لئے بے تحاشہ دُعائیں اٹھیں جنہیں چند ہی روز قبل وحشیانہ پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔جامعہ ملیہ کو ’’دشمن کا علاقہ‘‘ تصور کرتے ہوئے وہاں موجود طالب علموں کو جنگی قیدیوں کی طرح ہاتھ اٹھا کر پولیس کے سامنے سرنڈر ہونے کو مجبور کیا گیا تھا۔
صحافتی زبان میں عموماََکہا جاتا ہے کہ بسااوقات ایک تصویر ہزاروں الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔جامعہ ملیہ میں غالبؔ کا مجسمہ بھی نصب ہے۔طالب علم اس مجسمے کے قریب احتجاج کے لئے جمع ہورہے تھے تو پولیس نے دھاوابول کر ایک نوجوان کو زمین پر پٹخنے کے بعد لاٹھیوں سے اس کا قیمہ بنانا چاہا۔دوبچیاں اس نوجوان کے تحفظ کی خاطر اس کے اوپر لیٹ گئیں۔ پولیس نے خجالت میں نوجوان کو ’’بخشنے‘‘سے قبل ان پر بھی لاٹھیاں برسائیں۔یہ واقعہ گزرنے کے چند گھنٹے بعد دھان پان نظر آتی ان دو بچیوں نے جن میں سے ایک نے اپنے سر کو حجاب سے ڈھانپ رکھا تھا بے پناہ اعتماد اور نرم زبان میں ٹی وی کیمروں کے سامنے دُنیا کو واضح الفاظ میں متنبہ کیا کہ جامعہ ملیہ کے طلبہ ہی نہیں پورے بھارت کے مسلمان نوجوان اپنے ’’آئینی حقوق‘‘ کے حصول کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
مودی سرکار کی شدید خواہش تھی کہ شہریت والے قانون کی مذمت کرنے والے نوجوان ’’اسلامی نعرے‘‘ لگاتے ہوئے توڑپھوڑ میں مصروف نظر آئیں۔ان کے ہجوم میں ’’سبز پرچم‘‘ لہرائے جائیں۔18سے 22سال کی بریکٹ تک محدود بچے اور بچیاں مگر صوفیوں والی استقامت کے ساتھ پرامن رہے۔فیض احمد فیضؔ کا ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ گنگناتے رہے۔مختلف وقفوں سے وہ بھارتی آئین کے دیباچے کو بآواز بلند پڑھتے ہوئے اس پر کامل عملدرآمد کو یقینی بنانے کا عہد کرتے۔ان کی استقامت نے بے تحاشہ دل موم کردئیے۔’’ہندومسلم‘‘ کی تخصیص اجاگر نہ ہوپائی۔طلبہ کی تحریک ٹھوس انداز میں آئینی حقوق کے حصول کے لئے پرامن جدوجہد کا بھرپور اظہار نظر آئی۔مودی سرکار نام نہاد عالمی ضمیر کے روبرو اسے ’’داعش‘‘ نہ بناپائی۔
طلبہ تحریک کو اشتعال دلانے کے لئے ہندوانتہاپسندوں نے جتھوں کی صورت یوپی کے کئی شہروں میں مسلمان محلوں پر حملے شروع کردئیے۔اس صوبے کا ’’یوگی‘‘ وزیر اعلیٰ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے بجائے ’’فسادیوں‘‘(مسلمانوں) کی جائیداد کو بحقِ سرکار ضبط کرتا رہا۔25ہلاکتوں کو سرکاری طورپر تسلیم کیا گیا ہے۔دلی،راجستھان اور یوپی کے کئی شہروں میں موبائل فونز اور انٹرنیٹ بند کردیئے گئے۔طلبہ مگر متحد وپرامن رہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی وڈیوز کی بدولت دنیاکو بلکہ علم یہ بھی ہوا کہ بھارت کی مسلمان بچیاں برقعے میں دبک کر نہیں رہتیں۔جینز پہنے ہوئے بھی ’’الحمداللہ‘‘ کہتی ہیں۔اپنی استقامت کو توانا رکھنے کے لئے ’’انشاء اللہ‘‘ سے گفتگو کا آغاز کرتی ہیں۔پولیس کے نرغے میں آئے نوجوان کے لئے انسانی ڈھال بنتی ہیں۔اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خالصتاََ برجستہ لہجے میں سادہ زبان استعمال کرتے ہوئے وہ ’’جدید‘‘ ریاست کا تدکرہ کرتی رہیں۔ وہ ریاست جس کے شہری ہوتے ہیں جن کے حقوق مساوی ہونے کی ضمانت دی جاتی ہے۔
امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں ان دنوں فسطائی نسل پرستی Tribalismکی صورت اختیار کرچکی ہے۔’’مہذب‘‘ ہونے کے دعوے دار ان ممالک میں برطانیہ کے حال ہی میں بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہونے والے بورس جانسن جیسے ہزاروں لوگ ہیں جو مسلمان عورتوں کو ’’لیٹربکس‘‘ یعنی برقعے میں بند ’’نیم انسان‘‘ پکارتے ہیں۔جامعہ ملیہ کی بچیوں نے اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لئے برپا جدوجہد کے دوران اپنائے رویے کے ذریعے ایسے ’’مہذب‘‘ نسل پرستوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔
جامعہ ملیہ کے طلبہ اور خاص طورپر وہاں کی بچیوں کی لگن اور استقامت کو سراہتے ہوئے انتہائی دُکھ سے ہمیں یاد یہ بھی رکھنا ہوگا کہ دلی کی تاریخی جامعہ مسجد کے امام سمیت بھارتی مسلمانوں کی نام نہاد ’’مذہبی قیادت‘‘ نے شہریت کے ضمن میں بنائے قوانین کے خلاف مزاحمت کو ’’فساد‘‘ ٹھہرایا۔دیوبند والوں کی مجبوریاں تو سمجھ میں آتی ہیں۔دوسرے مسالک کے ’’علمائ‘‘ نے لیکن مودی سرکار کی غلامی میں ان سے بھی بازی لینے کی کوشش کی۔سرکاری سرپرستی کے خواہاں’’علمائ‘‘ کی فتوے بازی مگر کام نہیں آئی۔اپنے طویل سیاسی کیرئیر میں پہلی بارRSSکے پرچارک سے بھارتی وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے نریندرمودی کو مسلمانوں کے حوالے سے مدافعانہ طرز عمل اختیار کرناپڑا۔
ایک شاطر سیاست دان ہوتے ہوئے کمال مکاری سے نریندرمودی نے آسام کے حوالے سے بنائے قوانین کو بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے صادر ہوئے احکامات کی تعمیل ظاہر کرنے کی کوشش کی۔بھارتی شہریت کے حوالے سے پارلیمان میں نئے قوانین کو اس کے چہیتے وزیر داخلہ نے متعارف کروادیا۔یہ وزیر داخلہ ان دنوں BJPکا سربراہ بھی ہے۔نام اس کا امیت شا ہے۔بھارتی سیاست پر نگاہ رکھنے والوں کا اصرار ہے کہ وہ مودی سرکار کو RSSکے طے شدہ ایجنڈا کی تکمیل میں مصروف رکھتا ہے۔بالآخر ایک دن مودی کی جگہ بھارت کا وزیر اعظم بھی ہوسکتا ہے۔
مودی نے منافقانہ مہارت سے اتوار کے روز ہوئی تقریر کے ذریعے خود کو امیت شا کی جانب سے لئے اقدامات اور بنگلہ دیش کے بارے میں ادا ہوئے تضحیک آمیز کلمات سے الگ دکھانے کی کوشش کی۔امیت شا کے ’’نظریاتی‘‘ کٹرپن سے مودی کی جانب سے Distanceدکھانے کی یہ کوشش اس حقیقت کا اثبات ہے کہ اقتدار کے کھیل میں چانکیہ اور میکیاولی کے بیان کردہ کرتب ہی کام آتے ہیں۔بادشاہ (King)کا کوئی رشتے دار یا سگا(Kin)نہیں ہوتا۔اقتدار بچانے کی خاطر انتہائی طاقت ور تسلیم ہوتے قریب ترین مصاحبین اورمشیروں کو ٹھکرادینا بھی ضروری ہوجاتاہے۔
مودی نے اتوا ر کے روز جو ’’لچک‘‘ دکھلائی ہے میری دانست میں لیکن وہ عارضی ہے۔Damage Controlکی کاوش ہے۔ذہن پر سوار بہار کے متوقع صوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی ہیں۔پاکستان کو اتوار کے روزہوئی تقریر کے دوران بھی بھلایا نہیں گیا ہے۔جھرنوں کے صاف پانی والے دلوں کے مالک بچوں اور بچیوں کو بلکہ یہ بتانے کی کوشش بھی ہوئی کہ وہ ’’پاکستان کی جانب سے پھیلائی تخریب کاری‘‘ پر بھی نگاہ رکھیں۔ میرا اصرار ہے کہ مودی نے اپنے تئیں دریافت کیا ہے کہ ہندوتوا اس کے کام نہیں آرہا۔’’بھارتی قوم پرستی‘‘ کی جگاڑ لگانے کے لئے اسے پاکستان کے خلاف جنگی ماحول بنانا ہوگا۔جامعہ ملیہ کے بچوں اور بچیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بھی ہم پاکستانیوں کو چوکنا رہنا ہوگا۔