منتخب تحریریں

پگڈنڈی شاہراہ نہیں ہوتی

Share

ابوالکلام آزاد کے نیک ذکر سے بات شروع کرتے ہیں۔قصے کا اختتام تو بہرصورت لدھیانہ کے لندن پلٹ سردار جی کی واردات ہی پر ہو گا جس کی تفصیل پنجابی احباب خوب جانتے ہیں اور اگر کچھ تسمہ لگا رہ گیا تھا، وہ حالیہ سیاست میں آڈیو ویڈیو ٹکڑوں کی بدولت ایک پوری نسل کے رگ و پے میں اتر گیا۔ معلوم ہوا کہ قومی مہربان پون صدی سے قوم کے ساتھ جو کوکا پنتھی فرما رہے تھے، آج کا اسپ تازی ان تجریدی اشاروں کی عملی تشریح پر عبور رکھتاہے۔ حفیظ جالندھری کیا برجستہ یاد آئے،’’فرشتے کو نہ میں شیطان سمجھا / نتیجہ یہ کہ بہکایا گیا ہوں‘‘۔ چھوڑیئے صاحب، راز ہائے حرم سرا کی نیم تاریک کہانیوں میں کیا رکھا ہے۔ مولانا آزاد کا ذکر خیر بدرجہا بہتر ہے۔

مولانا آزاد 1906ء سے 1908ء تک وقفے وقفے سے امرتسر کے اخبار ’وکیل‘ سے وابستہ رہے۔ قبلہ کے والد گرامی مولوی خیر الدین کلکتہ میں قیام پذیر تھے۔ بزرگوں کو جوان اولاد سے چھوٹی چھوٹی فرمائشوں کی عادت ہوتی ہے۔ غالباً نفسیاتی طور پر انس اور تفاخر کے دھارے کارفرما ہوتے ہیں۔ خط لکھا کہ ’پنجاب میں جنتریاں اچھی شائع ہوتی ہیں۔ بازار میں جتنی مل سکیں، سب بھیج دو۔‘ مولانا نے تعمیل کی۔ اس پلندے میں گردھاری لال کی جنتری بھی شامل تھی۔ نیاز مند کو اس لئے یاد رہ گئی کہ بچپن والے گھر کے چوبی صندوق میں اس کا ایک گرد آلود نسخہ دیکھ رکھا ہے۔ ان دنوں ایک اور برس ختم ہونےپر آ رہا ہے، رائیگانی کی تقویم میں ایک باب ایزاد ہوا۔ کیسا برس تھا کہ ایک ’تعیناتی‘ کے گرداب میں غرقاب ہو گیا۔ ’تعیناتی‘ تو خیر ’حکم حاکم‘ تھا، محضر پر ثبت ہو گیا۔ ملال یہ رہا کہ راستہ ’متعین‘ نہیں ہو پایا۔ 12 برس قبل پروجیکٹ عمران کے عنوان سے شروع ہونے والا تجربہ ناقص تعمیراتی نقشے، سمت نما کی عدم موجودگی اور بھاڑے کے کارندوں کی ناتجربہ کاری کے باعث ڈوب رہا ہے۔ گزشتہ بیس برس میں دنیا بھر میں انتہائی غربت میں رہنے والے افراد کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ معجزہ قبل ازیں وقوع پذیر نہیں ہوا۔ دنیا بھر میں انسانوں کا معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے تین بڑے ممالک چین، بھارت اور برازیل میں انسانی ترقی کی رفتار حیران کن ہے۔ برادرم احمر رحمن نے گزشتہ دنوں اپنے والد گرامی آئی اے رحمن پر ایک خوبصورت دستاویزی فلم بنائی ہے جس میں رحمن صاحب کا ایک جملہ بہت امید افزا رہا۔ فرمایا ’آج کی دنیا گزری ہوئی دنیا سے بہت بہتر ہے لیکن ابھی کرنے کا بہت کام پڑا ہے‘۔ اس جملے کی امید میں مگر وطن عزیز کا حصہ ہرگز اطمینان بخش نہیں۔

ہم نے آزادی کی سات دہائیوں کو بازیچہ اطفال کے سات رنگ بخشے ہیں۔ پہلے دس برس میں دستور نہیں بن سکا۔ اس لئے کہ ملک کی 56 فیصد آبادی یعنی مشرقی بنگال اپنے جمہوری حقوق مانگتی تھی اور اقتدار کے سرچشمے یعنی مغربی حصے میں ریاستی اہلکار کسی جمہوری سمجھوتے پر آمادہ ہی نہیں تھے۔ اس ملک کی بنیاد میں متروکہ املاک اور طالع آزمائی کا چونا لگا دیا گیا۔ ہمارا نسخہ تو یہ تھا کہ کسی طرح سیٹو اور سینٹو میں گھس کر ڈالروں کے نام پر ٹپکے کے آم جمع کئے جائیں۔ اسی کشمکش میں لیاقت علی شہید ہوئے اور سات حکومتیں مرگ مفاجات کا شکا ر ہوئیں۔ 1958ء میں ہم نے بنیادی جمہوریت کا تصور دریافت کیا۔ مشرقی پاکستان کی کالونی سے چاول اور پٹ سن کی برآمدات کا ہْن برس رہا تھا۔جان فاسٹر ڈلس نے ہمیں سمجھایا کہ گندم اور اسلحے کے محتاج تم لوگوں کو ترقی کی ضرورت نہیں۔ تمہارا کام سیکورٹی کے نام پر اسلحہ خانہ بننا ہے۔ بنیادی جمہوریت نے جمہوریت اور صوبائی حقوق کا نام لینے والوں کی فصل اجاڑ دی۔ ترقی کے نام پر مٹھی بھر خاندانوں کا اجارہ فرو غ پاتا رہا۔ خود کاشتہ صدارتی دستور ملک دولخت کرنے کا نسخہ تھا۔ ترقی کا یہ نام نہاد عشرہ ایک نئے تجربے پر منتج ہوا۔ یحییٰ خان اور ان کے نظریاتی مرشد شیر علی خان نے جمہوری قوتوں کو بے دست و پا کرنے کے لئے قوم میں اسلام پسند سیاست کا پودا لگا دیا۔ 16دسمبر 1971 ء کو بے جڑ کا یہ پودا رمنا ریس کورس کے میدان میں اکھڑ گیا۔ 70ء میں جمہوری تجربے کے نام پر سازشوں کے جس لامتناہی سلسلے کی نقاب کشائی کی گئی وہ بالآخر 5 جولائی 77ء کو ایک اور عشرہ زیاں تک پہنچا۔ ضیا آمریت کے دو بنیادی نکات تھے۔ داخلی طور پر اسلامائزیشن کے نام پر کشت وطن میں ہل چلانا اور خارجی محاذ پر افغان جہاد کی مدد سے ڈالر سمیٹنا۔ ان دو متجانس نکات سے قوم کے تشخص میں جو بگاڑ آیا وہ ابھی ختم نہیں ہوا۔

1988ء میں دور فاصلاتی نیم جمہوری تجربے کی بنیاد رکھی گئی۔ سرد جنگ ختم ہو رہی تھی اور عالمی سیاست اور معیشت ایک نئے عہد میں داخل ہو رہی تھیں۔ ہمیں مگر جہا د کا لپکا تھا اور ہم اپنے عقب میں تزویراتی گہرائی ڈھونڈ رہے تھے۔ سیاست کی بساط پر رکھے چوبی مہروں کی حسب منشا نقل و حرکت سے حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔ 12اکتوبر 99 ء کو ہمیں روشن خیال آمریت بخشی گئی۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے بارے میں وہ دو رخی پالیسی اپنائی گئی جس کی ناکامی نوشتہ دیوار تھی۔ جمہوری قوتوں کا میثاق جمہوریت ایک جرم قرار پایا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم ناقابل قبول ٹھہری جس کے بطن سے پروجیکٹ عمران نے جنم لیا۔ آج ’عمران پروجیکٹ‘ کی ٹھیکریاں کوچہ و بازار میں بکھری ہیں۔ سیاسی عمل بے یقینی کے عہد عبور میں ہے۔ معیشت اوبھی اوبھی سانسیں لے رہی ہے۔ بتایا گیا کہ اب ’ادارہ‘ سیاست سے لاتعلق ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ادارے کے فیصلے اور انفرادی عزائم میں مطابقت پر گہرے سوال ہیں۔ دستور کی شاہراہ موجود ہے مگر پگڈنڈیوں سے شیفتگی کا شوق بدستور فراواں ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر دس برس بعد ’غداران وطن کا معتوب نقطہ نظر‘ ہی درست ثابت ہوتا ہے۔ سات عشروں کی کج روی سے ایک سادہ سبق ملتا ہے کہ پگڈنڈی شاہراہ کا نعم البدل نہیں ہوتی۔