جب تک سانس‘ تب تک آس
الحمد للہ نیا سال آ چکا ہے۔ اس کی اطلاع دوستوں کی طرف سے نئے سال کی مبارک اور حکومت کی جانب سے پٹرول و ڈیزل وغیرہ کی قیمت میں اضافے کے ساتھ موصول ہوئی۔ خیر سے دسمبر گزر گیا ہے اور دسمبر کے گزرتے ہی—– اس جملے نے کالم کا تسلسل توڑ دیا ہے۔ یہ ”دسمبر کے گزرتے ہی‘‘ مجھے کالم سے نکال کر عرشؔ صدیقی مرحوم کی نظم تک لے گیا ہے۔ پہلے نظم ہو جائے‘ پھر کالم۔
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی
گپھا میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا‘ ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کے کہرے دیواروں میں لرزاں ہیں
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
اب آپ خود بتائیں ‘دسمبر میں مولانا فضل الرحمن کا ذکر کرنے سے پیشتر اس نظم کا لکھنا اور پڑھنا کتنا ضروری تھا؟
بات ہو رہی تھی ”دسمبر کے گزرتے ہی‘‘ ۔
تو دسمبر کے گزرتے ہی مولانا فضل الرحمن کی جانب سے حکومت کے خاتمے کی‘ عمران خان کے استعفے کی اور اسی قبیل کے دوسرے دعوئوں کی حتمی ڈیڈ لائن سرکاری طورپر گزر گئی ہے۔ حکومت موجود ہے‘ عمران خان وزیراعظم ہیں اور پی ٹی آئی دندنا رہی ہے۔
بقول شاہ جی‘ مولانا کچی گولیاں نہیں کھیلے اور عام طور پر ایسی بات یا دعویٰ نہیں کرتے جب تک پُریقین نہ ہوں اور ان کے اس تیقن اور اعتماد نے میرے اندازوں کو ڈانواںڈول کر رکھا تھا۔ اس لیے میں دسمبر کے آخری دنوں میں بھی یہ یقین کرتے ہوئے کہ اب‘ حکومت یا عمران خان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں‘ کسی قسم کا کوئی خطرہ مول لینے پر تیار نہ تھا ۔ اور دسمبر پورے کا پورا گزرنے تک یعنی اکتیس دسمبر کے یکم جنوری میں تبدیل ہو جانے تک کوئی بات کرنے کا رسک لینے پر تیار نہ تھا کہ اس لیے خاموش تھا۔ اب‘ اکتیس دسمبر کو گزرے کئی گھنٹے ہو گئے ہیں‘ اس لیے مولانا سے سوال کرنے کی جرأت کر رہا ہوں کہ وہ دسمبر میں حکومت گرنے کا دعویٰ کیا ہوا؟ اور دسمبر میں عمران خان کے استعفے کا کیا بنا؟ چوہدری بھکن نے تو خیر سے اسی دن ہی کہہ دیا کہ مولانا صرف اور صرف ”کانفیڈنس کی مار‘‘ مار رہے ہیں‘ وگرنہ حکومت کی روانگی اور عمران خان کے استعفے کا زیرو پرسنٹ بھی امکان نہیں ہے۔
چوہدری بھکن نے ایسی صورتحال کے بارے میں ایک پنجابی محاورہ بھی بولا تھا‘ مگر کیوں کہ وہ ناقابل ِاشاعت ہے‘ اس لیے اس کا سلیس ترجمہ حاضر ہے کہ مولانا ایسے ہی ہوائی ”دبکا‘‘ مار رہے تھے۔ اس پنجابی لفظ ”دبکے‘‘ کا یک لفظی ترجمہ کم از کم اس عاجز کے بس سے تو باہر ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ‘ ڈراوا دینا یااس قسم کے الفاظ اس کے مفہوم کا کسی طور نہ احاطہ کرتے ہیں‘ اور نہ ہی متبادل ہیں۔ بہر حال‘ ایک بات تو طے ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا اعتماد‘ یقین اور دعوے بازی تو ایسی تو تھی کہ بڑے بڑوں کا ”تراہ‘‘ نکال کر رکھ دیا تھا۔
قارئین! معاف کیجیے‘ مجھے اس ”تراہ‘‘ کا بھی کوئی مناسب متبادل نہیں مل رہا تھا۔ یوں سمجھیں کہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے کانفیڈنس کے زور پر بہت سے لوگوں کی ہوا ڈھیلی کر دی تھی اور پرانے پرانے تجزیہ کار یہ بات سوچنے اور کہنے پر مجبور تھے کہ مولانا فضل الرحمن نہ تو کچی گولیاں کھیلے ہیں اور نہ ہی کبھی ایسا رسک لیتے ہیں‘ جس میں نقصان کے دس فیصد امکانات بھی ہوں۔ وہ بہت ہی سیف گیم کھیلنے کے عادی ہیں اور زندگی بھر منافع کے علاوہ‘ انہوں نے کبھی نقصان کا منہ نہیں دیکھا۔ بقول چوہدری بھکن‘ مولانا فضل الرحمن ایک سو فیصد ”میمن سیاستدان‘‘ ہیں۔ سیاست کے کاروبار میں وہ نقصان کر ہی نہیں سکتے۔
اردو کا ایک محاورہ ہے ”جب تک سانس‘ تب تک آس‘‘۔ سو‘ فریقین‘ یعنی مولانا فضل الرحمن کے مقلدین اور مخالفین اکتیس دسمبر تک کسی نتیجے کے منتظر تھے۔ ان کے مقلدین ‘مع عمران مخالفین کے‘ آخری لمحے تک مولانا فضل الرحمن کے دعوے کی سچائی کے منتظر تھے اور سال ِنو کے موقعہ پر اکتیس دسمبر رات بارہ بجے خوشی کے شادیانے بجانے اور شرلیاں پٹاخے چھوڑنے کے منتظر تھے‘ جبکہ مولانا کے ناقدین اور عمران خان کے حامی ان کے دعوے‘ یقین اور اعتماد کو اپنی موت آپ مرتے دیکھنے کے انتظار میں تھے۔ سو‘ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور اکتیس دسمبر کے گزرتے ہی مولانا کی دی گئی ”ڈیڈ لائن‘‘ ڈیڈ ہو گئی۔
ایمانداری کی بات ہے یہ عاجز تو محض تماشائی تھا۔ نہ عمران خان کے ساتھ اور نہ فضل الرحمن کے ساتھ۔ ایک غیر جانبدار تماشائی کی مانند اکتیس دسمبر تک منتظر تھا کہ کیا ہوتا ہے؟ عمران خان استعفیٰ دیتے ہیں یا مولانا فضل الرحمن ناکام ٹھہرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی کمرشل سیاست کو ”ڈکا‘‘ لگتا ہے یا نہیں۔ دھرنوں کے زور پر منتخب حکومتوں کو گھر بھیجنے کا رواج کسی منطقی انجام تک پہنچتا ہے یا نہیں۔ پندرہ بیس ہزار جانثاروں کے زور پر جمہوری نظام کا قالین لپیٹا جا سکتا ہے یا نہیں۔ کروڑ سے زائد ووٹ کے حامل بیلٹ بکسوں کے مقابلے میں چند ہزار ڈنڈے باز زیادہ وزنی اور طاقتور ہیں یا نہیں۔ مولانا کی پشت پر کوئی اور بھی ہے یا محض وہ اپنے اعتماد کے زور پر گاڑی چلا رہے تھے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مولانا کے بقول ان کے ضامن (جن میں چوہدری صاحبان کا نام بھی شامل تھا) وعدہ ایفا کرتے ہیں یا غچہ دیتے ہیں؟
دسمبر گزر گیا۔ مولانا فضل الرحمن کا کامیاب دھرنا اپنے بے نتیجہ اختتام کو پہنچا‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی حماقتوں اور عوام کی مشکلات کا اختتام اس دسمبر کے ساتھ ہوا ہے یا ابھی یہ ملاکھڑا جاری رہے گا؟ 2019 ء میں قومی اسمبلی میں سب کچھ ہوا سوائے قانون سازی کے۔ شغل میلہ اور ہنگامہ آرائی پر مبنی قومی اسمبلی کے سیشنز پر قوم کے اربوں روپے کا خرچہ ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ساری کی ساری قانون سازی اسمبلی کے بجائے براستہ بٹھنڈہ بذریعہ آرڈیننس کی گئی۔ حتیٰ کہ کرپشن کے جرم میں قید ارکان اسمبلی کو پروڈکشن آرڈرز کے ذریعے اسمبلی میں لایا گیا کہ وہ عدالتوںکے بجائے اس معزز فورم پر قانون سازی کے بجائے اپنی صفائی دیں اور اپنی لوٹ مار کو تحفظ فراہم کریں۔ 2019ء گزر گیااور 2020 آ گیا ہے۔ اللہ جانے دنیا اس سال میں کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی اور اقوام عالم اس نئے سال میں کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دیں گی۔ جبکہ فی الحال 2020 کے حوالے سے سب سے اہم بات جو اب تک ہم پاکستانیوں کو معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ لکھتے وقت پورا 2020 لکھنا ہے اگر صرف 20 لکھا تو کوئی اس کے ساتھ 18 یا 19 لکھ کر آپ کا دھڑن تختہ کر دے گا۔
اللہ کرے کہ نیا سال پاکستان اور اہلِ پاکستان کے لیے آسانیوں کی نوید لے کر آئے گو کہ بہتری کی صورت دکھائی نہیں دے رہی مگر وہی بات ”جب تک سانس‘ تب تک آس‘‘۔