عمران خان کی پھیلائی ’’فسطائیت‘‘
قمر جاوید باجوہ صاحب نے ایک اور انٹرویو دے مارا ہے۔پیر کی شب سات بجے سے رات بارہ بجے تک کئی ٹی وی شوز میں اس کا چرچارہا۔سرسری انداز میں مذکورہ انٹرویو میں مجھ ناچیز کا ذکر بھی ہوا تھا۔باجوہ صاحب نے خود کو مجھے ایک ٹی وی شو سے فارغ کروانے میں اپنے کردار سے انکار کیا۔ ان کی مہربانی۔ عرصہ ہوا ویسے بھی اپنی ’’اوقات‘‘ دریافت کرچکا ہوں۔اس بابت جی کو ملال بھی نہیں۔’’ہم کہاں کے دانا تھے…‘‘ والی حقیقت تسلیم کرنا ہے۔
بحیثیت صحافی یہ بات بھی 1980ء کی دہائی سے جان چکا ہوں کہ اگر آپ کی دی خبریں یا تواتر سے لکھے کالم نمائشی یا ان کی ڈوریاں ہلانے والے حکمرانوں کو پسند نہ آئیں تو وہ کم از کم آپ کو بے روزگار کرواتے ہوئے بدلہ ضرور لیتے ہیں۔ان کے لئے اس نوع کے اقدام کو ’’آزادیٔ اظہار کے فقدان‘‘ کی سیاپا فروشی کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔اپنے کہے اور لکھے کی سزا بھگتنے کو خوش دلی سے تیار رہتا ہوں۔
تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول نے 2011ء سے نہایت مہارت کے ساتھ سوشل میڈیا کی بدولت مجھے شریف خاندان کا ’’لفافہ‘‘ ٹھہرارکھا ہے۔گزشتہ دو برسوں سے ’’ٹوکری‘‘ کا ذکر بھی ہوتا ہے۔مجھے شریف خاندان کا غلام ٹھہراتے ہوئے شاذہی کسی نے یاد رکھا کہ نواز شریف صاحب کی دونوں حکومتوں کے دوران میرے کتنے’’ناز‘‘ اٹھائے گئے تھے۔
مسلم لیگ (نون) ان دنوں ایک بار پھر حکومت میں ہے۔خرم دستگیر خان اس کے ذہین ترین وزراء میں شامل ہیں۔سرسری ملاقاتوں میں ہمیشہ عزت واحترام سے گفتگو فرماتے ہیں۔پیر کی رات منیب فاروق کے شو میں ان کے ساتھ تبصرہ آرا ئی کے لئے مدعو تھا۔ پروگرام کے آغاز میں انہوں نے جاندار دلائل کے طومار سے تحریک انصاف کو ’’فسطائیت‘‘ کی علامت ٹھہرایا۔عمران خان کو دور حاضر کا ہٹلر قرار دیتے رہے۔ ان سے اختلاف کی گنجائش نکالنا دشوار تھا۔
اقتدار کے کھیل کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے تاہم ہمیشہ مصر رہا ہوں کہ یہ ’’اصولوں‘‘ کے تابع نہیں ہوتا۔ اشرافیہ کے مابین تخت یا تختہ والی جنگ ہوتی ہے۔مذکورہ حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میں کسی بھی سیاستدان کو ’’اصولوں‘‘ کی بنیاد پر زیر بحث لانے سے گریز کرتا ہوں۔میری دانست میں اہم ترین بات یہ جاننا ہے کہ اقتدار کی جنگ میں مصروف کھلاڑیوں کے اہداف کیا ہے۔وہ سمجھ میں آجائیں تو تبصرہ نگار کی حیثیت میں فقط یہ جاننے کی کوشش کروں گا کہ کونسا فریق اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔
میری عاجزانہ رائے میں عمران خان صاحب کا حتمی ہدف وزارت عظمیٰ کے منصب پر ہر صورت لوٹنا ہے۔اس کے حصول کے لئے انہیں جلد از جلد محض پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلی ہی نہیں نئی قومی اسمبلی کے قیام کے لئے بھی انتخاب درکار ہیں۔فوری انتخاب کے حصول کے لئے اپنے مہرے بڑھاتے ہوئے تحریک انصاف کے قائد کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ انہیں عام انتخابات سے قبل عدالتی عمل کے ذریعے’’نااہل‘‘ کروانے کی کوشش ہوگی۔مسلم لیگ (نون) کے قائد نواز شریف2017ء میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ہاتھوں انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ٹھہرائے جاچکے ہیں۔ان کی ’’نااہلی‘‘کا ازالہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں ہی ممکن ہے اور اس کے امکانات میری کمزور بینائی دیکھنے سے قاصر ہے۔2018ء کے انتخاب کے بعد نواز شریف کے لئے آئندہ انتخاب میں بھی قانونی وجوہات کی بنا پر حصہ لینا ممکن نہ ہوا تو ان کے حامی اس عمل کو ’’غیر منصفانہ‘‘ تصور کریں گے۔مصر رہیں گے کہ ’’عمران خان کی ٹکرکے سیاستدان‘‘ کو انتخابی عمل سے باہر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کو کھلامیدان فراہم کردیا گیا ہے۔نواز شریف کی بھرپور شرکت کے بغیر ہوئے عام انتخاب کے بالآخر جو نتائج برآمد ہوں گے اس کا اندازہ ہم آج کے ہیجان میں لگانہیں سکتے۔
مستقبل کو نظرانداز کرتے ہوئے فی الوقت عمران خان صاحب کے ذہن میں موجود نااہلی کے خدشہ پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔اس ضمن میں دومقدمات ہیں جن کا گزشتہ کئی مہینوں سے مسلسل ذکر ہورہا ہے۔ایک کا تعلق توشہ خانہ سے جڑے معاملات سے ہے اور دوسرے کے ذکر سے میں گریز کو ترجیح دوں گا۔
موجودہ حکومت کے بہی خواہ کئی ہفتوں سے انتہائی اعتماد سے یہ بتارہے تھے کہ توشہ خانے کے حوالے سے عمران خان کے خلاف بنایاکیس انگریزی محاورے والا ’’اوپن اینڈ شٹ کیس‘‘ ہے۔سادہ زبان میں اسے چٹ منگی پٹ بیاہ کہہ لیتے ہیں۔بہرحال ہمیں بتایا جارہا تھا کہ جیسے ہی وہ اس مقدمے کے حوالے سے متعلقہ عدالت کے روبرو حاضر ہوئے ان کے خلاف فرد جرم عائد ہوجائے گی۔ان کی ’’نااہلی‘‘ کا عمل لہٰذا قانونی اعتبار سے باقا عدہ شروع ہوجائے گا۔
اسلام آباد کی جس عدالت میں ان کے خلاف فرد جرم عائد ہونے کی توقع تھی اس کے روبرو پیش ہونے سے عمران خان کتراتے رہے۔ بالآخر گزشتہ ہفتے اس کے لئے لاہور سے اسلام آباد پہنچے تو ان کے پرستاروں نے ان کی گاڑی کو دیوانہ وار گھیرے میں لے لیا۔اپنی جان کو درپیش خطرات کی بنیاد پر عمران خان گاڑی سے اترکر ہجوم سے گزرتے ہوئے عدالت پہنچنے کا رسک لینے کو آمادہ نہیں تھے۔ان کا دعویٰ ہے کہ پرستاروں کے ہجوم میں ان کے ممکنہ ’’قاتل‘‘ بھی موجود تھے۔ وہ ان کی صورتیں پہچانتے ہیں۔
جس عدالت کے روبرو انہیں پیش ہونا تھا مذکورہ خدشے سے اتفاق کرتی محسوس ہوئی۔فیصلہ ہوا کہ ان کے خلاف تیار ہوئے مقدمے کی مثل یا فائل ان کی گاڑی تک بھجوادی جائے۔وہ اس پردستخط کردیں تو ان کی ’’حاضری‘‘ شمار ہوجائے گی۔ دستخط ہوگئے تو آئندہ پیشی کی تاریخ دے دی گئی۔
مذکورہ بالا حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے میں یہ التجا کرنے کو مجبور ہوا کہ عمران خان صاحب اپنے ہدف یعنی فردجرم ٹالنے کے حصول میں کامیاب رہے ہیں۔توشہ خانہ کیس پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے میرا کند ذہن اس کے سواکوئی منطقی نکتہ اخذ ہی نہیں کرسکتا تھا۔خرم صاحب کو لیکن میری توجیہہ پسند نہ آئی۔عدالت میں جو ہوا تھا اسے ’’ہجوم کی قوت‘‘ سے مسلط کردہ ماحول کا شاخسانہ قرار دیا۔ دُکھ انہیں یہ بھی ہوا کہ ٹی وی سکرینوں پربیٹھے مجھ ایسے ’’سیاسی پنڈت‘‘ متشدد ہجوم کی جانب سے بنائے ماحول کو عمران خان کی عوام میں ’’بے پناہ مقبولیت‘‘ کا اظہار شمار کررہے ہیں۔ان کی سوچ پراعتبار کروں تو بالآخر مجھ جیسا ’’شودر‘‘ بھی ٹی وی سکرین کی بدولت’’سیاسی پنڈت‘‘ ہونے کے بعد عمران خان کی جانب سے مبینہ طورپر پھیلائی’’فسطائیت‘‘ کا پرستار بن گیا ہے۔
پیر کے روز حکمران اتحاد کے سات گھنٹوں تک پھیلے اجلاس کے دوران مذکورہ ’’فسطائیت‘‘ کے خلاف ’’آہنی ہاتھ‘‘ استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔گھبرائے دل سے دُعا مانگ رہا ہوں کہ ’’آہنی ہاتھ‘‘مجھے عمران خان کی مسلط کردہ مبینہ فسطائیت کا ’’سہولت کار‘‘ تصور نہ کرے۔