منتخب تحریریں

امانت کی لاش!

Share

اگر آپ کو میری تاریخ پیدائش کا علم نہیں تو اچھی بات ہے، میں پہلے ہی بابا جی، بابا جی سن کر تنگ آیا ہوا ہوں، ان ’’ناٹی بوائز‘‘ سے کوئی پوچھے کہ کیا تم نے کبھی بابا نہیں ہونا، وہ جواب میں کہیں گے نہیں ہونا جی، میں ان سے اسی جواب کاخواہاں ہوں کیونکہ جس دن آپ نے سوچ لیا اور مان لیا کہ آپ بابے ہوگئے ہیں اسی دن آپ کام کاج سے گئے، مجھے کالم اور طنز و مزاح لکھتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ گزر چکی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھ پر ابھی ’’بڑھاپا‘‘ نہیں آیا، میرے گھٹنوں میں بہت تکلیف رہتی ہے، مجھے پروسٹیٹ کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے راتوں کو اٹھنا پڑتا ہے، مجھے انگزائٹی ہے،بلڈ پریشر ہے، ہارٹ پرابلم ہے۔ میں ان سب مسائل کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا ہوں، میرا یہی مشورہ پاکستان کے باقی بابوں کے لئے بھی ہے۔

میں نے یہ مشورہ صرف پاکستانی بابوں کو اس لئے دیا ہے کہ امریکہ، یورپ اور جاپان وغیرہ میں کسی کو ’’بابا‘‘ کہنے کاسوال ہی پید ا نہیں ہوتا، وہاں انہیں ’’سینئر سٹیزن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر انہیں کوئی بابا یا بڈھا کہہ دے تو وہ لڑنے مارنے پر آ جاتے ہیں۔ ایک شراب خانے پر جھگڑے کے دوران ایک نوجوان نے بابے کوکہہ دیا ’’اوئے حرامی بڈھے‘‘ جس پر بابا جی نے اپنی پستول نکال لی اور لفظ حرامی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ’’تم نے مجھے بڈھا کہا، اب نتیجہ بھگتنے کے لئے تیار ہو جائو‘‘

ہم تو صرف عمر کے حوالے سے طرح طرح کے القابات ایجاد کرتے رہتے ہیں جبکہ ان ملکوں میں ’’سینئر سٹیزنز‘‘ کے لئے سہولتیں پیدا کی جاتی ہیں، انہیںقطار میں نہیں کھڑا ہونا پڑتا، ان کی کاروں کے لئے شاپنگ سینٹر میں قریب ترین جگہ پر کار پارکنگ کی سہولت ہوتی ہے۔ یہ سہولت ہمارے ہاں بھی ہوتی ہے مگر وہاں کوئی ’’ڈشکرا‘‘ اپنی کار پارک کرجاتا ہے۔

تاہم ان ملکوں کے لوگ خوش مزاج بہت ہوتے ہیں جہاں ان کا بہت حترام کرتےہیں ان کے لئے سہولتیں مہیا کرتے ہیں وہاں اس حوالے سے ’’فن‘‘ بھی کری ایٹ‘‘ کرتے ہیں، ایک کارٹون میں دکھایا گیا کہ ایک سینئر سٹیزن کسی بلند و بالا عمارت سے سیڑھیاں اتر رہا ہے مگر اپنی ضعیفی اور نقاہت کی وجہ سے وہ یہ راستہ بہت آہستگی سے طے کر رہا ہے، اس کے پیچھے ایک نوجوان دو دو سیڑھیاں پھلانگتا آ رہا ہے۔ مگر ’’بابے‘‘ کی آہستہ روی دیکھ کر وہ ریلنگ کا سہارا لے کرپھسلتا پھسلتا دوسرے فلور کی سیڑھیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اور اس کا کلائمیکس یہ ہے کہ یہاں پھر ایک اور سینئر سٹیزن آہستہ روی کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیتا ہے؎

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

اسی طرح کی ایک اور ویڈیو بھی میں نے دیکھی تھی جس میں بزرگوں کی ایک طویل قطار کو سڑک پار کرائی جارہی ہے اور اس کے لئے دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک روک دی جاتی ہے۔ کاروں میں بیٹھے لوگوں کے لئے یہ بہت صبر آزما لمحات ہوتے ہیں، وہ مٹھیاں بھینچ رہے ہوتے ہیں، کھڑکی سے گردن باہر نکال کر جائزہ لے رہے ہوتے ہیں کہ ابھی یہ کتنی دیر ہے، مگر ان میں سے کوئی ہارن نہیں دیتا، خدا خداکرکے یہ مرحلہ طے ہونے کے قریب آتا ہے تو ایک سینئر سٹیزن کی جیب سے ڈھیر ساری ریز گاری سڑک پر گر جاتی ہے اورٹریفک کھولا نہیں جاتا کہ ابھی ان کے صبر کی یہ آزمائش باقی ہے کہ بزرگوں کے ایک ایک سکہ اٹھانے میں جتنی بھی دیرلگے ٹریفک بند ہی رہے گی۔ ان لمحوں میں گاڑیوں میں پھنسے لوگوں کے چہروں کےتاثرات دیدنی اور خاصے ’’فنی‘‘ ہوتے ہیں۔

چلیں یہ ہلکی پھلکی باتیں ہوگئیں، مگرمیں یہ دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ ان میں سے بہتر صحت کے حامل سینئر سٹیزن جمناسٹک کے کرتب بھی دکھاتے ہیں، کلبوں میں اپنی ہم رقص کے ساتھ ڈانس بھی کرتے ہیں اور کئی ایک اپنی ہم رقص یا کسی اور کے ساتھ زندگی بھی گزارنے لگتے ہیں، اب کیا کریں ان لوگوں کو نہ خدا کا خوف ہے، نہ دنیا کی شرم۔ الحمد للہ اس کام کےلئے ہم لوگ جو موجود ہیں۔ اب اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ جب یہ سینئر بہت ہی زیادہ سینئر ہو جاتے ہیں اور ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں رہتے تو ان کےبچے انہیں اولڈ پیپلز ہوم میں جمع کرا دیتے ہیںاور رسید حاصل کرلیتے ہیں کہ ایک عدد بابا جمع کرایا۔ ان بچوں میں سے جو بہت اچھے بچے ہیں وہ ہر ویک اینڈ پر انہیں ملنے آتے ہیں پھر یہ عرصہ طویل ہوکر کرسمس تک جا پہنچتا ہے، وہ ہر کرسمس اپنے بابے یا بابی کو دیکھنے آتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ انہیں اولڈ پیپلز ہوم سے لیٹر ملتا ہے کہ اپنی امانت کی لاش آ کرلے جائیں۔ یہ اس سسٹم کی مجبوری بھی ہے اور مکافات عمل بھی کہ انہوں نے بھی اپنے والدین کو اسی طرح اولڈ پیپلز ہوم میں جمع کرایا ہوتا تھا اور یہ بھی اپنی امانت کی لاش اسی طرح اٹھا کر قبرستان لے گئے تھے۔