منتخب تحریریں

اتنی مایوسی کیوں ہے؟

Share

1943 میں دوسری جنگ عظیم جاری تھی ،جرمن فوج اتحادیوں کا مقابلہ تو کر رہی تھی مگر اُس کی مزاحمت ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی تھی ، اتحادی افواج کی بمباری نے جرمنی کے شہروں کو تقریباً کھنڈر بنا دیا تھا ، ہٹلر کا دست ِ راست گوئبلز ،گو کہ اب بھی پروپیگنڈا میں مصروف تھا، مگراُس کے پاس عوام کو بیچنے کیلئے کچھ باقی نہیں بچا تھا۔جرمن شہری جان بچانے کیلئے محفوظ مقامات تلاش کرتے پھرتے تھے مگر اُن کے چاروں طرف یا تو لاشوں کے انبار تھےیا پھر بمباری سے مسخ شدہ عمارتیں ۔ہٹلر کو شاید اندازہ ہوچکا تھا کہ جنگ اُس کے ہاتھ سے نکل چکی ہے مگر وہ حقیقت کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا ،وہ سمجھتا تھا کہ ’کسی نہ کسی طرح‘ جرمن فوج اب بھی جنگ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اِس خوش گمانی کی وجہ یہ بھی تھی کہ محض چار سال پہلے تک جرمن فوج کا کرّو فر ایسا تھا کہ دنیا کانپتی تھی لہٰذا ہٹلر اگر کسی خود فریبی میں مبتلا تھا تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی ،وہ اب بھی فوجی جوانوں اور افسروں سے ملاقاتیں کرتا اورنئے نئے جنگی ہتھیاروں کا معائنہ کرتا۔اچھے وقتوں میں جرمن فوج کے پاس ایک ہزار ٹن وزنی توپ ہوتی تھی جس کا نام ’Gustav Gun‘ تھا ، یہ توپ سات ٹن وزنی شیل پھینک کر تیئس میل دور تک نشانہ لگا سکتی تھی، اِس پر دشمن کی بمباری کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، بعد ازاں اتحادی افواج نے ’تھرمائٹ ‘ سے اِس توپ کو تباہ کرنے کا نسخہ ایجاد کیا۔

1944 میں ہٹلر کو قتل کرنے کا ایک اور منصوبہ ناکام ہوا،اِس ناکامی نے ہٹلر کونیا حوصلہ دیا ، اسے لگا جیسے یہ خوش بختی کی علامت ہے، ہٹلر کے مصاحبین نے بھی اسے دل کھول کر مبارکباد دی،قتل کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف ’عدالت ‘ میں مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سرسری سماعت کے بعد موقع پر ہی موت کی سزا سنا دی گئی ۔اِس عدالت کی کارروائی دیکھیں تویہ لگتا ہی نہیں کہ یہ اُس ملک کی عدالت ہے جو تقریباً تباہ ہو چکا ہے اور جہاں کسی بھی وقت دشمن کی افواج قبضہ کر سکتی ہیں، عدالت میں فوجی افسران خوبصورت وردیاں پہنے ایسے بیٹھے ہیں جیسے انہیں جنگ کی کوئی پروا نہ ہو۔حقیقت مگر اِس کے برعکس تھی، ہٹلر کے قریبی ساتھیوں کو بھی اندازہ ہو چلا تھا کہ شاید اُن کا انجام قریب آن پہنچا ہے مگر اِس حقیقت کو تسلیم کرنا آسان کام نہیں تھا،جس بُت کو انہوں نے برسوں تراشا تھا اور جس دیوتا کی انہوں نے پرستش کی تھی اُس دیوتا کی شکست کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔اپریل 1945 میں جب سوویت افواج برلن کے دروازے تک پہنچ گئیں تب بھی ہٹلر نوجوان سپاہیوں سے ملاقات کرکے انہیں لڑائی جاری رکھنے کی ہدایت دے رہا تھامگر اُس وقت تک وہ جان چکا تھاکہ اِس کا کوئی فائدہ نہیں ،اسی لئے 30 اپریل کواُس نے اپنی محبوبہ کے ساتھ خودکشی کر لی۔اگلے روز یکم مئی کوبی بی سی نے جرمن ریڈیو کے حوالےسے ہٹلر کی موت کی خبر نشر کی۔

دوسری جنگ عظیم کو 78 برس گزر گئےمگرآج تاریخ میں جھانک کردیکھیں تو اِس جنگ سے کچھ سبق ہم بھی سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اِس سے پہلے ایک سوال میرے ذہن میں آیا ہے جس کا جواب دیناذرا مشکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہٹلر کو دنیا بجا طور پر ہولوکاسٹ کا مجرم اور دوسری جنگ عظیم کا ذمہ دار سمجھتی ہے، جنگ کے آخری دنوں میں ہٹلر کے پاس ہتھیار پھینک کر اپنے شہریوں اور فوجیوں کی جان بچانےکا موقع تھا مگر اُس نے ایسا نہیں کیا اور آخری وقت تک سپاہیوں کو لڑنے کا حکم دیتا رہا، کیا اُس کا یہ اقدام درست تھا ؟ اگر درست نہیں تھا تو پھر ہم 1971 میں جنرل نیازی کو ہتھیار پھینکنے پر لعنت ملامت کیوں کرتے ہیں ،آخر اُس نے بھی تو یہی کہہ کر اپنا دفاع کیا تھاکہ میں نے مزید خوں ریزی سے بچنےکیلئےہتھیار ڈالے؟ اِس سوال کا جواب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ جنرل نیازی کو اپنے اِس اقدام پر کوئی ندامت اور شرمندگی نہیں تھی، اگر ہوتی تو وہ اپنا پستول جنرل اروڑا کے حوالے کرنے سے پہلے خودکو گولی مار لیتامگر اُ س نے یہ نہیں کیا، جنگ کے بعد وہ لاہور میں دو فُٹ کی پگڑی پہن کر یوں پھرتا رہا جیسے کشمیر فتح کرکے آیا ہو۔

دوسری جنگ عظیم کی قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا کے جن ترقی یافتہ ممالک کو آج ہم رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اُن ممالک نے یہ مقام طویل اور صبر آزما جدو جہد کے ذریعے حاصل کیا ہے۔جرمنی اور جاپان جو جنگ کے بعد تباہ و برباد ہوچکے تھےاور جنہیں اپنی فوج رکھنے کی اجازت نہیںتھی،آج اُن کا شمار پہلے دس خوشحال ترین ممالک میں ہوتاہے۔جاپان پر دو ایٹم بم گرائے گئے تھے جبکہ جرمنی کو اتحادی افواج نے دو حصوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا تھا۔اِن بد ترین حالات کے باوجود اِن دونوں ممالک نے جو ترقی کی وہ ناقابل یقین ہے ۔اگر کسی دوسرے سیارے کی مخلوق دوسری جنگ عظیم کا مشاہدہ کر رہی ہوتی اور اِن ممالک کی تباہی دیکھتی تو وہ یقینا ً اِس بات پر شرط لگاتی کہ یہ دونوں ممالک آئندہ پچاس سال میں بھی اپنے پیروں پہ کھڑے نہیں ہوپائیں گے لیکن اِن ممالک نے جو کر دکھایا وہ کسی کرشمے سے کم نہیں تھا ۔آج ہماری حالت 1945 کے جاپان اور جرمنی سے زیادہ بری تو نہیں ، ہم پر کسی نے ایٹم بم نہیں گرایا، ہمارے شہروں پر پچاس ممالک کی افواج نے بمباری نہیں کی ، اِس کے باوجود ہم اپنے مستقبل سے اِس قدر مایوس ہیں کہ ہر دم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ خاکم بدہن یہ ملک نہیں رہے گا۔لیکن یہ مایوسی بلاوجہ نہیں ہے۔اِس مایوسی کے پیچھے نا امیدی ہےاور نا امیدی کے پیچھے نالائقی ہے اور نالائقی کے پیچھے پچھتر برسوں کی وہ پالیسیاں ہیں جنہوں نے اِس نالائقی کو جنم دیا ہے ، نالائقی نے نا امیدی کو بڑھاوا دیا ہےاور نا امیدی نے مایوسی پیدا کی ہے ۔یہ ملک اتنے برے حالات کا مستحق نہیں تھا جتنے برے حالات کو پہنچ چکا ہے۔تاہم بد ترین حالات میں بھی ذاتی اور اجتماعی زندگی کی کایا کلپ کے مواقع ملتے ہیں، ضرورت صرف اِس بات کی ہوتی ہے کہ وہ مواقع ضائع نہ کئے جائیں۔توکیا کوئی سُن رہا ہے!