ماسکو ٹرائل اور ہماری برساتی حب الوطنی
معاف کیجئے گا، قیامت کے ان دنوں میں میرا دماغ چل بچل ہو گیا ہے۔ قلم سے سطرِ مستحکم برآمد نہیں ہو رہی۔ زبان بے سبب بہک رہی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ابن انشا اور ابراہیم جلیس کی شوخ رنگ ارواح میرے اندر حلول کر گئی ہیں۔ آج کی زبان میں بات کرنا ہو تو سمجھئے کہ عطاالحق قاسمی اور محمد حنیف نے میرا دماغ ہیک کر کے اس میں اپنی گستاخ بیانی کا سافٹ ویئر رکھ دیا ہے۔ کسی پیکر ِدیانت صحافی کا ذکر کرنا ہو تو بے اختیار منہ سے قلم فروش صحافی نکل جاتا ہے۔ کسی عالم بے بدل کی بات ہو تو ایک تلخ ابکائی کے ساتھ حلق سے ایمان فروش کا آتشیں گولا برآمد ہوتا ہے۔ کسی بے مثل دانشور کو یاد کرنا چاہوں تو اپنے قصبے کا بہروپیا یاد آ جاتا ہے۔ کسی استاذ العصر کی صورت ِزیبا حافظے پر جگمگانا چاہے تو مانگے تانگے کے ادھ چبائے لقموں سے راہ پانے والی بدہضمی جیسی کراہت طاری ہوتی ہے۔ کسی محبِ وطن سیاستدان کی تعریف کرنا چاہوں تو مختلف ادوار میں اسی صاحب ِتدبر کے گرگٹ نما بیانات سے طبیعت بدمزہ ہوجاتی ہے۔ نکتہ وروں نے بتایا تھا کہ ہنر ایک دو دھاری تلوار ہے۔ یہ روزمرہ گفتگو جیسا یک رخا بیان نہیں ہوتا، یہاں کچھ رمزو کنایہ کا پردہ ضروری ہے۔ اور پھر اس ادھ کھلے غرفے سے ترچھا زاویہ بناتی ہوئی ایسی کرن بھی نکالنا ضروری ہے کہ زمانوں اور نسلوں کے پار اتر جائے۔ خیام کو ایک ہزار برس گزر گئے۔ حافظ اور خسرو کا زمانہ چودھویں صدی عیسوی ہے۔ لیونارڈو ڈاونچی،ریمبرانت اور شیکسپیئر پر پانچ صدیاں گزر گئیں۔ مگر کروڑوں انسان آج بھی ان سے زندگی کا معنی پاتے ہیں۔ چنگیز خان اور خیام میں زمانی فاصلہ زیادہ نہیں۔ ڈی این اے کے نمونوں سے معلوم ہوا ہے کہ کرہ ارض پر زندہ آٹھ ارب انسانوں کی جینیاتی ترکیب پر چنگیز خان کے منگول لشکر کی چیرہ دستی کے بدنما دھبے نمایاں ترین ہیں۔ فن اور آمریت کو یہی لکیر الگ الگ کرتی ہے۔ فن اپنی باریک نقش کاری سے لافانی روشنی عطا کرتا ہے جبکہ تلوار کا ظلم اپنی عریانی کے دھبے چھوڑتا ہے۔ جبر کا طوفان امن کی پایاب ندی جیسے خرام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ان دنوں مجھے اسٹالن کے ماسکو ٹرائل اور ماؤ کے ثقافتی انقلاب کے دوران گرفتار ہونے والوں کے عدالتی بیانات یاد آ رہے ہیں۔ کچھ تفصیل جاننا ہو تو اسٹالن کے عہد ِدہشت کے بارے میں Karl Schlöge کی کتاب Moscow,1937 دیکھ لیجئے۔ Frank Dikötter کی کتاب Mao’s Great Famine بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ تاریخ دانوں میں ہمیشہ اختلاف رہے گا کہ ہٹلر، اسٹالن اور مائو میں سے کون زیادہ اموات کے لئے ذمہ دار تھا۔ اعداد و شمار کی اس بحث کو چھوڑ کر دو فکری زاویے دیکھ لیجئے۔ اسٹالن نے کہا تھا۔’’ایک شخص کی موت المیہ ہوتی ہے اور ایک لاکھ اموات محض ایک عدد‘‘۔ اس کے جواب میں ایک دانش مند نے کہا تھا کہ ’صفر اور ایک یعنی زندگی اور موت میں لامحدود فاصلہ پایا جاتا ہے‘۔ ان دونوں بیانات میں فرق آپ خوب سمجھ سکتے ہیں۔ 1936 سے 1938 تک اسٹالن کی تطہیری مہم میں الزامات کی فہرست میں جو یکسانیت پائی جاتی تھی، ملزموں کے اعترافات بھی اسی طرح ملائے مکتب کے آموختےسے مشابہ تھے۔ چین کے ثقافتی انقلاب میں بھی یہی صورت تھی۔ ستم رسیدوں کی افتاد سے قطع نظر انصاف کا ایسا مثلہ کرنےسے قوم کا نظام عدل سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں مضحکہ خیز پریس کانفرنسوں سے ہٹ کر کچھ اور اشارے بھی پائے جاتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں 9 مئی اور اس سے مہینوں پر محیط زیر زمین اقتدار کی کشمکش کے بارے میں سرکاری سطح پر کچھ اعلانات متوقع ہیں جن میں یقینی طور پر خوفناک حقائق بیان کئے جائیں گے۔ سازش اور جبر میں یہی نکتہ مشترک ہے کہ خبر اور افواہ میں فرق کرنے کی صلاحیت کند ہو جاتی ہے۔ سرکاری لنگرخانے سے راتب پانے والوں کی ہزلیات اشارہ دیتی ہیں کہ ابھی ناٹک ختم نہیں ہوا۔ ایک صاحب تقویٰ نے مطالبہ کیا ہے کہ’غدار‘ زلمے خلیل زاد پر ’پابندی‘ لگائی جائے۔ اصل قابل توجہ خبر تو یہ ہے کہ ہمارا وزیراعظم مکمل معاشی تباہی سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف کی سربراہ سے مدد مانگ رہا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت مان لینی چاہئے کہ 2011 سے 2022 تک ہم نے ایک داخلی سیاسی سازش کے ذریعے اپنا سیاسی، صحافتی، انتظامی اورعدالتی نظام درہم برہم کیا۔ ٹھیک اسی عشرے میں ہماری معیشت ہماری غفلت کا شکار ہوگئی۔ کچھ برس پہلے سونامی کا بہت ذکر تھا۔ اب حقیقی سونامی کا مشاہدہ کیجئے۔ اسلام آباد کی شاہراہوں پر سرکاری اہلکاروں کی تصویریں آویزاں کرنے کے علاوہ وہاں ایک دیوار ذلت بھی آویزاں کر دی گئی ہے۔ صرف چہرے تبدیل ہوئے ہیں۔ ٹھیک پانچ برس پہلے ایک صاحب اختیار نے اسی نمونے پر غداروں کی تصویروں کا ایک پورا نقشہ دکھایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم شفاف قانونی عمل، دستور کی بالادستی اور عوام کی حکمرانی سے بدستور بے نیاز ہیں۔ بے یقینی کے موسم میں کچھ معلوم نہیں کہ جولائی میں ہماری معیشت کا منظر کیا ہو گا۔ کیا ہم اکتوبر میں ووٹ دے رہے ہوں گے یا اہل اقتدار کی خوشنودی کے لئے بے معنی بیانات جاری کر رہے ہوں گے۔ نیز یہ کہ کچھ معروف صحافی رضاکارانہ طور پر شمالی علاقوں کی سیر کو نکل گئے ہیں یا واقعی حبس بے جا میں ہیں۔ آنے والا مورخ ہم سے ضرور پوچھے گا کہ جب ٹیلی وژن پر تائب بلوچ رہنما گلزار امام شنبے قوم سے اپنی اصلاح کا موقع مانگ رہا تھا تو کیا کوئٹہ پریس کلب کے باہر گمشدہ افراد کے اہل خانہ کے کیمپ خالی ہو گئے تھے۔ کیا تمام گمشدہ بلوچ ہم وطن اپنے گھروں کو لوٹ آئے تھے۔ گرفتاریوں، سیاسی وابستگیاں بدلنے کی مشق تو زیر زمین ارضی چٹانوں کی رستا خیز کا محض سطحی اظہار ہے۔ فی الحال ماسکو ٹرائل کے اعترافی بیانات سے لطف اٹھائیے۔