چودھری اللّٰہ وسایا
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے خوراک دشمن دیکھے ہیں لیکن چودھری اللّٰہ وسایا جیسا مردِ میدان کم کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ چودھری صاحب جب کھانے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو خود کو میدان جنگ میں محسوس کرتے ہیں۔ وہ ’’دشمن‘‘ پر اس طرح جھپٹتے ہیں کہ ان کے ہنر اور چابکدستی کی داد دینا پڑتی ہے۔ کبھی کبھارجب ان کے دل میں چھری کانٹے سے کھانے کا شوق ابھرتا ہے تو وہ منظر خصوصاً دیدنی ہوتا ہے۔ ’’دشمن‘‘ کے دل پر ان کی اتنی ہیبت طاری ہوتی ہے کہ وہ جان بچانے کیلئے پلیٹ میں اِدھر اُدھر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے مگر چودھری صاحب کا کہنا ہے کہ وہ کھانے کو ایک فضول ایکٹویٹی سمجھتے ہیں چنانچہ وہ اس وقت تک کھاتے رہتے ہیں جب تک وہ کھانے سے متنفر نہیں ہو جاتے۔ یہی عمل وہ اگلے دن بھی دہراتے ہیں بلکہ گزشتہ67 برس سے دہرا رہے ہیں اور ان کاکہنا ہے کہ وہ یہ عمل سوسال کی عمرمیں بھی اس وقت تک دہراتے رہیں گے جب تک وہ کھانے سے ہمیشہ کیلئے متنفر نہیں ہو جاتے۔ ان کی یہ کوشش اس حد تک ضرور کامیاب ہوئی ہے کہ انہیں کھاتے دیکھ کر بہت سے لوگ کھانے سے متنفر ہوچکے ہیں۔ کسی زمانے میں چودھری صاحب کی دشمنی مرغ کے ساتھ زورو ں پر تھی جسے وہ ککڑ کہتے تھے۔ککڑ کو دیکھتے ہی ان کے سارے جسم پر دانت اُگ آتے۔ انہوں نےاس زمانے میں اتنے ککڑ کھائے کہ ان کے قریب بیٹھنے والوں کوباقاعدہ بانگیں سنائی دیتی تھیں۔ ان کی مرغ دشمنی کا یہ عالم تھا کہ مرغوں نے صبح کے وقت اس خوف سے اذانیں دینا بند کردیں کہ کہیں چودھری صاحب ان اذانوں کاپیچھا کرتے کرتے ان تک نہ پہنچ جائیں۔ جس شام کوئی مرغ اپنے ڈربے میں صحیح سلامت واپس آتا مرغیاں سجدہ ٔ شکراداکرتیں۔ لاپتہ مرغوں کی بازیابی کیلئے مرغیوں نے کئی مرتبہ چودھری صاحب کے گھر کے سامنے مظاہرہ بھی کیا۔ ایک دفعہ تو وہ اسلام آباد بھی گئیں لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے بعدچودھری صاحب کی مرغ دشمنی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس میں کمی تو برڈ فلو کے بعد آئی۔ چودھری صاحب کا کہنا تھا کہ اب اس مخلوق سے دشمنی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ اپنی دشمنی پر خود اتر آئی ہے۔
چودھری اللّٰہ وسایا جب کھانے بیٹھتے ہیں تو بھوک نہیں دیکھتے، گھڑی دیکھتےہیں۔ان کا کہناہے کہ کھانا ڈیڑھ گھنٹے تک کھاتے رہنا چاہئے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ چودھری صاحب اچھی صحت کیلئے ایکسرسائزبہت ضروری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ڈیڑھ گھنٹے تک کھانے کا مطلب ڈیڑھ گھنٹے تک ایکسرسائز کرنا ہے۔ انسان اس دوران لقمہ توڑتا ہے یہ ہاتھ کی ورزش، اس کےبعد یہ لقمہ منہ تک لے جاتا ہے یہ بازو کی ورزش ہے۔ پھر یہ لقمہ منہ میں ڈالنے کیلئےمنہ کھولتا ہے، یہ منہ کی ورزش ہے۔ پھر وہ یہ لقمہ چباتا ہے یہ دانتوں اور جبڑوں کی ورزش ہے۔ چنانچہ اس ورزش کے نتیجے میں چودھری صاحب کی صحت دن بدن پھیلتی جارہی ہے ۔ڈاکٹر کئی مرتبہ انہیں ’’صحت‘‘کا پھیلائو کم کرنے کامشورہ دے چکے ہیں بلکہ وہ یہاںتک کہہ چکے ہیں کہ اگر چودھری صاحب نے اپنی ’’صحت‘‘ کم نہ کی تو وہ فوت نہیں ہوں گےبلکہ ایک دن بیٹھے بیٹھے پھٹ جائیں گے۔ اس پر چودھری صاحب بھرپور قہقہہ لگاتے ہیں۔ اس قہقہے کے دوران چودھری صاحب کے جسم کے مختلف حصے علیحدہ علیحدہ پھڑپھڑاتے ہیں جس کے نتیجہ میں انہیں دوبارہ بھوک لگ جاتی ہے اور وہ ایک بار پھر کھانا کھانے بیٹھ جاتے ہیں۔
چودھری صاحب کے والدبزرگوار اور ان کے دادا حضور بھی انہی کی طرح بسیار خور تھے۔ ان بزرگوں کو سیاحت کا بہت شوق تھا چنانچہ یہ جہاں بھی جاتے وہاں کچھ دنوں کے بعد قحط پڑ جاتا۔ مختلف اوقات میں دنیا کےمختلف ملکوں میں جو تاریخی نوعیت کے قحط پڑے ان میں چودھری صاحب کے بزرگوں کا بہت دخل تھا۔ زیادہ دور جانے کی کیا ضرورت ہے کسی زمانے میں ہمارا پنجاب غلے کے معاملےمیں خودکفیل ہی نہیں بلکہ غلہ برآمد بھی کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چودھری صاحب روایت پسند انسان ہیں۔ وہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں چنانچہ ایک خیال یہ ہے کہ پنجاب میں غلے کی پیداوار میں کمی نہیں آئی بلکہ جو زوال نظر آ رہا ہے اس میں چودھری صاحب کے کمال کا دخل ہے۔چودھری صاحب بہت لبرل مسلمان ہیں۔ نماز، روزے سےبھی کچھ زیادہ رغبت نہیں ہے تاہم ان تمام مذہبی رسموں کے قائل ہیں جن کا تعلق کھانے پینے سے ہے۔ چنانچہ خود بھی نذر نیاز کا اہتمام کرتے ہیں اور دوسروں کی طرف سے دی گئی نیاز میں بھی شریک ہوتے ہیں۔اپنی طرف سے دی گئی نیاز میں صرف اپنے ان نیازمندوں کو مدعو کرتے ہیںجو انکے سامنے سے کوئی چیز اٹھانے کی جسارت نہ کریں چنانچہ یہ نیازمند آخر میں صرف دعا میں شریک ہوتے ہیں۔ چودھری صاحب چہلم کی تقریبات میں بھی بڑی باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں بلکہ اجنبیوں کے ہاں بھی چلے جاتے ہیں کہ ایک دن سب کو مرنا ہے چنانچہ وہ ایسے مواقع پر بلاوے کے انتظار میں رہنے کو نفس امارہ کا بہکاوا سمجھتے ہیں۔ چہلم کی تقریب میں وہ اپنے کھانےکی روٹین یعنی ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے کو دو گھنٹے تک بڑھا دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کا مقصد محض مرحوم کی روح کو زیادہ سے زیادہ ثواب پہنچانا ہوتا ہے کیونکہ لواحقین نے کھانے کا انتظام کیا ہی مرحوم کی روح کو ثواب پہنچانےکیلئے ہوتا ہے۔ ایک دفعہ کھانے کے بعد دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور باآواز بلند مرحوم کی مغفرت کیلئے دعا مانگنا شروع کی جس پر کچھ نوجوانوں نے اٹھ کر ان کی پٹائی شروع کردی کیونکہ یہ دعوت ِ ولیمہ تھی۔ چودھری صاحب دراصل کنفیوژہوگئے تھے کیونکہ ان کے ذہن پر وہ دعوت ِ چہلم سوار تھی جس میں انہوں نے ابھی شرکت کرنا تھی۔