ہیڈلائن

اسلام آباد ہائیکورٹ: سائفر کیس میں ان کیمرا ٹرائل کےخلاف درخواست پر اٹارنی جنرل، ایف آئی اے کو نوٹس

Share

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سائفر کیس میں ان کیمرا ٹرائل کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کردیے۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے درخواست پر سماعت کی، بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا روسٹرم پر آگئے، عدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا، اٹارنی جنرل صاحب ملک میں ہیں ؟ جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل صاحب ملک میں موجود ہیں۔

بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پراسکیوشن کی درخواست پر بعد میں عدالت نے ٹرائل ان کیمرا کرنے کا فیصلہ سنایا، عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سائفر کیس کی کوریج پر بھی پابندی ہو گی۔

سلمان اکرم راجا نے مزید مؤقف اپنایا کہ عدالت نے لکھا کہ کارروائی کی رپورٹنگ سے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے، کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی کے عمل سے سائفر سیکیورٹی کو متاثر کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پراسکیوشن کی طرف سے ایک جنرل الزام لگایا گیا، کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ سیکیورٹی کیا تھی۔

سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام بتاتے ہیں کہ سائفر کے کوڈز ہر کچھ ماہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت نے ٹرائل روکنے کی درخواست فوری منظور نہ کی، سلمان اکرم راجا نے استدعا کی کہ عدالت کیس میں اسٹے کر دے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ابھی اس کو نہیں دیکھ رہے کل کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے پر اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں، ان کی طرف سے بھی اسٹیٹمنٹ آجائے۔

بعد ازاں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ 14 دسمبر کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی کارروائی پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ اگر کوئی بھی خلاف ورزی ہوئی تو اس پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی، پیمرا اور پی ٹی اے کو عدالتی حکم کی کاپی فراہم کی جائے تاکہ آئندہ خلاف ورزی نہ ہو۔

عدالت نے کہا تھا کہ سائفر کیس کا ٹرائل ان کیمرا کرنے کی پراسیکیوشن کی درخواست منظور کی جاتی ہے، سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی ٹرائل میں مشروط طور پر موجود ہوگی۔

سائفر کیس

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔