ساقی فاروقی کا جھوٹ پکڑا گیا
ہر نسل کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ اسی سچ سے اس عہد میں بسنے والوں کی قامت متعین ہوتی ہے۔ وقت کی گاڑی آگے بڑھ جاتی ہے اور اپنے پیچھے چھوڑی ہوئی دھول میں چہرے، آوازیں نیز خوب اور ناخوب کی میزان کے پلڑے اوجھل ہونے لگتے ہیں۔ تاریخ کی چادر پر مرجان ٹانکنے والے چیدہ چیدہ ساونت اپنے بعد بھی کچھ عمر پاتے ہیں مگر آخر فنا، آخر فنا۔ آج کتنوں کو یاد ہے کہ کس قبیلے کا کون سردار کس صحرا میں اپنے زمانے کا سچ بول کر بہادری کی موت مرا، کس نے اپنے گردوپیش کے گزراں اور ناپائیدار نقوش کی ریا کاری اور کھلے جھوٹ سے سمجھوتہ کر کے سردی میں سمور اور گرمی میں خس خانہ کا بندوبست کیا۔ کون کسی منصب کی تلاش میں رہا اور کس نے اپنے بھیتر میں ٹمٹماتا شعلہ ہاتھوں سے حصار کیے رکھا۔ کوئی اپنے کسی جسمانی عیب کی نفسیاتی گرہ سے معلق رہ کر دوسرے انسانوں کے لئے ظلم کی علامت ٹھہرا تو کسی نے اپنے بے عیب خدوخال، دراز قامتی، چھب تختی اور ساق سیمیں کے خواب میں عمر گزار دی۔ کرہ ارض کے چپے چپے پر کہنہ قلعوں اور اجڑے ہوئے باغات اور بلند و بالا پرانی عمارتوں کے کھنڈر نظر آتے ہیں، انہیں تعمیر کرنے والے ہجوم ناشناس کے ایک کلمہ خوشامد کے تعاقب میں زندگی گزار گئے۔
ہمارے قابل احترام پیش رو صحافی مولوی محمد سعید نے اپنی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ میں پچاس کی دہائی کے کراچی میں اعلیٰ افسروں کی اقامت گاہوں میں غسل خانوں کے لیے بلجیئم سے قد آدم آئینوں کی درآمد کا ذکر کر رکھا ہے۔ گزشتہ صدی کے صاحب اسلوب انشا پرداز ناصر نذیر فراق دہلوی نے ایک نثر پارے میں امرا کی عشرت گاہوں کے ان حوضوں کا ذکر کر رکھا ہے جن میں ناصر فراق کے بے بدل لفظوں میں ’نسائی آئینے صیقل کیے جاتے تھے‘۔ ابھی گزشتہ دہائی میں کراچی کی بندرگاہ پر ایک بڑے افسر کی سرکاری اقامت گاہ کے تالاب میں تنصیب کی غرض سے اٹلی سے خوشبودار ٹائلیں درآمد کرنے کی خبر آئی تو اس بندہ کم مایہ کو مولوی محمد سعید کی تحریر یاد آئی۔ سوچا کہ بلجیئم سے منگوائے گئے آئینے اب جگہ جگہ سے تڑخ چکے ہوں گے اور سات دہائیاں پہلے کے نسائی مجسمے وقت کی شمع دان سے ٹپکتی گرم موم کی حدت سے پگھل کر کب کے زیر زمیں اتر چکے۔
معذرت چاہتا ہوں، درویش دنیا کی بے ثباتی اور فکر عاقبت پر وعظ کا ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ سب باتیں تو وطن عزیز پر اترے حالیہ مناظر سے یاد آئیں۔ کل تک کی ’منظور شدہ‘ روحانیت آج توشہ خانوں سے قیمتی نوادر چرانے کے الزامات کی زد میں ہے۔ پارسائی کے نقاب اٹھ چکے اور ’خلاف شرع‘ افعال کی سرعام پردہ دری کا بازار گرم ہے۔ ان گنت بلند آہنگ وفاداروں کا ہجوم بے تماشا یوں تتر بتر ہوا ہے کہ پورس کے ہاتھیوں کی ہڑبڑاہٹ کو مات کر گیا۔ ابھی عامۃ الناس کو محل سرا میں درون خانہ تبدیلیوں کا پورا ادراک نہیں، اس لئے قبول عام کا بھرم باقی ہے۔ ہم نے اس ملک میں مادر ملت کہلانے والی خاتون معظم کے متعلق دریدہ دہنی سن رکھی ہے، دس برس تک کوس لمن الملکی بجانے والوں کی کوچہ و بازار میں تحقیر مشاہدہ کی ہے۔ ایک وقت میں سارے ملک نے دبستان کارل مارکس میں زانوئے تلمذ تہ کر رکھے تھے پھر ایسی کایا کلپ ہوئی کہ بغاوت پسندوں نے راتوں رات عبائے شریعت اوڑھ لی۔ لودھراں کی بستی لال کمال کی فضائوں میں ایک شعلہ کوندا اور تاریخ کا نصاب بدل گیا۔ 2018ءکے جولائی میں عزت اور ذلت کی اسناد بانٹنے والے آج کسی درس گاہ کے گوشہ عافیت میں سرنگوں ہیں۔ گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا… خاطر جمع رکھیے۔ آٹھ فروری کے بعد بھی تاریخ کا سفر جاری رہے گا اور اگر انحراف کی پگڈنڈی سے واپس آ کر شاہراہ دستور پر قدم نہ بڑھائے تو یہ کہانی ابھی جاری رہے گی۔ باقیست شب فتنہ، غنودیم۔
آج 2018ءکے اسی برس کی ایک یاد آفرینی مقصود ہے۔ جنوری کی 19تاریخ تھی۔ کینیڈا سے ڈاکٹر خالد سہیل تشریف لائے تھے۔ غریب خانے پر کچھ دوست جمع تھے۔ میزبان احباب کی گفتگو کے دوران حسب عادت وقفے وقفے سے تازہ خبروں پر نظر ڈال رہا تھا۔ اچانک اطلاع ملی کہ منو بھائی انتقال کر گئے ہیں۔ اداس ہو گئی محفل، چراغ بجھنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد لندن سے خبر آئی کہ طویل علالت کے بعد ساقی فاروقی نے بھی آنکھیں موند لی ہیں۔ بیشتر شرکائے مجلس کے لئے دونوں خبروں میں ذاتی دکھ کا سامان تھا۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے ساقی فاروقی ہی کا ایک شعر پڑھا۔ یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات / تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے۔ ان دنوں ساقی فاروقی کے آخری انٹرویو کی بازگشت ابھی باقی تھی جس میں ساقی فاروقی نے پیش گوئی کی تھی کہ ان کی شاعری ان کے بعد پانچ برس تک زندہ رہے گی۔ ساقی فاروقی کی شاعری پر بات شروع ہو گئی۔ اتفاق رائے پایا گیا کہ ساقی فاروقی نے خلاف معمول کسر نفسی سے کام لیا ہے۔ بیسویں صدی کی اردو نظم میں راشد، مجید امجد اور اختر حسین جعفری کے بعد ساقی فاروقی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے بڑی تعداد میں تادیر زندہ رہنے والی نظمیں کہی ہیں۔ ’’خالی بورے میں زخمی بلا‘‘ ، ’’حاجی بھائی پانی والا‘‘ ، ’’شیر امداد علی کا میڈک‘‘ ، ’’حمل سرا‘‘ ، ’’زندہ پانی سچا‘‘ ، ’’مستانہ ہیجڑا‘‘ اور ’’قرطبہ کا محاصرہ‘‘ ایسی بہت سی نظمیں قاضی محمد شمشاد نبی فاروقی المتخلص بہ ساقی فاروقی کو بہت دیر زندہ رکھیں گی۔ دیکھ لیجیے۔ چھ برس مکمل ہو گئے۔ ساقی فاروقی کوئی 55 برس ملک سے باہر رہے۔ راشد اور احمد مشتاق کے سوا کون اردو کا شاعر ایسا ہے جس نے عشروں تک بیرون ملک مقیم رہتے ہوئے اردو ادب پر ایسا گہرا نشان چھوڑا ہو۔ ساقی فاروقی کو اپنی آتش فشاں سچ گوئی پر بہت مان تھا لیکن خود اپنے شعر کی قدر پیمائی میں دھوکہ کھا گئے یا حسب معمول ہمیں غچہ دینے کی کوشش کی اور پکڑے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انسان ہو یا اینٹ پتھر کی عمارت، فنا کے اس سیل رواں میں صرف لمحہ موجود کو معنی بخشنے والی تخلیق کو دوام ہے۔