45 سال بعد مرگِ یوسف کی خبر
شعر یاد نہیں رہتے۔ کبھی کبھی سکول میں رٹا لگایا ہوا علامہ اقبال یا مولانا حالی کا شعر یاد رہ جاتا ہے یا کبھی کسی نعت خوان یا قوال سے سُنا ہوا کوئی مصرع ذہن میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بارے میں ریفرنس پر رائے سُنتے ہوئے ایک شعر یاد آ گیا جو پھانسی کے بعد بھٹو مخالف رسالے کے سرورق پر پڑھا تھا۔
سرورق پر بھٹو کی لاش کی تصویر تھی اور نیچے جلی حروف میں یہ شعر لکھا تھا:
سُنے جاتے نہ تھے تم سے میرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
چونکہ اس ریفرنس کے مدعی فیصلے سے مطمئن ہیں تو باقی لوگوں کو بھی مطمئن ہو جانا چاہیے۔ عام زبان میں فیصلے کی سمجھ یہ آئی کہ بھٹو کو پھانسی دینے والے کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔
عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کرنے والوں کو آج کل ضمانتیں بھی نہیں مل رہیں، اس لیے عدلیہ کے فیصلے کا مکمل احترام ہے۔
قانون کی زبان سمجھ نہیں آتی اور جب تفصیلی فیصلہ آئے گا تو قانون کے ماہر ہمیں سمجھائیں گے کہ 45 سال بعد بھٹو کو اب انصاف ملا ہے یا صرف ایک بے انصافی کو بے انصافی کہہ کر معاملہ رفع دفع کیا گیا ہے، کیونکہ اگر ظلم ہوا ہے تو یہ کیسا انصاف ہے کہ ظالم کا نام بھی نہیں لے سکتے۔
صحافت کا آغاز فیشن جرنلزم سے کیا تھا، رنگ برنگے کپڑوں کے بارے میں شاعرانہ سُرخیاں لگانا میرے کچے پکے صحافیانہ کیریئر کا سُنہرا دور تھا۔
ایک محترم ایڈیٹر کچھ خاص طرح کے لباسوں کے لیے انگریزی کی ایک اصطلاح استعمال کرتی تھیں جس کا اُردو میں ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’یہ لباس آپ کے بہت سے گناہ چھپا لے گا۔‘ انگریزی میں اُسے Multitude of sins کہتے تھے۔
قانون کی جادوئی زبان بھی کبھی آپ کو انصاف بھی دے سکتی ہے اور کبھی آپ کے بہت سے گناہ چھپانے کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
اچھی شاعری اپنی زبان خود بناتی ہے۔ کبھی بہت سے گناہوں سے پردہ اٹھاتی ہے اور کبھی ایک ہُوک بن کر ایک پوری نسل کی اُداسی کو چند سطروں میں بیان کرتی ہے۔
شاعری پسند جیالے بھٹو کی پھانسی کو یاد کر کے ایک نظم سُنایا کرتے تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اُس کی بھولی بسری ایک لائن یاد آئی۔ ایک دوست نے کہیں سے ڈھونڈ کر بھیج دی۔ آپ بھی سُنیے:
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کُھلتے نہیں
سبز سجادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرفِ عبادت یاد تھے، پُو پھٹے تک انگلیوں پر گِن لِیے
اور دیکھا رحل کے نیچے لہو ہے
شیشئہ محفوظ کی مٹی ہے سُرخ
سطرِ مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
ایلچی کیسے بلادِ مصر سے
سوئے کنعاں آئے ہیں
اِک جلوسِ بے تماشا گلیوں بازاروں میں ہے
یاالٰہی مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
اب سمیٹو مشک و عنبر، ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو اور ردائیں نوکِ پا تک کھینچ لو
کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں
45 سال پہلے بھٹو کی گردن میں پھانسی کا پھندہ فِٹ کرنے کے بعد ہماری کچی آنکھوں نے اور بھی بہت جنازے دیکھے ہیں۔
خود کچی آنکھوں والوں کے جنازے ہم نے خود اُٹھائے ہیں۔
اِس ریفرنس کے مدعی آصف زرداری ہیں، جب صدر تھے تب (یہ ریفرنس) بھیجا تھا۔ اب فیصلہ لے کر وہ دوبارہ صدر بننے جا رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں پاکستان میں پھانسیوں پر پابندی لگا رکھی تھی جو کئی سال چلی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ادارے کی طرف سے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ دراصل اس ملک میں پھانسی کی سزا سنانے کی طاقت رکھنے والے بھی صحیح نہیں مِلے۔
ہمارے آنے والے صدر اگر بھٹو کو انصاف دلوانا چاہتے ہیں تو اُن پھانسی گھاٹوں پر تالے لگوائیں جہاں ایسے لوگوں کی گردن کے گِرد پھندہ لگایا جاتا ہے جن کے لیے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکے تھے۔