ہیڈلائن

صدرِ پاکستان کا انتخاب کیسے ہوتا ہے اور اُن کے پاس کیا آئینی و قانونی اختیارات ہوتے ہیں؟

Share

آج پاکستان کے 14ویں صدر کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ حکومتی اتحاد کی جانب سے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری صدارتی امیدوار ہیں۔ اُن کا مقابلہ سُنی اتحاد کونسل کے حمایت یافتہ اور پشتونخوا مِلی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے ہے۔

گذشتہ روز (جمعہ) کو صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو الوداعی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔

پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی نے 9 ستمبر 2018 کو پاکستان کے 13ویں صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

مگر اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے اور پاکستان کے جمہوری نظام میں ان کا کردار کیا ہوتا ہے۔

صدرِ پاکستان کو عوام کے منتخب نمائندے یعنی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران خفیہ رائے شماری کے ذریعے منتخب کرتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے صدر کے انتخاب والے دن ان تمام ایوانوں (قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ آف پاکستان) کو پولنگ سٹیشن کا درجہ دیا جاتا ہے اور پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر صدر پاکستان کے انتخاب میں ریٹرنگ آفیسر کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور پولنگ کے تمام تر عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔

صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے آئین کے مطابق پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے سادہ اکثریت یا 349 اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے۔

آئین کے مطابق، صدارتی انتخاب میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ گنا جاتا ہے۔

زرداری
،تصویر کا کیپشناتحادی جماعتوں کی جانب سے آصف علی زرداری صدارت کے عہدے کے امیدوار ہیں

صدارتی انتخاب کا طریقہ کار

تمام صوبائی اسمبلیوں کو یکساں نمائندگی دینے کے لیے ملک کی تین بڑی صوبائی اسمبلیوں کو ملک کی سب سے چھوٹی، بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد کے برابر 65 ووٹ حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ گنا جاتا ہے جبکہ باقی تینوں اسمبلیوں میں سے ہر ایک اسمبلی کی تعداد کو بلوچستان اسمبلی کی تعداد پر تقسیم کیا جاتا ہے اور جو عدد آتا ہے، اس اسمبلی کے اتنے اراکین کا مل کر ایک ووٹ بنتا ہے۔

مثلاً، پنجاب اسمبلی کی 371 نشستوں 65 سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کا جواب 5.7 آتا ہے۔ اس کا مطلب پنجاب اسمبلی کے 5.7 ارکان مل کر صدارتی الیکشن کا ایک ووٹ بناتے ہیں۔

تاہم اس وقت اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد مکمل نہیں۔ الیکشن میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے بعد از انتخابات سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی جس کے بعد سنی اتحاد کونسل نے اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص نشستیں میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے سُنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد، سنی اتحاد کونسل نے اس اقدام کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ جس پر عدالت نے سپیکر قومی اسمبلی کو خیبرپختونخوا کے کوٹے سے منتخب ہونے والی نو خواتین اراکینِ قومی اسمبلی، جو کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئی تھیں، کو حلف لینے سے روک دیا ہے۔

تصویر
،تصویر کا کیپشنسُنی اتحاد کونسل کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی ہیں

صدر پاکستان کے اختیارات

بطورِ آئینی سربراہ صدرِ پاکستان کی چند مواقع پر اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔

جب کسی بھی وجہ سے قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے یا اپنی آئینی مدت مکمل کر لے تو صدر ہی اپنی نگرانی میں عام انتخابات منعقد کرواتا ہے۔

صدر کسی بھی ایسے قانون کو یا اُس کی چند شقوں کو نظرِ ثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج سکتا ہے جو اُس کے پاس پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد دستخط کے لیے آیا ہو۔

جبکہ تمام وفاقی جامعات کا چانسلر صدرِ مملکت ہی ہوتا ہے۔

صدرِ پاکستان پارلیمان کے آئینی سال کے آغاز پر اُس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے جہاں ریاست کے رہنما اصول کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے۔

صدرِ پاکستان کے پاس سزا یافتہ مجرمان کو معاف کرنے یا اُن کی سزاؤں کو کم اور منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔

ایک عام تاثر ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صدر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حق کھو چکے ہیں جبکہ یہ حق اب بھی اُن ہی کے پاس ہے البتہ اب وہ یہ کام ازخود نہیں بلکہ وزیرِاعظم کی درخواست پر ہی کر سکتے ہیں۔ اب بھی اسمبلی صدرِ پاکستان کے حکم سے ہی تحلیل ہوتی ہے۔

صدرِ پاکستان مسلح افواج کے علامتی سپہ سالارِ اعلیٰ ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صدر مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری وزیرِاعظم کے مشورے کے مطابق کرنے کے پابند ہیں اور وہ افواج سے متعلق براہِ راست کوئی احکامات جاری نہیں کر سکتے۔

مختلف ممالک کو بھیجے جانے والے سفیروں کو حقوق تفویض کرنا اور ملک میں آنے والے مختلف سربراہانِ ریاست کی میزبانی کرنا بھی صدر کا اختیار ہے۔