منتخب تحریریں

 امریکی کرکٹ ٹیم کے مقابلے میں ہماری ناکامی

Share

اتوار کی صبح دیر سے اٹھنے کی عادت ہے۔ آج معاملہ مگر مختلف ہے۔میری بیٹیوں نے شام کو نیویارک میں ہونے والاپاک-بھارت کرکٹ میچ دوستوں سمیت دیکھنے کا اعلان کررکھا ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے بڑی سکرین کرایے پر لی گئی ہے۔ جسے لگانے کو مناسب جگہ کے تعین کی بحث جاری رہی۔ بعدازاں گھر کے مرکزی کمرے کا سارا فرنیچر ملازموں کے ہمراہ مل کر ’تماشائیوں‘ کے لیے جگہ بنائی جارہی ہے۔ میچ کے دوران مشروبات اور کھانے کا بندوبست بھی درکار ہے۔ گہماگہمی سے بے نیاز ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے لیکن میں نے یہ کالم لکھنے کو قلم اٹھالیا ہے۔
کرکٹ سے مجھے ککھ دلچسپی نہیں۔ عمر کے اس حصے میں پہنچ کر بھی سمجھ نہیں پایا کہ ایل بی ڈبلیو کے نام پر کوئی کھلاڑی پچ سے باہر کیوں اور کیسے نکال دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کور ڈرائیو اور آن سائیڈ جیسی بے شمار اصطلاحات ہیں جنھیں کرکٹ میچوں کے دوران ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے رواں تبصرہ کرنے والے استعمال کرتے ہیں تو بالکل سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا بیان کررہے ہیں۔ ذاتی لاتعلقی اور بے اعتنائی کے باوجود تاہم کرکٹ روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بن چکی ہے۔
گزری جمعرات ورلڈ کپ کے لیے ہوئے میچوں کے ابتدائی مراحل میں پاکستان اور امریکا کے مابین ٹاکرا ہوا تھا۔ اس کا آغاز پاکستانی وقت کے مطابق شام کے ساڑھے آٹھ بجے ہونا تھا اور عین آٹھ بجے پیر سے جمعرات کے روز میں ایک ٹی وی نیٹ ورک کے لیے لائیو ٹاک شو کرتا ہوں۔ میرے شو کے فارمیٹ میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بلاکر ایک دوسرے سے بحث کی راہ نہیں بنائی جاتی۔ میں اپنے ساتھی اینکر کے ساتھ بیٹھا دن بھر کی اہم ترین خبروں کو زیر بحث لاتے ہوئے ان کی مختلف جہتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جمعرات کی شام مذکورہ شو شروع ہونے کے چند ہی لمحات قبل تک لیکن میرے ساتھی اینکر اور پروگرام پروڈیوسر شو میں زیر بحث آنے والی خبروں پر توجہ ہی نہیں دے رہے تھے۔ ان کے مابین بحث یہ جاری رہی کہ ورلڈ کپ سیریز کا یہ میچ کون جیتے گا۔
ان کے مابین چھڑی بحث سے اکتاکرڈھٹائی پر مبنی اعتماد سے کرکٹ کے دائو پیچ سے نابلد ہونے کے باوجود میں نے ان دونوں کو یہ کہتے ہوئے چپ کروادیا کہ امریکا کسی زمانے میں برطانیہ کی کالونی ہونے کے باوجود اس کھیل سے قطعاً لاتعلق رہا ہے۔ میری دانست میں اس کا پاکستان سے مقابلہ یک طرفہ ہوگا۔ میرے ساتھیوں کو لہٰذا کون جیتے گا والے سوال پر مغز کھپاتے ہوئے وقت ضائع کرنے کے بجائے جمعرات کے شو کے موضوعات پر توجہ دینی چاہیے۔ وہ بددلی سے خاموش ہوگئے۔
ہمارا پروگرام آن ائیر ہوا تو اس کے دوسرے مرحلے کے دوران امریکی ریاست ٹیکساس کے ہوسٹن شہر میں میچ شروع ہوا تو میرے ساتھی اینکر کی نگاہیں سٹوڈیو میں رکھی ٹی وی سکرین پر مرکوز ہوگئیں۔اچانک میں نے محسوس کیا کہ وہ گھبرانا شروع ہوگیا ہے۔ بریک ہوئی تو علم ہوا کہ میچ کی ابتدا ہی میں ہمارے تین کھلاڑی آئوٹ ہوچکے ہیں۔ ٹاس جیت کر انھیں امریکا نے بیٹنگ کی دعوت دی تھی۔ ان کا اعتماد حیران کن حد تک درست ثابت ہوا کیونکہ میچ شروع ہوتے ہی وہ پاکستانی ٹیم کو تھلے لگانے میں کامیاب نظر آئے۔ میرا شو ختم ہونے تک پاکستان کی ٹیم میچ سنبھالتی نظر آئی۔ میرے ساتھی بھی گھبراہٹ سے آزاد ہوئے دکھائی دئے اور میں گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔
دفتر سے نکلتے ہی مگر ایک دوست کا فون آگیا۔ ان کے پاس لاہور سے آئے ایک اور دوست بیٹھے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئے کئی ماہ گزرچکے تھے۔ گاڑی ان کی جانب دوڑائی۔ وہاں کا رخ کرتے ہی اگرچہ دل میں خیال یہ بھی آیا کہ میرے دونوں دوست بھی کرکٹ کے دیوانے ہیں۔ میچ کے اختتام تک ان کے ساتھ گپ شپ کی گنجائش میسر نہیں ہوپائے گی۔ ان کی قربت ہی مگر میرے لیے کافی ہے۔ لہٰذا وہاں پہنچ گیا۔ سکرین پر آواز کے بغیر پاک-امریکا میچ چل رہا تھا۔ غالباً میرے دوست یہ طے کرچکے تھے کہ ابتدائی مراحل کی مشکلات کے باوجود پاکستان یہ میچ جیت ہی جائے گا۔ اب فقط یہ طے کرنا مقصود ہے کہ وہ کتنے سکور اور وکٹوں سے یہ میچ جیتے گا۔
میچ کے آخری مراحل میں لیکن ان کایقین متزلزل ہوتا محسوس ہوا۔ ٹی وی کی آواز کھول دی گئی اور فیصلہ کن مراحل کے سسپنس نے مجھے بھی پریشان کردیا۔ کرکٹ سے قطعی لاتعلقی کے باوجود ’دل ہے پاکستانی‘ بڑبڑاتے ہوئے تلملاہٹ کا اظہار کرتا رہا کہ کرکٹ میں قطعاً نووارد امریکا کی ٹیم پاکستان کی تجربہ کار ٹیم کے ساتھ میچ پھنسانے میں کیونکر کامیاب رہی ہے۔ میرا صبر تو اس وقت قطعاً جواب دے گیا جب میچ کے آخری اوور میں امریکا نے پاکستان کا طے کردہ ہدف برابر کرکے ’سپراوور‘ کے ذریعے جیت ہار کا فیصلہ یقینی بنایا۔
’دل ہے پاکستانی‘ اپنے اضطراب کے باوجود یہ سوچتے ہوئے دل کو تسلی دیتا رہا کہ سپر اوور کو ہماری ٹیم برسوں کے تجربے کی وجہ سے بآسانی جیت کے لیے استعمال کرپائے گی۔ مذکورہ اوور کے دوران مگر ہمارے بائولر نے قطعاً اناڑی ہونے کا ثبوت دیا۔ امریکا کے سپراوور میں دیے ہدف کو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے ذہن میں خیال آیا کہ پاکستان کی جیت یقینی بنانے کے لیے ہمارے کپتان بابر اعظم خود بلاپکڑے میدان میں آئیں گے اور خود کو جی دار کپتان ثابت کرتے ہوئے پاکستانیوں کو مایوس نہیں ہونے دیں گے۔ موصوف نے مگر مشکل کی اس گھڑی میں ’باجو کی گلی‘ سے راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دی اور پا کستان ہار گیا۔
کرکٹ سے کاملاً لاتعلق ہونے کے باوجود میں امریکا کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی ہار یہ کالم لکھنے تک ہضم نہیں کرپایا ہوں۔ کئی مہینوں سے دل ودماغ اداسی اور ناامیدی سے مردہ ہوچکے ہیں۔ دل کو تسلی دینے کے لیے مسکرانے کے بہانے لاعلاج مریضوں کی طرح ڈھونڈتا رہتا ہوں۔اتوار کی صبح سے میرے گھر میں ورلڈ کپ کے لیے ہونے والا پاک-بھارت میچ دیکھنے کے لیے جس ہل چل کا آغاز ہوا ہے طمانیت کا باعث ہے۔ خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے امید نہیں ہاری ہے۔ امریکا کے ہاتھوں ہوئی ذلت آمیز شکست کو وہ امید پرست دل سے بھلابیٹھے ہیں اور توقع باندھے ہوئے ہیں کہ اتوار کی شام پاکستان کی ٹیم اپنے ازلی حریف بھارت کو شکست سے دو چار کرتے ہوئے ان کا مان رکھ لے گی۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں مجھ جیسے عقل کے غلام ذہنوں پر چھائی افسردگی کے مقابلے میں ہماری نوجوان نسل کی امید پرستی ہی ہمارے معاشرے کا غالب حصہ رہے۔