مجرم کوئی ایک نہیں!
چند برس پیشتر میں نے گوجرانوالہ کے ایک حافظ قرآن کے حوالے سے ہونے والے سانحہ پر ایک کالم لکھا تھا ۔اس پر الزام عائد ہوا کہ اس نے قرآن کو نذرآتش کیا ہے، اس کے بعد مسجدوں سے توہین قرآن کے اعلانات ہونا شروع ہوئے اور مجاہدین اسلام سےکہا گیا کہ وہ گھروں سےباہر نکلیں اور اس مردود کو جہنم واصل کریں ،سو لوگوں نے اس حافظ قرآن کو کھینچ کر گھر سے باہر نکالا پھر اسے سڑک پر لٹا کر اس کے جسم پر پٹرول چھڑکا اور آگ لگا دی۔ صرف اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ اس کی جلی ہوئی لاش کو موٹر سائیکل سے باندھ کر پورے شہر میں گھمایا گیا تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں۔اس کے بعد متعدد ایسے واقعات ہوئے اور حافظ قرآن سمیت کسی ملزم کے اس مبینہ اقدام کی کوئی گواہی تھی نہ مقدمہ درج ہوا تھا اور نہ کوئی تفتیش ہوئی تھی۔ ان دنوں مدین میں ہونے والے اس نوع کے واقعہ کا بہت شہرہ ہے، جس کے مطابق سیاحت کے لئے آئے ہوئے سیالکوٹ کے ایک نوجوان پر یہ گھنائونا الزام عائد کیا گیا او رپھر اسے اس کے ہوٹل میں سے نکال کر جہاں وہ قیام پذیر تھا ،وہی بہیمانہ سلوک روا رکھا گیا جو اس سے پہلے دوسروں کے ساتھ کیا جاتا رہا تھا۔ اس طرح کے تمام واقعات کے بعد مرکزی ملزمان کے خلاف نہیں ’’ہجوم‘‘ کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی رہی ہے اور اس دفعہ بھی یہی ہوا نہ تو اس سے پہلے کسی کو اپنے کئے کی سزا ملی اور نہ اس بار ملے گی۔ چنانچہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا اور ہم ان بے گناہوں کے نوحے لکھتے رہیں گے جو ریاست کی مجرمانہ چشم پوشی کے نتیجے میں ہماری آنکھوں کےسامنے زندہ جلائے گئے !
ان دنوں ایسے واقعات کے عوامل پر درد دل رکھنے والے اظہار خیال کر رہے ہیں زیادہ تر کا خیال یہ ہے کہ یہ سب مذہبی انتہا پسندی کا کیا دھرا ہے۔ یہ خیال بہت حد تک ٹھیک ہے ہمارے نام نہاد’’علماء‘‘ کی اکثریت اپنے عقائد کا اظہار بہت جذباتی انداز میں کرتی ہے اور لوگوں کے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے حیدری سننے کے لئے من گھڑت روایات بیان کی جاتی ہیں ۔انہیں ایک اچھا مسلمان بنانے کی بجائے جذباتی مسلمان بنانے پر زور بیان صرف کیا جاتا ہے ۔ریاست کو دیگر تمام شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی اپنے کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ وہ نہ صرف اس مذہبی اشتعال انگیزی کو برداشت کرتی ہے بلکہ ان کی ’’گریڈنگ‘‘ کرکے مختلف عہدوں پر اکاموڈیٹ بھی کرتی ہے جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اشتعال دلانے والوں اور اشتعال میں آنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔
تاہم یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے دوسرا پہلو بھی بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ ملزم کو پکڑنے ،اس پر تیل چھڑک کر آگ لگانے والے چند لوگ ہوتے ہیں اور اس سارے شیطانی عمل کا تماشہ دیکھنے والے وہ لوگ جو روزانہ اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سو جاتے ہیں۔ غربت اور امارت میں ایک اور سو کا فرق انہیں اندر ہی اندر سلگا رہا ہوتا ہے وہ ایک طبقے کو رنگ رلیاں مناتے اور اپنے گھروں میں بھوک ناچتے دیکھتے ہیں، وہ اس طبقے کی شادیوں میں کروڑوں روپے اور بعض میں اربوں روپے کے اخراجات دیکھتے ہیں اور پھر ان کی نظراپنے گھروںپر پڑتی ہے جہاں بیٹیاں اور بہنیں اپنے ہاتھ پیلے ہونے کا انتظار کرتے کرتے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں،جہاں ان کے بچے سرکاری اسکول میں بھی داخلہ نہیں لے سکتے اور دوسرے طبقے کے بچے اندرون ملک اور بیرون ملک کروڑوں کے اخراجات کرکے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور پھر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں یا کسی بڑی کمپنی کے مالک بن کر فرعون کی طرح خلق خدا کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے بچے انگوٹھا چوستے چوستے لحد میں اتر جاتے ہیں ۔چنانچہ محرومیوں میں پسا ہوا یہ طبقہ اپنا غصہ اتارنے کے لئے کبھی گاڑیوں کو آگ لگاتا ہے اور کبھی انسانوں کو زندہ جلا دیتا ہے اسے ساری عمر اپنے اصل دشمن کی پہچان ہی نہیں ہوتی اور نہ ہونے دی جاتی ہے ۔
اور یہ صرف دو عوامل نہیں جس کے نتیجے میں اس نوع کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں بلکہ کچھ عوامل اور بھی ہیں بعض اوقات قبضہ گروپ بھی اس حوالے سے سرگرم عمل نظر آتا ہے تاہم اصل مجرم وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کو نشان عبرت نہیں بناتے جو ان سانحات کے پیچھے ہوتے ہیں۔ آپ ان کی گردنیں دبوچ لیں اس کے بعد آنکھیں یہ خون آشام مناظر کبھی نہیں دیکھیں گی!
اور اب آخر میں اپنی ایک غزل
بھٹک رہی ہے عطا خلق بے اماں پھر سے
سروں سے کھینچ لیے کس نے سائبان پھر سے
دلوں سے خوف نکلتا نہیں عذابوں کا
زمیں نے اوڑھ لئے سر پہ آسماں پھر سے
میں تیری یاد سے نکلا تو اپنی یاد آئی
ابھر رہے ہیں مٹے شہر کے نشاں پھر سے
تری زباں پہ وہی حرف انجمن آرا
مری زبان پہ وہی حرف رائیگاں پھر سے
ابھی حجاب سا حائل ہے درمیاں میں عطا
ابھی تو ہوں گے لب وحرف رازداں پھر سے