حسینہ واجد کا تختہ الٹنے کا بھارتی میڈیا کا بیان کردہ پس منظر۔
سوشل میڈیا پر چھائے تبصرہ نگاردورکی کوڑیاں لاتی ترجیحات کے ذریعے سازشی کہانیاں ایجاد کریں تو حیرت نہیں ہوتی۔ نفسیاتی اور سماجیاتی علوم کے مختلف پیمانوں سے ہنر ابلاغ کا جائزہ لینے والے عرصہ ہوا سمجھاچکے ہیں کہ ’’خبر‘‘ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر سودا وہی بکتا ہے جو اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے گروہوں میں سے کسی ایک کے دلوں میں موجود تعصبات کو جائز وواجب ٹھہراتے ہوئے انہیں مزید بھڑکانے کے لئے ’’خبر‘‘ اور ’’تجزیہ‘‘ استعمال کرے۔ روایتی میڈیا سے منسلک کئی بڑے نام اور صحافتی ادارے مگر سوشل میڈیا کی منطق کے روبرو سرجھکانے کو آمادہ نہیں۔ قابل ستائش استقامت سے روایتی صحافت کی اقدار وروایات برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
بھارتی صحافت کا کئی دہائیوں سے سنجیدہ ناظر وقاری ہوتے ہوئے میں وہاں کے میڈیا سے منسلک چند افراد کی دل سے قدر کرتا تھا۔ ہمیشہ اس گماں میں مبتلا رہا کہ وہ بدترین حالات میں بھی اپنے ذہن کو منطقی انداز میں استعمال کرتے ہوئے حالات کو غیر جانب دارانہ انداز میں خود سمجھنے اور ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیر کی رات مگر یہ سوچ بالآخر بچگانہ خوش فہمی محسوس ہوئی ہے۔
پیر کی دوپہر لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے کلرکہار کے قریب ٹی وی والوں نے اطلاع دی کہ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کی فوج نے بھارت بھجوادیا ہے۔ شیخ مجیب کی بیٹی اور سیاسی وارث سے نظر بظاہر زبردستی لیا گیااستعفیٰ میرے لئے حیران کن خبرنہیں تھی۔ گزرے برس کے ستمبر/اکتوبر سے بلکہ اس کا منتظر تھا۔ رواں برس کی جنوری میں ہوئے عام انتخابات سے قبل حسینہ واجد یہ طے کرچکی تھی کہ اسے اپنی جماعت عوامی لیگ کو مسلسل تیسری بار بھی ہر صورت برسراقتدار لانا ہے۔ اپنی مخالف جماعتوں کو وہ 2019ء سے ریاستی جبر کا ہرہتھکنڈہ استعمال کرتے ہوئے دیوار سے لگاچکی تھی۔ اس کے فسطائی اندازِ حکومت پر نام نہاد عالمی ضمیر نے توجہ دینے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔بنگلہ دیش کو بلکہ ہم جیسے ملکوں کے لئے قابل تقلید ماڈل بناکر پیش کیا جاتا رہا۔ من پسندیدہ اعدادوشمار کو دہراتے ہوئے ہمیں سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ بنگلہ دیش نے شاندار مگر قابل عمل منصوبے کے ذریعے اپنی آبادی کی بڑھوتی پر قابو پایا۔ افزائش آبادی کے مسئلے پر قابو پالینے کے بعد عورتوں کو معیشت سنوارنے کے عمل میں متحرک کیا۔ عورتیں اور مرد مل کر ملکی معیشت میں حصہ ڈالنے لگے تو بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء میں بھارت کے مقابلے میں بھی شرح نمو کے حوالے سے خوش حالی کی جانب دوڑتا نظر آنا شروع ہوگیا۔
حسینہ واجد 2009ء سے اقتدار میں تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن سے وہ ان لوگوں کو چن چن کر عبرت کا نشان بناتی رہی جنہوں نے بقول اس کے بنگلہ دیش کی ’’جنگ آزادی‘‘ کے دوران پاکستان کو یکجارکھنے کی کوشش کی تھی یا بنگلہ دیش کے آزاد ملک بن جانے کے بعد اس کے باپ کو قتل کیا اور بعدازاں شیخ مجیب کی بنائی عوامی لیگ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا۔ امریکہ اور یورپ کی حکومتوں، غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا کو یہ سب مگر دکھائی نہ دیا۔ اس کے فسطائی رویے ’’ایک پسماندہ ملک کو ترقی یافتہ‘‘ بنانے کے تناظر میں تقر یباََ جائز وواجب تصور کرتے ہوئے نظرانداز کردئے گئے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ گزشتہ برس کے مئی سے امریکی وزارت خارجہ نے جب حسینہ واجد کے اندازِ حکومت پر تحفظات کا کھلے عام اظہار شروع کردیا تو میرا ماتھا بھی ٹنکا تھا۔ اس سوال کا جواب مگر ڈھونڈنے میں ناکام رہا کہ بائیڈن انتظامیہ کو بنگلہ دیش میں جمہوریت کی ’’فکر‘‘ اچانک کیوں لاحق ہوگئی ہے۔ میری طرح امریکہ کی بنگلہ دیش میں ’’جمہوریت‘‘ کے بارے میں تشویش کے اظہار پر متعجب ہوئے چند صحافیوں نے اگرچہ یہ کہانی پھیلائی کہ امریکہ صاحب بہادر حسینہ واجد کے چین دوست رویے سے ناخوش ہے۔ ہمارے سی پیک کی طرح حسینہ واجد نے بھی چینی حکومت کے ’’ون بیلٹ-ون روڈ‘‘ والے منصوبے کے تحت بھارت اور بنگلہ دیش کو چین کے ساتھ برما کے زمینی راستوں کے ذریعے ملانے والے ایک پراجیکٹ پر تندہی سے کام کیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ اس کی وجہ سے حسینہ واجد سے ناراض ہوگیا ہے۔
حسینہ واجد نے ایک اور انداز میں اس سازشی کہانی کو سچاثابت کرنے کی کوشش کی۔ ’’ایک سفید فام مسیحی ملک‘‘یعنی امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ بنگلہ دیش کی بندرگاہ چٹاگانگ کے قریب موجود ایک جزیرے کو ’’آزاد مسیحی ملک‘‘ بنانا چاہ رہا ہے۔ اقتدار بچانے کو بے قرار ہوئی حسینہ واجد امریکہ کو بنگلہ دیش کے ایک جزیرے کو ’’جداگانہ مسیحی مملکت‘‘ کی سازش میں مصروف بتاتے ہوئے یہ سادہ حقیقت تسلیم کرنے سے قاصر رہی کہ اقتدار میں 15برس مکمل کرنے کے بعد وہ اور اس کی حکومت ٹھگوں کے ایک ٹولے کی طرح اپنے ملک پر قابض ہے جو بنگلہ دیش کی اعدادوشمار کے حوالے سے نظر آتی اقتصادی خوش حالی کو عوام کے وسیع تر حلقوں تک پہنچانے کو تیار نہیں۔
بنگلہ دیش کی قابل رشک نظر آتی اقتصادی ترقی کی اصل کلید بنیادی طورپر ٹیکسٹائل کے وہ کارخانے تھے جہاں عورتوں کی ایک کثیر تعداد خرکار کیمپوں میں مشقت کرنے والے افراد کی طرح خون پسینہ ایک کرتے ہوئے امریکہ اور یورپ کی مارکیٹوں میں بکنے والی مصنوعات تیار کرتی تھیں۔ کرونا کی وبا نے بنگلہ دیش میں تیار ہوئی سستی مصنوعات کی طلب بھی عالمی منڈی میں کم کردی۔ روس،یوکرین اور اسرائیل کی غزہ کی پٹی میں جاری جنگوں نے مذکورہ طلب کو بالآخر جامد کردیا۔ مذکورہ جنگوں کی وجہ سے ابھری مہنگائی کی لہر کاحسینہ واجد کی حکومت کے پاس کوئی علاج موجود نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ رواں برس کے ابتدائی مہینے میں ہوئے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے ذریعے اقتدار کو مزید 5برس تک قائم رکھنے کو ڈٹ گئی۔
اس کی احمقانہ اور بے رحمانہ ضد نے طلبا تحریک کا آغاز کیا جس کا بنیادی نکتہ سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کو یقینی بنانا تھا۔ اس سادہ نکتے کو تسلیم کرنے کے بجائے حسینہ واجد نے بدترین ریاستی جبر کے استعمال کے ذریعے طلبا تحریک کو دبانا چاہا۔ ریاستی وحشت مگر بالآخر عوامی طاقت کے روبرو ڈھیر ہوگئی۔ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف چلائی تحریک کے اسباب ہر حوالے سے بنیادی طورپر اقتصادی اور رزق کمانے کے وسائل تک محدود ہیں۔ پیر کی رات تک مگر بھارتی میڈیا میں کم از کم میری نگاہ میں ’’معتبر اور سیانے‘‘ صحافی اور تجزیہ کار شمار ہوتے کہانی یہ پھیلانے میں مصروف نظر آئے کہ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ درحقیقت امریکہ نے سی آئی اے کو متحرک کرنے کے ذریعے الٹا ہے۔ حتمی ہدف اس کا بنگلہ دیش میں ایک ’’کٹھ پتلی حکومت‘‘ مسلط کرنے کے بعداسے بھارت پر دبا? بڑھانے کے لئے استعمال کرنا ہے۔
رواں صدی کے آغاز سے کم از کم 2015ء تک بھارت اور امریکہ کے مابین تیزی سے بڑھتے اور گہرے ہوتے تعلقات کا خارجہ امور کے رپورٹر کی حیثیت سے بغورمشاہدہ کیا ہے۔ ذہن میں جمع ہوئے مشاہدات کو نہایت خلوص اور لگن سے ٹٹولا۔ تمام تر کاوش کے باوجود مگر ایک ایسا نکتہ بھی تلاش نہیں کرپایا جو بائیڈن انتظامیہ کو مجبور کرسکتی تھی کہ وہ بھارت کو ’’بندے کا پتر‘‘ بنانے کے لئے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت مسلط کرے۔ بھارتی میڈیا کے بے شمار ’’معتبر‘‘ نام مگر یہ کہانی پیر کی شام سے مستقل دہرائے چلے جارہے ہیں۔