چند حکومتی فیصلوں پر پیپلز پارٹی کی “اچانک” حیرانی
اسلام آباد آئے مجھے ڈیڑھ سال گزرگیا تو ایک روز اچانک خیال آیا کہ لاہور سے یہاں منتقل ہوجانے کے بعد ایک بار بھی بتی نہیں گئی۔ میرے بچپن میں لوڈشیڈنگ متعارف نہیں ہوئی تھی۔ ہفتے میں لیکن کم از کم ایک بار ہمارے گھر میں دو سے تین گھنٹے تک بجلی میسر نہ ہوتی۔ وجہ اس کی یہ بتائی جاتی کہ گھروں کو بجلی پہنچانے والی لائنیں قیام پاکستان سے قبل بچھائی گئی تھیں۔ ان کے ذریعے جو بجلی آتی غالباََ اس کا وولٹیج بھی مختلف تھا۔ جو نظام تھا اسے ڈی سی (DC)پکارتے تھے۔ مجھے آج تک علم نہیں کہ یہ کس کا مخفف ہے۔ آٹھویں یا نویں جماعت میں تھا تو خبر ملی کہ ڈی سی نظام اب اے سی (AC)میں بدل رہا ہے۔ گھروں میں نصب جو تاریں اور پلگ وغیرہ ہیں وہ نئے نظام میں فٹ نہیں ہورہے۔ گھر کے اندر بجلی فراہم کرنے والے تار اور پلگ وغیرہ بدلنا پڑے۔ اس کے باوجود بجلی عموماََ چلی جاتی کیونکہ محلے کے زیادہ تر گھر پرانے نظام ہی سے گزارہ چلانے کو بضد تھے۔ ان کی ضد ’’جدید‘‘ تقاضوں کے روبرو سرنگوں ہوئے ہم جیسے گھرانوں کی اذیت کا سبب ہوتی۔اسلام آباد میں بجلی غائب نہ ہونے کے احساس کے علاوہ 1976ء کے موسم سرما کی ایک شام میں ایف سیون سیکٹر میں موجود کرائے پر لئے گھر میں جانے کے لئے ایف 6کی سپرمارکیٹ کے باہر بہت دیر تک ٹیکسی کا انتظار کرتا رہا۔ دریں اثناء ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔ مجھے خوف لاحق ہوا کہ یہ تیز بارش میں بدل سکتی ہے۔ اس سے بچنے کے لئے فیصلہ کیا کہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے پیدل ہی گھر کی جانب چل پڑوں۔ 25سے 30منٹ تک چلتے ہوئے کسی ایک مقام پر بھی کوئی پولیس والا نظر نہیں آیا جو مجھے روک کرپوچھتا کہ شام کے اس پہر ’’آوارہ گردی‘‘ کیوں ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب میں بلاجواز ’’آوارہ گردی‘‘ قابل گرفت تصور ہوتی تھی۔اسلام آبادکے تھانوں سے واسطہ میرا 1981ء کے آغاز میں شروع ہوا۔ ’’دی مسلم‘‘ کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں شہری امور کے علاوہ اسلام آباد میں سماجی وسفارتی تقاریب ہی نہیں جرائم کے متعلق بھی خبریں دینا چاہتا تھا۔ میرے سینئر چاہتے تھے کہ میں فقط ادب وثقافت کے موضوعات پر ہی توجہ مرکوز رکھوں۔ سفارتی تقاریب پر لکھنے کی روایت میں نے ایجاد کی تھی۔ اس کا ریسپانس قارئین کی جانب سے بہت اچھامل رہا تھا۔ آتش مگر ان دنوں ضرورت سے زیادہ جوان تھا۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اپنا وقت اور توانائی کیسے خرچ کروں۔ کرائم رپورٹنگ کو بھی ڈٹ گیا اور اتفاق یہ بھی ہوا کہ پاکستان کے مدیروں کی تنظیم اے پی این ایس کی جانب سے جس خبر پر مجھے سال کے بہترین رپورٹر کا اعزاز 1984ء کے برس ملا وہ اسلام آباد میں پولیس کے ہاتھوں چوری کے الزام میں گرفتار ہوئے ایک ملزم کی تھانے میں تشدد کی وجہ سے موت کے بارے میں تھی۔ آج سے تقریباََچار دہائیاں قبل کا اسلام آباد بڑھاپا نازل ہوتے ہی بہت شدت سے یاد آتا ہے۔ چند روز قبل آپ کو تفصیلاََ بیان کیا تھا کہ کیسے تقریباََ ہر دوسرے دن اب مجھے گھر سے نکل کر ایک ٹی وی چینل کے دفتر پہنچنے کے لئے 20منٹ کے بجائے ڈیڑھ گھنٹہ صرف کرنا پڑتا ہے۔ وجہ اس کی اسلام آباد کا معروف ڈی-چوک ہے۔ پارلیمان، ایوانِ صدر اور سپریم کورٹ کی پرشکوہ عمارتوں کے سامنے واقع اس چوک کو عمران خان نے 2014ء میں 126دنوں تک پھیلے دھرنے کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں روشناس کروایا تھا۔ وہ اسے قاہرہ کا ’’التحریر اسکوائر‘‘ بنانا چاہ رہے تھے۔ ڈی- چوک مگر ڈی چوک ہی رہا جہاں ہوئے مظاہرے نواز اور عمران حکومت کو فقط وقتی درد سرہی پہنچاتے رہے ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں سے مگر ڈی چوک میں ہوا ہر دھرنا یا مظاہرہ پورے اسلام آباد کی روزمرہّ زندگی کو مفلوج بنانا شروع ہوگیا ہے۔بدھ کے روز بھی ایسے ہی ہوا۔ یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کے ملازمین کثیر تعداد میں نام نہاد ’’ریڈ زون‘‘ میں در آئے۔ مظاہرین اس زون یعنی ڈی-چوک میں پہنچ بھی جائیں تو باقی شہر کی زندگی رواں رہنا چاہیے۔ پولیس مگر مظاہرین کے ریڈ زون میں داخل ہوجانے کے بعد بھی اس علاقے کی جانب جانے والی تمام سڑکوں کو بلاک کردیتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ اذیت ان شہریوں کا مقدر ہوتی ہے جو اسلام آباد کے نام نہاد ’’سگنل فری‘‘ بلیوایریا کے ذریعے اپنے گھروں یا مختلف دفاتروں سے نکلنا یا وہاں پہنچنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔پولیس سے کوئی یہ پوچھنے کی جرات ہی نہیں دکھارہا کہ تمہاری تمام تر پھرتیوں کے باوجود مظاہرین کسی نہ کسی صورت ریڈزون میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس زون کو ’’سیل‘‘ کرنے کیلئے جوکنٹینرلگائے جاتے ہیں وہ اکثرناکارہ ثابت ہوتے ہیں۔ مظاہرین اگرڈی چوک تک پہنچ جائیں تو باقی سڑکوں کو ’’سیل‘‘ کرکے مستعدی دکھانے کے ڈرامے کیوں رچائے جاتے ہیں۔روزمرہّ امور نبٹانے کی خاطر ڈی چوک میں ہوئے دھرنے کی وجہ سے ذلیل وخوار ہوتے شہریوں کی پریشانی کو ذاتی طورپر محسوس کرتے ہوئے بھی بطور صحافی میں اس وقت بہت حیران ہوا جب اعجاز جاکھرانی پیپلز پارٹی کے تین دیگر رہ نمائوں سمیت یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کے مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے وہاں پہنچ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی جماعت میں اب چند ہی لوگ باقی رہ گئے ہیں جنہیں اس جماعت کے بنیادی چار اصولوں میں سے ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ یاد رہ گیا ہے۔ قصور کے چودھری منظور’’دیگ میں بچے‘‘ ان دانوں میں شامل میں۔ موصوف نے مظاہرین سے ’’انقلابی‘‘ خطاب بھی کیا۔ یوٹیلٹی سٹورز کو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ’’وراثت‘‘ بتایا جس کا تحفظ پیپلز پارٹی لازمی گردانتی ہے۔ چودھری منظور کی پرجوش تقریر کے کچھ حصے میں نے سوشل میڈیا پر سنے تو اِدھر اْدھر فون گھمائے۔ پتہ یہ چلا کہ ’’کامریڈ منظور‘‘ کی پرواز ’’سولو‘‘ نہیں تھی۔خبر مصدقہ ذرائع سے بلکہ یہ ملی ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہ نما بلاول بھٹو زرداری نے اعجاز جاکھرانی ،چودھری منظور اور اسد نیازی کے علاوہ نفیسہ شاہ صاحبہ کو بذاتِ خود مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے بھیجا تھا۔ انہیں وہاں بھیجنے پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ شہباز حکومت سے بھی اعلیٰ سطحی روابط ہوئے۔بلاول بھٹو زرداری کو بتایا گیا کہ اسحاق ڈار ’’جلدہی‘‘ ان سے رابطہ کریں گے اور مظاہرین کی دلجوئی کا مناسب راستہ ڈھونڈا جائے گا۔ بدھ کی رات گیارہ بجے تک مجھے متوقع رابطے کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ سوال محض یہ اٹھانا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپنے اراکین کی تعداد کو شہباز حکومت کے لئے بیساکھیوں کی صورت استعمال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کواس حکومت کے چند فیصلے ’’اچانک‘‘ کیوں حیران وپریشان کردیتے ہیں۔