انصاف کا جادو گھر!
یقین ہے کہ میرا آج کا کالم میرے بیشتر قارئین کو پسند نہیں آئے گا کیونکہ اس میں کوئی بری خبر نہیں ہے، پاکستان کے بارے میں کوئی منحوس تجزیہ شامل نہیں ہے۔
اس کالم میں عوام کی مایوسی میں اضافہ کرنے والی کوئی بات نہیں بلکہ الٹا انہیں ایک اچھی خبر سنانے جا رہا ہوں اور وہ یہ کہ اگرچہ ہمارے ہاں بہت سے اداروں کی وجہ سے سارا نظام تلپٹ ہوتا چلا جا رہا ہے، حالانکہ ان اداروں کا کام نظام کو بہتر نہیں بہترین بنانا ہوتا ہے مگر ایسے حالات میں ایک ایسا ادارہ بھی موجود ہے جو مختلف اداروں کی ناانصافیوں کی تلافی کے لئے کئی عشرے قبل وجود میں لایا گیا تھا مگر بیشتر لوگوں کو یا تو اس کا علم نہیں اور یا وہ یہ سمجھ کر اسے نظر انداز کرتے ہوں گے کہ یہ کونسا آسمان سے اترا ہوا ادارہ ہے، جو دوسروں سے مختلف ہے۔ بہرحال عوام کو نوید ہو کہ یہ آسمانی تو نہیں، زمینی ادارہ ہی ہے اور یہ محتسب کا ادارہ ہے۔ محتسب کو ہمارے شاعروں نے بہت بدنام کیا ہے مثلاً
ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا
مگر جس حاکم سے آپ نے فریاد کرنی ہے وہ سیّد بادشاہ ہے۔ اس کا نام سیّد طاہر شہباز ہے اور وہ وفاقی محتسب ہیں۔
بیشتر پاکستانیوں کو شاید اس امر پر حیرت ہو کہ انصاف مہیا کرنے والے اس ادارے سے انصاف طلب کرنے کے لئے انہیں وکیلوں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، صرف ایک سادہ کاغذ پر اپنی شکایت لکھ کر وفاقی محتسب کو ارسال کر دینا ہے، اس کے بعد آپ جانیں اور سیّد بادشاہ جانے! صرف 2019میں محتسب کو 74869شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 97فیصد فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہو گیا ہے۔
سب سے زیادہ شکایات بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف تھیں جن کی تعداد 32241ہے۔ سوئی گیس کے خلاف 9598 شکایات درج ہوئیں، ان کے علاوہ دس ادارے جن کے خلاف سب سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں ان میں نادرا، پاکستان پوسٹ آفس، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، پاکستان بیت المال، پاکستان ریلوے، اسٹیٹ لائف انشورنس، آئی بی (یہ آئی جی نہیں، آئی بی ہے ٹائپسٹ صاحب) بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام اور ای او بی آئی شامل ہیں۔
ان شکایات میں سے 23281شکایات پر وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے وفاقی اداروں کو ہدایات اور سفارشات جاری کیں جن میں سے 20658پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔ کوئی حرج نہیں اگر اس عمدہ کارکردگی پر سیّد بادشاہ کی تحسین کی جائے۔
قارئین کو شاید اس پر بھی خوشگوار حیرت ہو کہ وفاقی محتسب کو شکایت موصول ہوتے ہی اسی روز بغیر کسی تاخیر کے اس پر کارروائی شروع کر دی جاتی ہے اور اگلے روز شکایت گزار کو ایس ایم ایس کے ذریعے اس کی شکایت نمبر اور تاریخ سماعت کی اطلاع دے دی جاتی ہے اور ساٹھ دنوں کے اندر ہر شکایت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔
یہ تو کوئی مزا نہ آیا، اگر دادے کی شکایت کا فیصلہ اس کے پوتے کی عمر کے آخری حصے میں ہو تو پتا بھی چلے کہ عدالت کتنے ’’غور و خوض‘‘ کے بعد کسی نتیجے پر پہنچی ہے، یہاں آپ ساٹھ دنوں میں قصہ کیا قضیہ ہی ختم کر دیتے ہیں۔ اور ہاں ان فیصلوں پر کوئی بھی فریق نظرثانی کی درخواست کر سکتا ہے اور اس کا فیصلہ بھی 45دنوں میں کر دیا جاتا ہے۔
ایک اور مزے کی بات، فیصلوں کے خلاف اپیل چونکہ صدرِ پاکستان کو کی جاتی ہے مگر صرف 317فیصلوں کے خلاف اپیل کی گئی جن میں سے صدرِ پاکستان نے صرف 23اپیلیں قبول کیں جو شکایت کنندگان نے کی تھیں۔
اور اب ایک اور بات! عوام الناس کو ان کے گھروں کی دہلیز تک انصاف پہنچانے کے لئے ایک پائلٹ پروجیکٹ بھی شروع کیا گیا ہے جس کے تحت وفاقی محتسب کے افسران تحصیل ہیڈ کوارٹرز میں جا کر عام شہریوں سے رجوع کرتے ہیں اور ایسی شکایات کا فیصلہ 45دنوں میں کر دیا جاتا ہے۔
2019کے دوران ان افسران نے تحصیل اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر خود جا کر سماعت کی اور 5374شکایات کا ازالہ کیا، بلّے بھئی بلّے! اور ہاں اگر ادارہ کی سطح پر شکایات 30دنوں میں حل نہ ہوں تو وہ ایک خودکار نظام کے تحت وفاقی محتسب کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم پر آ جاتی ہیں اور ان پر فوراً کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔
آخر میں پنشنروں کے لئے ایک قابلِ قدر خدمت کا ذکر! قبل ازیں پنشنرز کو نیشنل بینک سے اپنی پنشن کی وصولی کے لئے گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا تھا، وفاقی محتسب نے اس صورت حال کا نوٹس لیا، اب پنشن ان کے اکائونٹ میں چلی جاتی ہے جو اے ٹی ایم کے ذریعے بھی وصول کی جا سکتی ہے۔
لوگوں کو پوری طرح علم نہیں کہ پاکستان میں کچھ ادارے ان کی بہت سی پریشانیاں ختم کر سکتے ہیں جن میں سے میں نے آج صرف وفاقی محتسب کے ادارے کا ذکر کیا ہے، ورنہ ایک ادارہ صارفین کے ساتھ دکانداروں کی بےایمانیوں کے تدارک کے لئے بھی موجود ہے، جس کا ذکر پھر کبھی سہی!