قبائلی لشکر بنے لاہور کے ینگ ڈاکٹر اور وکلاء
لاہور میں وکلاء کا ایک گروہ بدھ کے روز وحشی ہوئے غول کی مانند جس اندازمیں پنجاب میں دل کے مریضوں کے لئے بنائے جدید ترین ہسپتال پر حملہ آور ہوا، اس کی شدید ترین مذمت ہر صاحبِ دل پر لازم ہے۔ یہ بات بھی مگر حقیقت ہے کہ وکلاء اور ڈاکٹروں کے مابین جھگڑا ’’قبائلی‘‘ نوعیت اختیار کرچکا تھا۔ تخت یا تختہ والی قبائلی جنگ میں کسی ایک فریق کا بیانیہ ہرگز مکمل سچ نہیں ہوتا۔ ان کے جھگڑے میں ’’کون سچا ہے کون جھوٹا‘‘ طے کرنا قطعاََ ناممکن ہوجاتا ہے۔
انسانی معاشرے کے ارتقاء کی بدولت ’’ریاست‘‘ کے تصور کا نمودار ہونا درحقیقت کسی بھی ملک کے شہری کو یہ اطمینان دلانا چاہتا تھا کہ اگر اسکے ساتھ ’’زیادتی‘‘ ہو تو اس کا ’’بدلہ‘‘ لینے کے لئے ’’شہری‘‘ کو اپنے ’’قبیلے‘‘سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔ فقط ریاست اور عدالت ہی کو یہ حتمی اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کے ساتھ ہوئی ’’زیادتی‘‘ کے ازالے کی کوئی صورت نکالے۔ خطا کے مرتکب فریق کا تعین کرنے اور سرزد ہوئے جرم کے مطابق ’’سزا‘‘ کو یقینی بنائے۔
بدھ کے روز ریگولر اور سوشل میڈیا پر وکلاء کی جانب سے ہوئے حملے کے بارے میں بنائی ویڈیوز پرتوجہ دیتے ہوئے ہماری اکثریت مگر ’’ریاست‘‘ کے تصور سے بے خبر نظر آئی ہے۔ لاہور ایک قدیمی شہر ہے۔انگریزوں نے اس شہر میں امنِ عامہ کو یقینی بنانے کے لئے پولیس کا جو نظام متعارف کروایا تھا اس کی بنیاد مغل سلطنت کے دور سے جاری ’’اخبار‘‘ کا نظام تھا۔
پولیس کی ایک سپیشل برانچ ہوا کرتی ہے۔ اس کے پاس انتہائی زیرک ’’مخبروں‘‘ کی کماحقہ تعداد موجود ہے۔ یہ ’’مخبر‘‘ عام افراد کی طرح سارا دن خلقِ خدا کے درمیان گزارتے ہیں اور ’’روزنامچوں‘‘ کی صورت انتظامیہ کو ’’پبلک موڈ‘‘ کے بارے میں باخبررکھتے ہیں۔میرا اصرار ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود پنجاب پولیس کی ’’سپیشل برانچ‘‘ ان دنوں بھی عوامی صورت حال کے بارے میں متاثر کن حد تک باخبر ہے۔ انگریزسے کئی صدی قبل جاری ہوا ’’ڈاک‘‘ کا نظام ابھی تک Autoپر چل رہا ہے۔
میں یہ بات تسلیم کرنے سے ڈھٹائی کی حد تک انکار کرتا ہوں کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے سے کئی گھنٹے قبل ہی مقامی انتظامیہ کے اعلیٰ ترین افسروں کے ڈیسکوں پر یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ لاہور میں وکلاء کا ایک گروہ غول کی صورت جمع ہوکر مذکورہ ہسپتال پر یلغار کی تیاری کررہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی تک غول کی صورت پہنچنے کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ مذکورہ ہسپتال کو بروقت Cordon Offکیوں نہ کیا جاسکا۔ وکلاء کے ہجوم کو روکنے کیلئے سرعت سے کوئی Red Line کیوں نہ لگائی جاسکی جسے پارکرنا ناممکن بنادیا جاتا۔
میری دانست میں بروقت اطلاع کے باوجود ان دو اقدامات کی عدم موجودگی واضح الفاظ میں ہمیں پیغام دیتی ہے کہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے میں Policingکا نظام قطعاََ مفلوج ہوچکا ہے۔امنِ عامہ کو یقینی بنانا بنیادی طورپر ’’پیش بندی‘‘ کا کھیل ہے۔ اس پیش بندی کے لئے ’’مخبروں‘‘ کی فراہم کردہ اطلاعات کی ہمہ وقت Monitoringدرکار ہے۔اس مانیٹرنگ کے طفیل چند ’’حفاظتی اقدامات‘‘ کی سفارش ہوتی ہے۔سینئر افسروں کو ان کی فقط منظوری دینا ہوتی ہے۔
بدھ کے روز لاہور میں ہوا واقعہ ’’وکلا گردی‘‘ سے کہیں زیادہ پریشان کن پیغام یہ دیتا ہے کہ انتظامی اعتبار سے لاہور کا اب کوئی ’’والی وارث‘‘نہیں رہا۔ ’’مخبروں‘‘ کا Autoکی بنیاد پرجاری نظام بھی انتظامیہ کی بروقت توجہ حاصل نہیں کرپاتا۔ انتظامیہ اپنے فرائض ادا کرنے میں غافل نظر آئے تو سیاسی قیادت بھی ہوتی ہے۔’’عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ‘‘ قیادت کا اپنا بھی ایک جاسوسی نیٹ ورک ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ ابھی تک اس ضمن میں کوئی مؤثر نیٹ ورک بنا نہیں پائے ہیں۔
عمران خان صاحب مگر بضدہیں کہ وہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو اسلام آباد کے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں بٹھائے اپنے چہیتے افسروں کے ’’ریموٹ‘‘ کے ذریعے کنٹرول کریں گے۔ان کے لگائے ’’محنتی اور پاکباز‘‘ چیف سیکرٹری اور آئی جی مقامی سیاستدانوں کو قطعاََ نظرانداز کرتے ہوئے فقط ’’میرٹ‘‘ کی بنیادپر فیصلے کرتے ہوئے پنجاب کو ویسا ہی ’’مثالی‘‘ صوبہ بنادیں گے جیسا مبینہ طورپر پرویز خٹک کی مخلوط حکومت کے زمانے میں خیبرپختونخواہ 2008سے 2013تک نظر آتا تھا۔ پنجاب میں ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر لیکن 15مہینوں میں پانچواں آئی جی لگانا پڑا ہے۔
’’میرٹ‘‘ کی اس فراوانی کے باوجود پنجاب میں انتظامی معاملات دُگرگوں صورت اختیار کررہے ہیں۔ ’’وائسرائے‘‘ کی کمانڈ میں چلتا ہوا نظام عوام کی اکثریت کو زبوں حالی سے دوچار کئے ہوئے ہے۔ اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنے کے لئے مگر کوئی آمادہ نظر نہیں آرہا ہے۔ ہم صحافیوں سے توقع بلکہ یہ کی جارہی ہے کہ شہزاد اکبر صاحب کی ’’نگاہِ جیمزبانڈ‘‘ نے شہباز شریف کی جو TTsدریافت کی ہیں ان کا ڈھول بجائیں۔دس برس تک پنجاب کے ’’خادم اعلیٰ‘‘ ہونے کے دعوے دار کو ’’کمیشن خور‘‘ ثابت کریں جو ہمہ وقت ’’حرام سے کمائی دولت‘‘ کو ’’لانڈر‘‘ کرنے کے جنون میں مبتلا رہا تھا۔ عثمان بزدار کے ’’اچھے کاموں‘‘ کی تشہیر کریں۔ ان کی کوتاہیوں کو یہ سوچتے ہوئے نظر ا نداز کریں کہ وہ اپنے سرپرنازل ہوئی ’’ذمہ داری‘‘ کو ایمانداری سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
شہباز شریف نے گورننس کیلئے دس برس تک پنجاب میں جو Bureaucratic Centricنظام چلایا اس کالم میں مستقلاََ اسے تنقید کانشانہ بناتا رہا ہوں۔ حقیقت مگر یہ بھی رہی کہ اس برس کے مارچ سے اپریل تک مجھے ہر ہفتے تین دن کے لئے لاہور جانا ہوتا تھا۔ لاہور میں اپنے قیام کے دوران مجھے قدیمی محلوں میں جاکر تھڑوں پر بیٹھے لوگوں کی گفتگو سننے کی علت لاحق ہوجاتی ہے۔ ان کی اکثریت شہباز شریف کو Miss کرتی سنائی دیتی تھی۔لاہور میں کوڑے کے ڈھیر سے لوگ شکوہ کناں نظر آئے۔ ہسپتالوں میں سستے علاج کی سہولتوں کے معدوم ہونے کے بارے میں دہائی مچاتے تھے۔
شہزاد اکبر صاحب کی بے پناہ محنت سے شہباز شریف کا جو ’’اصل روپ‘‘ عمران خان صاحب نے دریافت کیا اس کا حساب لینے کے لئے احتساب بیورو ہے۔ ایف آئی اے بھی اب پانامہ فیم واجد ضیاء صاحب کے زیر کمان آگیا ہے۔شہباز صاحب کو احتساب کے شکنجے سے بچانے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ آگے بڑھیں اور انہیں عبرت کا نشان بنائیں۔
یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود رہے گا کہ فقط لاہور ہی نہیں پورے پنجاب کا ان دنوں ’’والی وارث‘‘ کون ہے۔بدھ کے روز لاہور میں جو واقعہ ہوا ہے اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ لوگوں نے ریاستی اداروں پر اعتماد کھودیا ہے۔دورِ حاضر کے نام نہاد ’’شہری‘‘ اپنے ساتھ ہوئی مبینہ ’’زیادتیوں‘‘ کا ازالہ ڈھونڈنے کی امید سے محروم ہوگئے ہیں۔ریاستی اداروں کے توسط سے ’’انصاف‘‘ طلب کرنے کے بجائے اپنی ’’بے عزتی‘‘ کا بدلہ لینے کیلئے ’’شہری‘‘ اب قبل از ریاست انسانوں کی طرح اپنے ’’قبیلہ‘‘ سے رجوع کرتا ہے۔لاہور کے ینگ ڈاکٹراور وکلاء جدید دور کے ’’پروفیشنل‘‘ نہیں رہے۔قبائلی لشکر بن چکے ہیں۔ان کے Trufsجن کی ’’حفاظت‘‘ کے لئے ’’لشکر‘‘ ہیں۔بجائے رپٹ لکھوانے کے ’’شہری‘‘ اب ’’یلغار‘‘ کے ذریعے’’بدلہ‘‘ لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔پاکستان ’’نیا‘‘ نہیں ہورہا تیزی سے ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے۔زمانہ قدیم کی ان روایات کی جانب جہاں ’’فرد‘‘ اپنے تحفظ کے لئے فقط اپنے ’’قبیلے‘‘ہی سے رجوع کرسکتا تھا۔
پنجاب میں انتظامی اعتبار سے ان دنوں جو بدحالی نظرآرہی ہے وہ درحقیقت ’’ریاست‘‘ کو آخری دم والی ہچکیاں لیتی دکھارہی ہے۔ہوسکتا ہے کہ ’’خادم اعلیٰ‘‘ کی ’’گورننس‘‘ فقط ’’شوبازی‘‘ ہو۔2002سے 2008 تک پنجاب کو مگر چودھری پرویز الٰہی نے بھی مناسب انداز میں چلایا تھا۔ عمران صاحب اور ان کی تحریک انصاف کو اگر اس صوبے کے معاملات سمجھ نہیں آرہے تو خیبرپختونخواہ سے مستعار لئے ’’اچھے افسروں‘‘ کے ذریعے پنجاب کو ریموٹ کنٹرول کرنے کے بجائے اس ’’اتحادی‘‘ سے رجوع کیوں نہیں کیا جارہا؟