ای لائبریری‘ بک پوسٹ اور وزیراعظم ہاؤس والی یونیورسٹی
وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہونے کے بعد عمران خان کی ماضی کی باتوں کے حوالے سے ان کے موجودہ طرزِ عمل کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے پنجابی کا ایک محاورہ یاد آ جاتا ہے۔ محاورہ ہے ”راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے‘‘۔ یعنی پتا تب چلتا ہے اگر بندے نے یا توکسی کے ساتھ سفر کیا ہو یا لین دین کیا ہو۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ جب تک آپ کا کسی سے پالا نہیں پڑتا آپ اسے جاننے کا یا سمجھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ یہی حال اپنے عمران خان کا اور وزارتِ عظمیٰ کا ہے۔ جب تک وہ وزیراعظم نہیں بنے تھے انہیں وزارتِ عظمیٰ کے سر پیر کا پتا نہیں تھا۔ انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ وزارتِ عظمیٰ دراصل کس چڑیا کا نام ہے۔ انہیں بس یہ پتا تھا کہ میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور ان کی جگہ انہیں اس کرسی پر بیٹھنا ہے اور ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانی ہیں۔ اس منصب کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ یہ غالباً ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور حکمرانی کی مجبوریوں سے تو مکمل طور پر نا آشنا تھے۔حکومت ِوقت کو کیا مشکلات لاحق ہوتی ہیں‘ یہ ان کے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا اور ملک چلانا کس قدر مشکل اور عرق ریزی کا کام ہے یہ کبھی ان کے خواب میں بھی نہیں آیا تھا۔
خان صاحب نے مزے سے بیس سال ٹی وی ٹاک شوز میں رنگ جمایا‘ مخالفین کو کرپشن کے ڈنڈے سے جی بھر کر کھڑکایا۔ باتوں کا حلوہ پکایا اور تقریروں کا سالن بنایا۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔وزیراعظم بننے کا شوق بھی بے پایاں تھا اور الحمدللہ وزیراعظم بننے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ وقت آیا تو پتا چلا کہ خود جناب کو یا ان کی ٹیم کو سرے سے کوئی کام ہی نہیں آتا ۔
سب سے زیادہ دھومیں تو اپنے اسد عمر صاحب کی معاشی مہارت کی مچی ہوئی تھیں۔ ان کی کارپوریٹ سیکٹر میں کامیابیوں کے جھنڈے اس مہارت سے لہرائے گئے کہ ایک نجی کمپنی کے زیر انتظام چاول کے کاروبار میں اپنی کمپنی کا تو خیر سے انہوں نے بھٹا بٹھایا ہی تھا‘ پورے ملک کی چاول کی صنعت کا بھی کباڑا کر دیا اور ملک کی آدھی سے زیادہ رائس ملز بینک کی ڈیفالٹر ہو گئیں۔ اسی شہرت کے زور پر جب وزیر خزانہ بن کر ملک چلانا پڑا تو پتا چلا کہ جناب کا معاشیات میں ہاتھ خاصا تنگ ہے اور سب کو پتا چل گیا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر بجٹ بنانا‘ پٹر ول کی قیمت نکالنا اورٹیکسوں پر اعتراض کرنا اور شے ہے جبکہ حکومت میں رہتے ہوئے بجٹ بنانا‘ پٹرول کی قیمت طے کرنا اور ٹیکس لگانا بالکل مختلف شے ہے۔ نہ کوئی ویژن تھا اور نہ ہی کوئی عملی طور پر قابلِ عمل منصوبہ۔ بیچ بازار سب کچھ چوپٹ ہوا تو پھر ”سابقہ چور‘‘ حکومت کے اس شخص کو مشیر خزانہ بنایا جس حکومت کی چوریوں کے قصے اور معاشی پالیسیوں میں کھانچوں کا ذکر کر کے عمران خان نے اپنے نمبر بنائے تھے۔ جن کی چور بازاریوں‘ نوٹ چھاپنے اور کرپشن کے قصوں کے طفیل وہ حکومت میں آئے‘ انہی کے فنانس‘ ریونیو و اکنامک افیئرکے سابقہ وزیر جناب حفیظ شیخ کو ملکی خزانے پر امانت دار بنا کر لا بٹھایا۔ جن لوگوں کے طفیل بیس سال تک کرپشن کا چورن بیچا گیا انہی لوگوں کو پھر سے لا کر قوم پر مسلط کر دیا۔
سب سے زیادہ خوش فہمی اور نالائقی اقتصادی معاملات پر ہی ٹھہری۔ عمران خان کے پاس ملک چلانے کا بڑا آسان اور سادہ سا معاشی حل تھا۔ ان کے حساب سے یہ ایسا کارگر اور مؤثر حل تھا کہ دنیا ان کی معاشی پالیسی اور اس کے نتیجے میں اکٹھی ہونے والی رقم پر نظر دوڑائے گی تو اَش اَش کر اٹھے گی۔ ان کا منصوبہ کیا تھا؟ سارا منصوبہ خیالی آمدنیوں کے کندھے پر سوار تھا۔ سیدھے سیدھے دو سو ارب ڈالر تو وہ تھے جو سوئس بینکوں میں ناجائز کمائی کے پڑے ہوئے تھے۔ خان صاحب کا خیال تھا کہ اسد عمر اسلام آباد سے ایک چارٹر ہوائی جہاز پر اکیلے سوئٹزر لینڈ جائیں گے اور سوئس بینک کے منیجر کو عمران خان کا اتھارٹی لیٹر دیں گے اور دو سو ارب ڈالر کیش سے بھرے ہوئے صندوقوں کو اسی جہاز میں رکھ کر پاکستان لے آئیں گے۔ دو سو ارب ڈالر کا مطلب یہ ہوا کہ سو ڈالر والے دو ارب نوٹ (بد قسمتی سے ڈالر کا بڑے سے بڑا نوٹ محض سو ڈالر کا ہے) یعنی سو ڈالروالی سو سو کے نوٹوں کی دو کروڑ گڈیاں۔ لئو جی! اتنے نوٹ اٹھانے کے لیے ممکن ہے عام جہاز چھوٹا پڑ جاتا۔ اس کے لیے تو خلیج کی کسی ایئر لائن سے ایئر بس A-380 دو منزلہ جہاز لینا پڑتا۔ اس دو سو ارب کے علاوہ دس بارہ ارب ڈالر میاں نواز شریف اینڈ کمپنی سے وصول ہونا تھا اور قریب قریب اتنی ہی رقم زرداری کارپوریشن سے نکلوانے تھے۔ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں نے خان صاحب کی محبت میں باہر سے بھیجی جانے والی رقم کم از کم دو گنی تو کر دینی تھی۔ مطلب یہ ہوا کہ وہ سالانہ چالیس ارب ڈالر پاکستان بھیجیں گے۔ اوپر سے یہ بھی کہا گیا کہ ہر پاکستانی ایک ہزار ڈالر کا باہر سے عطیہ بھجوائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی سمندر پار رہائش پذیر ہیں۔ یہ ہو گئے دس ارب ڈالر۔ ان سب کا ٹوٹل ہو گیا دو سو ستر ارب ڈالر۔ اوئے میرے اللہ اتنی رقم؟اس دو سو ستر ارب ڈالر میں سے ستر ارب ڈالر آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور اسی قسم کے دیگر بے ایمان سودی بینکوں کے منہ پر مارے جائیں گے اور دو سو ارب سے روزانہ دیسی گھی‘ پستے اور کاجو والا مکھڈی حلوہ پکا کر پورے ملک میں مفت تقسیم کیا جائے گا۔ اور ہاں! میں بھول گیا روزانہ بارہ ارب روپے والی کرپشن بند کر کے روزانہ کے حساب سے بارہ ارب روپے ملکی خزانے میں آئیں گے۔ سال کے باون ہفتوں کی ہفتہ وار دو چھٹیاں نکال کر باقی دو سو ساٹھ دنوں میں تین ہزار ایک سو بیس ارب فالتو میں وصول ہوں گے۔ سارا ملک ٹیکس فری ہو جائے گا۔ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہا کریں گی لیکن ہوا کیا؟سوئس بینکوں سے ایک ٹکا وصول نہ ہوا۔ میاں نواز شریف اور زرداری اینڈ کمپنی سے ایک دھیلہ نہیں ملا۔ باہر سے کسی نے ہزار ڈالر کجا‘ سو ڈالر فی کس نہیں بھیجے۔ ہر سال آنے والے روٹین کے زر مبادلہ میں محض تین فیصد اضافہ ہوا۔ بارہ ارب روزانہ والی کرپشن کے بارے میں دو میں سے ایک بات ہوئی ہے۔ یا تو یہ بارہ ارب کی رقم کی بات جھوٹ تھی یا یہ کہ اب بارہ ارب روپے روزانہ وہی لوگ کھا رہے ہیں جو پہلے کھا رہے تھے۔
پیسے تو ملے نہیں! اب کیا کریں؟ بچت کی جائے۔ سو تازہ ترین بچت والے اقدامات ملاحظہ کریں۔ پنجاب میں ساری ای لائبریریز بند کی جا رہی ہیں۔ سٹیل ملز کو بھی بند ہی سمجھیں۔ تاہم ملکی خزانے میں پیسوں کی بھرمار کرنے کی غرض سے فی الحال تو یہ کیا گیا ہے کہ عزیزم محمد عارف کی جیب پر ڈاکہ مارتے ہوئے پاکستان پوسٹ کے ذریعے بھیجی جانے والی فی کتاب کا ڈاک خرچ مورخہ 31مئی سے ساٹھ روپے سے بڑھا کر 153 روپے کر دیا گیا ہے۔ یعنی اڑھائی گنا سے بھی زیادہ۔ پہلے والی چوروں کی حکومتیں پانچ دس فیصد اضافہ کیا کرتی تھیں۔ یہ والے ایماندار دو سو پچاس فیصد اضافہ کرتے ہیں۔ post Bookمہنگی ہو گئی ہے اور ای لائبریری بند ہونے جا رہی ہے تا کہ ملک میں جہالت کو دوبارہ فروغ دے کر ووٹ کا اختیار جاہلوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ خان صاحب! آپ کو جاہلوں نے نہیں پڑھے لکھوں نے ووٹ دیئے تھے تاہم اب وہ پڑھے لکھے بھی اپنے آپ کو جاہل محسوس کر رہے ہیں۔ اب بھلے سے آپ بے شک وہ یونیورسٹی بھی بند کر دیں جو آپ نے وزیراعظم ہائوس میں کھولی تھی۔