کون سی 22 سالہ جدوجہد؟
درخشاں سیاسی ماضی ذرا ملاحظہ ہو۔ جنرل پرویز مشرف نے اشارہ کیا تو اس کے ساتھ ہو لیے، اس امید پہ کہ مقتدرہ کو ان کی ضرورت پڑے گی اور وزارتِ عظمیٰ کا تاج ان کے سر سج جائے گا۔ ایسا نہ ہوا تو انداز بدل گئے اور جمہوریت کا عَلم تھام لیا۔
2013ء کے انتخابات نواز شریف نے سویپ کیے، کم از کم پنجاب میں‘ اور ہماری سیاست میں پنجاب ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے‘ لیکن جلد ہی نواز شریف کو دشواریوں کا سامنا ہوا اور اقتدار پہ اُن کی گرفت کمزور ہوتی گئی۔ اس میں کوئی کارنامہ عمران خان کا نہیں تھا۔ عسکری اداروں سے نواز شریف کی چپقلش بن گئی تھی۔ بہرحال 2014ء کے دھرنے ایک عجیب تماشا تھے۔ پسِ پردہ ہاتھ اوروں کا تھا، سامنے بطور مہمان اداکار عمران خان اور علامہ طاہرالقادری تھے۔ اُنہیں یقین دلایا گیا تھا کہ نواز شریف کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے، آپ نے صرف اسلام آباد کی شاہراہ دستور پہ کچھ دن پڑاؤ کرنا ہے۔ علامہ صاحب کی ڈوریں کھینچی جا رہی تھیں اور جنابِ عمران خان بھی His master’s voice بنے ہوئے تھے۔ غیبی طاقتوں کے اس وقت عزائم پورے نہ ہو سکے‘ لہٰذا کٹھ پتلیوں کو ناکام لوٹنا پڑا۔
عمران خان تو پھر بھی اپنا کچھ سیاسی اثاثہ بچا سکے لیکن علامہ صاحب اس ساری مشق میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے۔ اِن کے ورکر مذہبی جنون سے سرشار تھے یا کچھ اور بات تھی ان کا کردار متحرک اور جاندار تھا۔ دھرنے میں گھسیٹے جانے کے بعد یہ فورس ضائع ہو کے رہ گئی۔ علامہ طاہرالقادری پھر کبھی سیاسی زور نہ پکڑ سکے۔ اَب قومی سیاست میں غیر متعلق یا Irrelevant ہو چکے ہیں۔
عمران خان کو نئی سیاسی زندگی پانامہ سکینڈل سے ملی‘ لیکن اس سکینڈل کے بننے میں کسی بشر کا ہاتھ نہ تھا۔ جیسے پیرِ کامل سابق صدر ممنون حسین نے فرمایا‘ یہ ماجرا آسمانوں سے گرا تھا۔ اس ماجرے پہ ایک پورا ڈرامہ کھڑا کیا گیا جس میں عمران خان ایک چھوٹے کھلاڑی تھے۔ کلیدی کردار اوروں کا تھا اور اُنہوں نے اس سکینڈل کو ایسی جہت بخشی کہ نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس میں عمران خان کا کوئی کمال نہ تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت جو جے آئی ٹی بنی اُس میں زیادہ دخل اوروں کا تھا اور اُنہی کی وجہ سے جے آئی ٹی وہ نتائج حاصل کر سکی جو نارمل حالات میں کوئی شخص یا کوئی دیگر ادارہ نہ کر سکتا۔ ویسے تو ہم کہتے ہیں کہ پاکستان بڑا ڈھیلا ڈھالا ملک ہے لیکن کسی نکتے پہ مقتدر حلقوں میں یکسوئی پیدا ہو جائے تو ناممکن بھی ممکن بن جاتا ہے۔ جے آئی ٹی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
نون لیگ کا پانچ سالہ دورِ اقتدار ختم ہوا تو الیکشن ہونے تھے۔ انصاف والے تو اپنی دنیا میں رہتے ہیں اور شاید آسانی سے نہ مانیں لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ الیکشن مہم میں جو مدد پاکستان تحریک انصاف کی ہو سکتی تھی وہ کی گئی۔ مہرے پی ٹی آئی والے تھے لیکن انہیں چلانے والے اور تھے۔ راہنمائی اور رہبری وہاں سے آتی، حتیٰ کہ کتنے ہی حلقے ہوں گے جن میں نامزد گیاں بھی اوروں کی طرف سے آئیں۔ مقصد عمران خان کو لانا تھا اور وہ پورا ہو گیا لیکن کارنامہ اگر ہے تو اوروں کا ہے۔ اُنہی کی وجہ سے نئے چہرے کو کامیابی نصیب ہوئی۔
لیکن کسی کو کرسی پہ بٹھانا ایک بات ہے اور اُسے کامیاب ہونا الگ چیز ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں کیسے آئے تھے؟ مغربی پاکستان میں انہوں نے واضح اکثریت جیتی تھی لیکن 1971ء کی جنگ کے بعد جب مملکت میں سیاسی بحران اُٹھا اور انتقالِ اقتدار کا مرحلہ آیا تو ائیر فورس کے سربراہ ائیر مارشل رحیم خان اور چیف آف دی جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل گل حسن نے اُن کے لئے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔ بھٹو صاحب اقوام متحد ہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس کیلئے نیویارک میں تھے۔ وہاں سے روم آئے اور پھر مناسب اشارہ ملا تو اسلام آباد محوِ پرواز ہوئے؛ البتہ بھٹو ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ کسی کے کٹھ پتلی نہ بن سکتے تھے۔ اقتدار میں آئے تو دیکھتے ہی اپنی پوزیشن مضبوط کی اور پھر اقتدار اپنے زور پہ کیا، کسی کے رحم و کرم پہ نہ تھے۔ جب چند ماہ بعد ہی دیکھا کہ ائیر مارشل رحیم خان اور لیفٹیننٹ جنرل گل حسن اپنے پاؤں زیادہ پھیلا رہے ہیں تو ڈرامائی انداز میں اُن کی چھٹی کردی گئی اور نئے سربراہانِ ائیر فورس اور آرمی بنا دئیے۔
نواز شریف کو مختلف اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی لیکن 1990ء میں وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اپنی ایک نئی سیاسی شناخت بنائی اور مسلم لیگ جو تب تک اشاروں پہ ناچنے کیلئے مشہور تھی‘ کو ایک عوامی پارٹی میں تبدیل کر دیا۔ عمران خان ایک مقبولِ عام لیڈر ہیں لیکن اقتدار پہ اپنی گرفت مضبوط نہیں کر سکے کیونکہ دورانِ اقتدار اُن کی کارکردگی مایوس کن نظر آرہی ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو تو بالکل ہی نہیں۔ کہنے کو بیس یا بائیس سال سیاست میں رہے ہیں لیکن منجھے ہوئے سیاستدان اب بھی نہیں لگتے۔
حالات کا مخدوش ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ قومیں تباہ کن جنگوں سے گزرتی آئی ہیں اور بہت کچھ سہتی رہی ہیں‘ لیکن جہاں کہیں صحیح معنوں میں لیڈر ہوں قوموں کے حوصلے بلند رہتے ہیں۔ جہاں عوام بھانپ جائیں کہ لیڈر میں کچھ کمزوری ہے تو پھر معروضی حالات اتنے خراب نہ بھی ہوں‘ پھر بھی قوم کا اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ ہماری آج کل یہی کیفیت ہے۔ یہ تاثر بڑھتا جا رہاہے کہ عمران خان کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتارہا ہے۔ حکومت ہے لیکن صحیح معنوں میں چلتی نظر نہیں آرہی۔ وہ مسیحائی کے خواب کہ عمران خان آئیں گے اور پتا نہیں کیا کچھ کر گزریں گے اب بس خواب ہی نظرآتے ہیں۔ کوئی ایک شعبہ ہو جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ اس میں فنِ کمالات نظر آتے ہیں، لیکن ایک بھی ایسا شعبہ نہیں۔
نوجوانوں کا بہت بڑا حصہ، خواتین کی خاصی بڑی تعداد اور مڈل کلاس کا خاطر خواہ حصہ… یہ وہ طبقات تھے جنہوں نے اپنی اُمیدیں عمران خان کے ساتھ باندھی ہوئی تھیں۔ اداروں کے نوجوان افسران‘ جن کے بارے میں یہ کہنا شاید حق بجانب ہوکہ وہ پرانی سیاست گری سے تنگ آچکے تھے‘ بھی عمران خان کو ایک مسیحا کے طور پہ دیکھتے تھے۔ اُن کا بھی یقین تھا کہ عمران خان ایسی کرشمہ ساز شخصیت رکھتے ہیں کہ تمام پرانی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے اور پاکستان کو کامیابیوں کے سفر پہ ڈال دیں گے۔ یہ کہنا کہ یہ سارے لوگ مایوس ہوچکے ہیں مبالغہ ہوگا‘ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اُمیدوں کی وہ تڑپ اور چمک نہیں رہی جو شروع میں تھی۔ مایوسی پھیلتی جا رہی ہے اور صرف عمران خان کی وجہ سے نہیں۔ اس خیال سے بھی کہ کیا ہمارے نصیب میں یہی لکھا ہے کہ اچھے دن کبھی نہیں آئیں گے۔
جن طبقات کا ذکر اوپر آیا ہے ان میں یہ سوچ گھر کرچکی تھی کہ اگر پاکستان ناکام رہاہے تو اُسے نئے اُفق اور نئے ستاروں کی ضرورت ہے۔ عمران خان اس کیفیت کی پیداوار تھے‘ اور اگر ادارے بھی اُن کے ساتھ تھے اورانہوں نے عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے بہت کچھ کیا تو اُن کی بھی سوچ یہی تھی کہ پاکستان کو ایک نئی ابتدا کی ضرورت ہے۔ اور وہ نئی ابتدا عمران خان ہے۔ یعنی قوم کو ایک مسیحا اور ہیرو کی تلاش تھی۔ عمران خان خود ہیرو نہیں بنے۔ انہوں نے کچھ ایسا کیا ہی نہیں تھا کہ ہیرو بن جاتے۔ قوم کی اُمنگوں اور خواہشات نے انہیں ہیرو کا درجہ عطا کردیا‘ لیکن اگر اُن میں وہ چیز ہی نہ تھی جس کی قوم کو آرزو تھی‘ اُن کا قصور تو نہیں بنتا۔ یہ تو قوم اپنے آپ سے پوچھے کہ اُس کی خواہشات کس نوعیت کی تھیں اور اُسے کہاں پہنچا دیا۔