انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کی خاطر کیا جانے والا دنیا کی تاریخ کا انوکھا اور منفرد تجربہ
قدیم مصر کے لوگوں کا خیال تھا کہ موت کے بعد انسان ایک لمبے سفر پر نکل جاتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سفر بہت کٹھن ہوتا ہے جس میں وہ سورج کی دیوتا (جسے مصری را کہتے تھے) کی کشتی پر سوار ہو کر ‘ہال آف ڈبل ٹروتھ’ تک پہنچتا ہے۔
اساطیر کے مطابق سچائی کا پتا لگانے والے اس ہال میں روح کے اعمال کو جانچا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔
یہاں حق اور انصاف کی دیوی کے قلم کے وزن کا موازنہ انسان کے دل کے وزن سے کیا جاتا ہے۔ قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ انسان کے سارے اچھے اور برے اعمال اس کے دل پر لکھے ہوتے ہیں۔
اگر انسان نے ایمانداری سے زندگی گزاری ہے تو اس کی روح کا وزن پنکھ کی طرح ہلکا ہوگا اور اسے مصری خدا اوسائرس کی جنت میں سدا کے لیے جگہ مل جائے گی۔
مصر کے اس قدیم مفروضے کی ایک جھلک سنہ 1907 میں ‘جرنل آف دی امریکن سوسائٹی فار سائیکک ریسرچ’ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں پائی گئی ہے۔
اس تحقیق کے تحت ‘روح کے مادے کے مفروضے کے ساتھ اس وجود کے تجرباتی شواہد’ کے عنوان کے تحت مرنے کے بعد انسان کی روح سے متعلق تجربات پر بات کی گئی تھی۔
روح کا وزن
اس تحقیق سے متعلق ایک مضمون نیو یارک ٹائمز میں مارچ سنہ 1907 میں شائع ہوا تھا جس میں یہ واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹروں کے خیال میں روح کا بھی ایک خاص وزن ہوتا ہے۔ اس میں ڈاکٹر ڈنکن میک ڈوگل کے نام کے ایک فزیشین کے تجربات کے بارے میں بات کی گئی تھی۔
سنہ 1866 میں سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر ڈنکن بیس سال کی عمر میں امریکہ کی ریاست میساچوسٹس منتقل ہوگئے تھے۔
انھوں نے یونیورسٹی آف ہیوسٹن کے سکول آف میڈیسن سے اپنی تعلیم مکمل کی اور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ہیورل شہر کے ایک رفاہی ہسپتال میں لوگوں کے علاج معالجے میں صرف کیا۔
اس ہسپتال کے مالک ایک تاجر تھے جن کا کاروبار بنیادی طور پر چین کے ساتھ تھا۔ چین سے وہ ایک اہم چیز، ‘فیئربینک کا ترازو’ لائے تھے۔
یہ ترازو پہلی بار سنہ 1830 میں بنایا گیا تھا اور اس سے بڑی بڑی اشیا کا درست وزن کرنا آسان تھا۔
ڈاکٹر ڈنکن جہاں کام کرتے تھے وہاں آئے دن لوگوں کی موت واقع ہوتی اور ہسپتال میں وزن کرنے والی مشین دیکھ کر ان کے ذہن میں انسانی روح کا وزن کرنے کا خیال ابھرا۔
نیویارک ٹائمز میں شائع مضمون کے مطابق اس واقعے کے چھ سال بعد تحقیق کا موضوع عوام کے سامنے آیا جو یہ تھا کہ ‘انسان کی موت کے بعد جب اس کی روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم میں کیا بدلاؤ آتا ہے؟’
ان کی تحقیق کا مقصد قدیم مصریوں کے اعتقاد کو ثابت کرنا یا مصر کے دیوی دیوتاؤں کے بارے میں کچھ جاننے کے لیے نہیں تھا لیکن تحقیق کا موضوع اس قدیم عقیدے سے مطابقت رکھتا تھا۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنی تحقیق کی ابتدا ہی اس بات سے کی کہ مرنے کے بعد روح انسانی جسم سے جدا ہوجاتی ہے۔ یعنی وہ روح کے ہونے یا نہ ہونے پر سوال نہیں کررہے تھے۔ لیکن ان کی تحقیق کے نتیجے میں سائنسی سطح پر اس چیز کو تسلیم کرنے کا امکان موجود تھا۔
ڈاکٹر میک ڈوگل کا تجربہ
ڈاکٹر ڈنکن میک ڈوگل نے ایک خاص طرح کا بستر بنایا جس کا وزن بہت ہلکا تھا اور اسے ہسپتال میں موجود بڑے ترازو پر فٹ کیا۔ انھوں نے ترازو کا توازن اس طرح بنایا کہ اس میں ایک اونس سے بھی کم (ایک اونس تقریبا 28 گرام) وزن کیا جاسکتا تھا۔
جو لوگ شدید بیمار ہوتے یا جن کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہوتی انھیں اس مخصوص بستر پر لیٹا دیا جاتا اور ان کے موت کے عمل کو باریک بینی کے ساتھ دیکھا جاتا۔
جسم کے وزن میں کسی قسم کی تبدیلی کو وہ اپنے نوٹ بک میں لکھتے رہتے۔ اس دوران وہ یہ فرض کرتے ہوئے وزن کا حساب بھی لگاتے کہ جسم میں پانی، خون، پسینے، پاخانے، پیشاب یا آکسیجن، نائٹروجن کی سطح میں بھی تبدیلی آئے گی۔
ان کی تحقیق میں مزید چار ڈاکٹر ان کے ساتھ کام کر رہے تھے اور سبھی الگ الگ اعداد و شمار رکھتے تھے۔
ڈاکٹر ڈنکن نے دعوی کیا کہ ‘جب کوئی شخص اپنی آخری سانس لیتا ہے تو اس کا جسم میں آدھا یا سوا اونس وزن میں کم ہوجاتا ہے۔’
ڈاکٹر ڈنکن کا کہنا تھا کہ ‘جس وقت جسم غیر فعال ہوجاتا ہے، اسی لمحے ترازو کا پلڑا تیزی سے نیچے آجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جسم سے اچانک کوئی چیز نکل گئی ہے۔’
ڈاکٹر ڈنکن کے مطابق انھوں نے یہ تجربہ 15 کتوں کے ساتھ بھی کیا اور ان میں نتائج منفی تھے۔ انھوں نے کہا کہ کتوں کی ‘موت کے وقت اس کے جسمانی وزن میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔’
انھوں نے اس تجربے کے نتائج کو اس طرح بیان کیا کہ ‘موت کے وقت انسان کے جسمانی وزن میں تبدیلی آتی ہے کیونکہ ان کے جسم میں روح ہوتی ہے، لیکن کتوں کے جسم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ان کے جسم میں کوئی روح نہیں ہوتی ہے۔’
تحقیق میں بہت سی خامیاں تھیں
چھ سال تک جاری رہنے والے اس تجربے میں صرف چھ معاملات پر تحقیق کی گئی۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ دو ڈاکٹروں کے ڈیٹا کو تحقیق میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ایک نے کہا ‘ہمارے ترازو (ترازو) پوری طرح سے ایڈجسٹ نہیں ہوئے تھے اور ہمارے کام پر بیرونی لوگ کافی اعتراض کر رہے تھے۔’
جبکہ دوسرے معالج نے کہا کہ ‘یہ تفتیش درست نہیں تھی۔ ایک مریض کی بستر پر لیٹائے جانے کے پانچ منٹ کے اندر ہی موت ہوگئی۔ جب اس کی موت ہوئی اس وقت تک میں نے ترازو کو مکمل طور پر ایڈجسٹ نہیں کیا تھا۔’
ایسے مین تحقیق کا نتیجہ صرف چار مریضوں یعنی چار معاملات پر ہی مبنی تھا۔ اس میں بھی تین صورتوں میں موت کے فورا بعد، جسمانی وزن پہلے اچانک کم ہوا اور پھر کچھ عرصے کے بعد اس میں اضافہ ہوا۔ چوتھی صورت میں پہلے جسم کا وزن اچانک کم ہوا پھر بڑھ گیا اور ایک بار پھر اس میں کمی واقع ہوئی۔
تحقیق سے متعلق تحقیقات کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ ڈاکٹر ڈنکن اور ان کی ٹیم واضح طور پر یہ نہیں بتا سکی کہ ان کی موت کا صحیح وقت کیا تھا۔
سچ کہیں تو اس تحقیق پر لوگ دو خیموں میں بٹے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ مذہب میں یقین رکھنے والے امریکہ کے کچھ اخبارات نے کہا ہے کہ تحقیق کے ان نتائج سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ روح کا وجود ہے۔
تاہم خود ڈاکٹر ڈنکن نے کہا کہ انھیں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ ان کی تحقیق نے کچھ بھی ثابت کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی تحقیق صرف ابتدائی تفتیش ہے اور اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
سائنسی طبقہ نے نہ صرف ان کی تحقیق کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ان کے تجربے کی صداقت کو قبول کرنے سے بھی انکار کردیا۔
لیکن ڈاکٹر ڈنکن نے جن چھ افراد پر تحقیق کی تھی ان میں سے پہلے جسم میں آنے والی تبدیلی آج بھی بحث کا موضوع ہے۔
اس تحقیق کی بنیاد پر بہت سارے لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ ایک انسانی روح کا وزن تین چوتھائی ونس یا 21 گرام ہے۔ یہ ڈاکٹر ڈنکن کے پہلے مریض کی موت پر جسم میں آنے والی تبدیلی تھی۔