مسائل: بیروت کی طرح کراچی میں بھی تحریک
اگر کوئی شخص واقعتا یہ سمجھتا ہے کہ کراچی کو ’’اندرون سندھ سے آئے وڈیروں‘‘ سے ’’آزاد‘‘ کرواکر اس شہر کے دیرینہ مسائل کا دائمی حل نکالا جاسکتا ہے تو میں اسے ’’سادہ لوح‘‘ پکارنے کو ترجیح دوں گا۔ لوگوں کی نیتوں پر شبہ کرنے کی مجھے عادت نہیں۔کسی کو ٹھوس شواہد کے بغیر ’’ملک دشمن سازشی‘‘ ٹھہرانا ایک غیر ذمہ دارانہ ہی نہیں کئی اعتبار سے ظالمانہ رویہ بھی ہے۔ربّ کریم ہم سب کو اس رویے سے بچائے رکھے۔
1980ء کی دہائی میں کراچی کا ذکر کرتے ہوئے اکثر لبنان کے دارالحکومت بیروت کے حوالے دئیے جاتے تھے۔وہاں کئی برس تک جاری رہی خانہ جنگی کی وجوہات کراچی کے واقعات میں بھی تلاش کی جاتیں۔اس کے علاوہ تذکرہ اکثر ’’ہانگ کانگ‘‘ کا بھی رہا۔ بتدریج ہم نے ان دو شہروں کے حوالے دیناچھوڑ دئیے۔میری ناقص رائے میں جبکہ 2020ء کے بیروت کا ذکر کراچی کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
لبنان تاریخی اعتبار سے ’’بلادشام‘‘ کا حصہ رہا ہے۔600برس تک خلافتِ عثمانیہ کے زیر نگین رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر ترکی’’ مردِ بیمار‘‘ ثابت ہوا تو فرانس اور برطانیہ کے مابین اپنے ’’مفتوحہ‘‘ علاقوں کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بالآخر فلسطین برطانیہ اور لبنان فرانس کے سپرد کردئیے گئے۔ فرانس نے ’’آزاد وخودمختار‘‘ لبنان کو ’’مستحکم سیاسی نظام‘‘ فراہم کرنے کے نام پر ایک عجیب وضع کا بندوبست متعارف کروایا۔آبادی کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا ملک ہے۔ 70لاکھ کے قریب باسی مگر مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پراپنی ’’مخصوص شناخت‘‘ برقرار رکھنے کو ہمیشہ بضد رہے ہیں۔ ان کے مابین ’’توازن‘‘ برقرار رکھنے کے لئے فیصلہ ہوا کہ اس ملک کا صدر مسیحی ہوگا۔ وزیر اعظم سنی مسلمان اور اسمبلی کا سپیکرشیعہ مسلک کا نمائندہ۔ اشرافیہ کے مابین یہ بندوبست طے ہوجانے کے باوجود مگر لبنان کو سیاسی استحکام شاذ ہی نصیب ہوا۔ہر مسلک کے سفاک موقعہ پرستوں نے خود کو اپنی کمیونٹی کا ’’حتمی چودھری‘‘ ثابت کرنے کی کاوشیں شروع کردیں۔ اس کے نتیجے میں نظر بظاہر ’’سیاسی رہ نما‘‘ بالآخر وارلارڈز کی صورت اختیار کرنا شروع ہوگئے۔ خود کو حتمی چودھری ثابت کرنے کے بعد ان لوگوں نے تمام حکومتی محکموں میں ’’کوٹے‘‘ کی بنیاد پر ’’اپنے بندے‘‘ بھرتی کروانا شروع کردئیے۔لبنانی عوام کی اکثریت کئی دہائیوں تک قوم کو منقسم رکھنے والے وارلاڈرز اور ان کے چمچوں کے رحم وکرم پر رہی۔ بالآخر 2019کے اختتامی مہینوں میں بیروت جیسے خوب صورت شہر میں کوڑے کے ڈھیر جمع ہونا شروع ہوگئے۔بجلی کی ترسیل کا نظام تباہ ہوگیا۔ صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کا بندوبست بھی عنقا ہوگیا۔بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم ہوئے بیروت کے شہری مجبور ہوگئے کہ مذہبی اور فرقہ واردانہ تقسیم میں توازن برقرار رکھنے کے نام پر جو بندوبست مسلط ہوا تھا اس کی ’’محدودات‘‘ کو دریافت کریں۔ اس پر سوالات اٹھائیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے سوالات کی بھرمار کے نتیجے میں بالآخر شہریوں کی ایک بے ساختہ تحریک نمودار ہوئی۔اس تحریک سے متاثر ہوئے نوجوان بیروت کے معروف چوکوں میں دھرنے دینا شروع ہوگئے۔وہاں کا سب سے مقبول نعرہ یہ رہا کہ ہم مسیحی، سنی یا شیعہ ہونے کے علاوہ بنیادی طورپر لبنان نامی ملک کے ’’شہری‘‘ بھی ہیں۔ہمارے چند بنیادی حقوق ہیں۔ہمیں ان حقوق کے حصول کو یقینی بنانا ہے۔
پرخلوص سوالات کی بنیاد پر اٹھی اس تحریک نے لبنان کے تمام ’’چودھریوں‘‘ کو پریشان کردیا۔ اپنے اجارے کے تحفظ کے لئے انہوں نے متعدد بار یہ کوشش کی کہ شہری حقوق کے طلب گار دھرنوں میں مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم شروع ہوجائے۔ یہ تمام کاوشیں ناکام رہیں۔ 2020کے آغاز میں لیکن بدقسمی یہ رہی کہ کرونا کا حملہ ہوگیا۔ اس کی وجہ سے دھرنے اور احتجاج کی گنجائش موجود نہ رہی۔عوامی تحریک اپنے اہداف حاصل کئے بغیر ختم ہوگئی۔کرونا میں نرمی آئی تو بیروت کی بندرگاہ میں کئی برسوں سے نظر انداز کئے کیمیائی مواد کے ایک ذخیرے میں آگ بھڑک اُٹھی۔اس آگ نے بیروت کے خوشحال ترین محلوں کو بنیادی طورپر اپنا نشانہ بنایا۔کرونا نے جو سوالات بھلادئیے تھے دوبارہ اٹھنا شروع ہوگئے۔ لبنان کے روایتی سیاست دانوں کے پاس ان سوالات کے جوابات موجود نہیں۔فرانس کا صدر اب اس ملک کے دورے کرتے ہوئے کسی نئے بندوبست کی تلاش میں ہے۔میری رائے میں اس برس کے مون سون نے 90سال کے طویل وقفے کے بعد مسلسل اور شدید بارشوں کی وجہ سے جو تباہی مچائی ہے وہ کراچی میں ایسے ہی سوالات کو جنم دے رہی ہے جو گزشتہ کئی مہینوں سے بیروت میں اٹھائے جارہے ہیں۔ ان سوالات نے بنیادی طورپر ان طبقات کو مشتعل کیا ہے جو کئی برسوں سے ’’کلفٹن کے اس پار‘‘ بنائے نام نہاد ’’جدید ترین شہری سہولتوں سے مالا مال‘‘ بستیوں کے مکین تھے۔ یہاں کی زمینیں بہت قیمتی ہیں۔ہزاروں خاندانوں نے برسوں کی محنت کے بعد جو بچایا تھا اسے بہت چائو سے ان بستیوں میں مکانات کی تعمیر پرخرچ کیا ۔ان علاقوں کے مکین سیاست دانوں کی اکثریت کو نہایت حقارت سے ’’نااہل اور بدعنوان‘‘ گردانتے رہے ہیں۔سیاسی عمل سے خود کو ہمیشہ دور رکھا۔پیپلز پارٹی کو ’’وڈیروں کی جماعت‘‘ تصور کیا اور ایم کیو ایم کو ’’بھتہ خور‘‘۔
2013ء میں لیکن ان مکینوں کو گماں ہوا کہ عمران خان صاحب کی صورت ایک ’’دیدہ ور‘‘ نمودار ہوگیا ہے۔وہ تحریک انصاف کے دیوانے ہوگئے۔ان کی محبت 2018ء کے عام انتخابات کے دوران گج وج کے نمودار ہوئی۔اس برس کے ساون بھادوں نے مگرانہیں سمجھادیا ہے کہ ’’اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں ا ٓئے گا‘‘۔بے خواب کواڑوں کو مقفل کرنے کی بھی لیکن گنجائش میسر نہیں۔’’کلفٹن کے اس پار‘‘ آباد ہوئی بستیوں کے بیشتر گھروں میں بہت مان سے Basements بنائے گئے تھے۔وہ گزشتہ تین دنوں سے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔یہ سوال مسلسل تنگ کئے جارہا ہے کہ ان کے مکان پانی میں کیوں ڈوب گئے۔بارش کی وجہ سے جمع ہوئے پانی کی نکاسی کا مؤثر نظام کیوں موجود نہیں۔بارش شروع ہونے کے ساتھ بجلی بھی کیوں غائب ہوجاتی ہے۔بالآخر موبائل فون بھی کیوں کام نہیں کرتے۔ اس برس کی بارشوں نے درحقیقت پہلی بار کراچی کے خوش حال ترین اور زندگی سے عمومی طورپر مطمئن تصور ہوتے ہوئے متوسط طبقے کو حواس باختہ کرتے ہوئے اشتعال دلایا ہے۔وہ دریافت کررہے ہیں کہ ’’اچھی حکمرانی‘‘ کو یقینی بنانا ہماری اشرافیہ کے کسی بھی حصے نے اپنا فریضہ نہیں سمجھا۔ بنیادی شہری حقوق کے تناظر میں دیکھا جائے تو ’’ہم ہوئے یا تم ہوئے‘‘ یعنی ہر نوع کے طاقت ور اور بااختیار افراد اور ادارے لاتعلقی کو عادت کی صورت اپنائے ہوئے ہیں۔ کراچی کے انتہائی پڑھے لکھے،نسبتاََ خوش حال اور عام طورپر ’’سیاست‘‘ سے نفرت کے عادی طبقات کی جانب سے ان دنوں ظاہر ہوا غصہ (Rage)اگر ٹھنڈے دل سے سوچیں تو خیر کی خبر بھی ہے۔فوری غصے کے فطری اظہار کے بعد بالآخرکراچی کے شہریوں کو کسی ایسے بندوبست کے قیام کی بابت سوچنا ہوگا جہاں ہر شہری خود کو اجتماعی عمل کا متحرک حصہ بناتے ہوئے اپنے حقوق کے علاوہ ذمہ داریوں کا بھی ادراک کرے۔
1970ء کی دہائی سے دلوں میں پلتے تعصبات اور ان کی آگ بھڑکاتے ہوئے اس شہر کی ’’چودھری‘‘ہوئی سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کے متبادل ایک نئے نظام کے امکانات یقینا نمودار ہورہے ہیں۔ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے لئے اب ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں اُبلتے سوالات کو نظرانداز کرتے رہیں۔ ان سوالات کے جواب ہر صورت فراہم کرنا ہوں گے۔بارشوں کے بعد ’’معمول کی زندگی‘‘ ہرگز واپس نہیں لوٹے گی۔ بیروت کی طرح کراچی میں بھی ایک Leaderlessتحریک شروع ہوچکی ہے۔ اس تحریک کو تعصبات کی آگ بھڑکاکر کمزور نہیں کیا جاسکتا۔ نسلی اور لسانی تقسیم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہریوں نے اپنے حقیقی مسائل کی شناخت کرلی ہے۔ اس تحریک کا احترام کرنا ہوگا۔