“لاک ڈاؤن نے میرے اسقاط حمل کو مزید درد ناک تجربہ بنا دیا”
آخر کار انھیں ٹنبرج ویلز کے پمبری ہسپتال میں ایک ابتدائی سکین کے لیے بلایا گیا، تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے متعارف کرائے گئے نئے قواعد کا مطلب یہ تھا کہ ان کے پارٹنر ڈین ان کے ساتھ نہیں جا پائے۔ اور خبر اچھی نہیں تھی۔
ہیلن بتاتی ہیں کہ ’جب مجھے دل توڑ دینے والی یہ خبر بتائی گئی کہ میرے بچے کے دل کی دھڑکن ہی نہیں ہے تو میرے پارٹنر کو باہر گاڑی میں بیٹھنا پڑا۔ پھر مجھے باہر آکر خود انھیں یہ خبر دینی پڑی۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا۔‘
دو ہفتے بعد وہ پھر ہسپتال گئے۔ ڈین گاڑی میں بیٹھے رہے اور ہیلن حاملہ خواتین کے لیے بنے یونٹ کی طرف گئیں۔ جب انھوں نے ایک نرس کو یہ بتایا کہ ان کا حمل گر رہا ہے اور پوچھا کہ انھیں اب کس طرف جانا ہے، تو نرس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے کہا، ’کاش میں آپ کو گلے لگا سکتی۔‘
ڈین گاڑی میں بیٹھے یہ سوچتے رہے کہ نہ جانے ہیلن پر کیا بیت رہی ہوگی۔ انھیں یہ سوچ بھی عجیب لگ رہی تھا کہ جہاں ایک طرف لوگ دکانوں میں خریداری کر رہے تھے، گپے لڑا رہے تھے، وہیں وہ ہیلن کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔
ہسپتال میں ہیلن کے تمام خدشات سچ ثابت ہو رہے تھے۔ انھیں حمل گرانے کی دوا دی گئی۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ہسپتال میں ہی رہیں۔ لیکن ان کا ذہن اس قدر منتشر تھا کہ انھیں ڈاکٹروں کی بات سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ وہ بس ڈین کے پاس واپس جانا چاہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’سب میرے بس سے باہر ہو رہا تھا۔ اور مجھے صلاح دینے والا کوئی میرے ساتھ نہیں تھا۔‘
پانچ گھنٹے بعد ہیلن ہسپتال سے باہر آئیں۔ وہ اور ڈین واپس گھر گئے اور دوا کے اثر کرنے کا انتظار کرنے لگے، مگر انھیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتنا مشکل ہوگا اور نہ ہی وہ اس کے لیے تیار تھے۔
ہیلن کہتی ہیں ک ’مجھے بہت تیز درد ہوا، الٹیاں ہوئیں، درد اتنا شدید تھا کہ میں تقریباً بیہوش ہو گئی۔ یہ ایک نہایت ہی ڈرا دینے والا تجربہ تھا۔‘
ڈین کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور وہ پریشانی اور مجبوری کی حالت میں آن لائن صلاح تلاش کرنے لگے۔ وہ کہتے ہیں: ’میں لوگوں کو ای میل کر رہا تھا، انسٹاگرام پر پیغام بھیج رہا تھا۔ ایسی حالت میں ایک ڈاکٹر کی جگہ اگر آپ کو گوگل کا سہارا لینا پڑے تو یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔‘
چار گھنٹے بعد درد اور بلیڈنگ کچھ کم ہوئی۔ تاہم ہیلن کو اب لگتا ہے کہ گھر جانے کا ان کا فیصلہ غلط تھا، اور اگر ڈین اس وقت ان کے ساتھ ہوتے تو وہ شاید ہسپتال میں ہی رکتیں۔
اس سارے تجربے سے انھیں اتنی تکلیف اور صدمہ ہوا ہے کہ وہ اب دوبارہ اس تکلیف سے نہیں گزرنا چاہتیں۔ انھوں نے دوبارہ بچہ پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی جگہ اب بچہ گود لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
این ایچ ایس نے کہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں قومی اور مقامی ہدایات کے مطابق حاملہ خواتین کے پارٹنر ان کے ساتھ سکین یا کسی بھی دوسری اپوئینٹمنٹ کے لیے نہیں آ سکتے۔ ’ہم اس بارے میں حاملہ خواتین اور ان کے پاٹنرز کی تشویش اور خدشات سمجھتے ہیں تاہم یہ قواعد سب کی حفاظت کے لیے نافذ کیے گئے ہیں۔۔۔‘
فاطمہ کی کہانی: ’حمل گرنے کے بعد بھی مہینوں تک حاملہ‘
لاک ڈاون سے ذرا پہلے 16 مارچ کو فاطمہ ریڈ کو اپنے حاملہ ہونے کے بارے میں پتہ چلا۔ پچیس سالہ فاطمہ پچھلے سال بھی ایک بچہ کھو چکی ہیں، مگر اس بار سب ٹھیک لگ رہا تھا۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ ’میرا پیٹ بڑا ہو رہا تھا، چاکلیٹ کھانے کا بہت دل چاہ رہا تھا، میں سو فیصد حاملہ تھی۔‘
ان کی چھ سالہ بیٹی ان سے پوچھتی رہیں کہ کیا وہ حاملہ ہیں، اور آخر بارہ ہفتوں پر ہونے والے سکین سے ذرا پہلے فاطمہ نے اپنی بیٹی کو بتا دیا کہ ہاں اب وہ بڑی بہن بننے والی ہیں۔
تاہم سکین سے پتہ چلا کہ فاطمہ کے پیٹ میں بچے کی تھیلی تو تھی مگر بچہ نہیں تھا۔ اس کو ’بلائٹیٹد اووم‘ کہا جاتا ہے اور ایسا تب ہوتا ہے جب حاملہ ہونے کے ابتدائی دنوں میں ہی بچہ مر جاتا ہے اور واپس جذب یا تحلیل ہو جاتا ہے، جبکہ ’سیک‘ یا تھیلی بڑھتی رہتی ہے۔
فاطمہ کہتی ہیں کہ ’میں بہت تذبذب میں تھی، کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں اس کے بارے میں کبھی سنا تک نہیں تھا۔ میں بہت زیادہ رو رہی تھی۔‘
ان کے شوہر زیک کو پارکنگ سے بلایا گیا تاکہ آگے کے آپشنز کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ فاطمہ سرجری کرانا چاہتی تھیں تاکہ ’بات ختم ہو جائے‘، تاہم کووڈ۔19 کی وجہ سے آپریشنز کی تعداد کو بہت کم کر دیا گیا تھا۔ وہ گھر جا کر قدرتی طور پر بچہ گرنے کا انتظار کرنے پر راضی ہو گئیں۔
یہ مشکل انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی بیٹی کو بھی سمجھانا پڑا کہ اس کا چھوٹا بھائی یا بہن نہیں آنے والے۔ تاہم انتظار سے کچھ نہیں ہوا اور تین ہفتے بعد بھی ان کا پریگننسی ٹیسٹ مثبت آیا۔
اس کے بعد ڈاکٹروں نے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے فاطمہ کو دوا دی۔ گھر پر فاطمہ کو بہت شدید بلیڈنگ اور درد ہوا۔ لیکن جب 29 جون کو انھوں نے دوبارہ پریگننسی ٹیسٹ کیا تو وہ بھی مثبت آیا۔
سالسبری ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ہونے والے سکین سے پتا چلا کہ اب بھی ان کے اندر حمل کی باقیات موجود ہیں، جو صرف سرجری سے نکالی جا سکتی تھیں۔ اس کے بعد ان پر ’مینیول ویکیوم ایسپیریشن‘ پروسیجر کیا گیا۔ اس کے تین دن بعد انھیں پھر بہت شدید درد ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے شوہر سے کہا خدایا کچھ تو غلط ہے۔ یہ معمول کا درد نہیں ہے۔‘ زیک انھیں ایمرجنسی میں لے گئے جہان زیک سے پہلے تو باہر انتظار کرنے کو کہا گیا لیکن فاطمہ کے احتجاج کے بعد انھیں اندر آنے دیا گیا۔
سکین میں کچھ غیر معمولی ٹِشو دریافت ہوا مگر ڈاکٹر بضد تھے کہ یہ حمل کی باقیات نہیں ہیں۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ ’آپ ڈاکٹروں پر یقین کرتے ہیں، ہے ناں؟‘
دو دن بعد وہ شدید درد اور بلیڈنگ کی وجہ سے نیند سے جاگ گئیں، مگر واپس ہسپتال جانے سے ہچکچا رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’آپ کو لگتا ہے کہیں آپ کا ردعمل کچھ زیادہ شدید تو نہیں؟ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں لوگوں کا وقت ضائع کر رہی ہوں۔‘
انھوں نے 111 فون کیا، اور ایمبیولنس ان کے گھر آ گئی۔ اس بار سکین سے اس بات کی تصدیق ہوئی جس کا فاطمہ کو پہلے سے شک تھا۔ ان کے جسم میں اب بھی حمل کی باقیات موجود تھیں۔ سترہ جولائی کو ان کی ایمرجنسی سرجری کرائی گئی۔
اگر کورونا وائرس کی وبا نہ ہوتی تو فاطمہ کی سرجری ان کے پہلے سکین کے بعد ہی ہو جاتی۔ تاہم کووڈ۔19 کی وجہ سے اس بات میں دو ماہ اور ہسپتال کے متعدد چکر لگے۔ اس سب کے دوران انھیں اپنی چھوٹی بیٹی سے اپنی تکلیف اور پریشانی بھی چھپانی پڑی۔
سالسبری ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ مریضوں اور عملے کو کووڈ۔19 سے محفوظ رکھنے کے لیے کئی سروسز کو تبدیل کرنا پڑا، اور اس وجہ سے ہونے والی تکلیف کے لیے وہ معذرت خواہ ہیں۔
’اس وبا کے دوران ہمارے سٹاف نے ہمدردی، خلوص اور عزم کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے کی پوری کوشش کی ہے، خاص طور پر ان مریضوں کے لیے جو مشکل، اور تکلیف دہ حالات سے گزر رہے تھے۔‘
اس ہسپتال میں اب بیس ہفتے پر ہونے والی سکین کے لیے ماں کے ساتھ ان کے پارٹنرز کو بھی جانے کی اجازت دی جا رہی ہے اور دیگر پابندیوں پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔
لائرن کی کہانی: ’مجھے لگا میں اسے مایوس کر رہی ہوں‘
33 سالہ لائرن گلاسگو کے ایک سکول میں ٹیچر ہیں۔ جس مشکل وقت سے وہ گزری ہیں، وہ کوشش کرتی ہیں کہ اس دوران انسانیت اور ہمدردی کے جن چند لمحات کا انھیں تجرہہ ہوا، انھیں بس وہ ہی یاد رہیں۔ وہ پچھلے سال ایک بچہ کھو چکی تھیں، اور لاک ڈاون کے دوران دوسری مرتبہ ان کا حمل گر گیا۔
جب انھیں بلیڈنگ شروع ہوئی تو انھیں شک ہوا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ مارچ میں حمل کے چھٹے ہفتے میں ہونے والے سکین سے کچھ واضح نہیں ہوا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے سکینز کی تعداد کم کر دی گئی تھی اس لیے ان سے کہا گیا کہ حمل کے بارہویں ہفتے سے پہلے ان کا ایک اور سکین نہیں ہو سکتا۔
’میں جانتی تھی کہ میرا حمل ضائع ہو رہا ہے، مگر کوئی اس کی تصدیق نہیں کر رہا تھا۔ میں بہت پریشان تھی، بہت مضطرب۔‘
ان کی مڈ وائف (دائی) نے حمل کے نویں ہفتے میں سکین کا انتظام کروایا جس سے ان کے تمام خدشات سچ ثابت ہو گئے۔ لائرن کہتی ہیں، ’میں ایک بار گھر پر ہی قدرتی طور پر حمل گرنے کے تجربے سے گزر چکی تھی، اس لیے میں بہت خوف زدہ تھی کہ کہیں دوبارہ بھی ایسا ہی نہ ہو۔‘
کووڈ۔19 کی وجہ سے سرجری ممکن نہیں تھی۔ انہیں نو دن بعد مینیول ویکیوم ایسپیریشن کے لیے بک کیا گیا لیکن کچھ ہی دنوں بعد ان کا حمل قدرتی طور پر گھر میں ہی گر گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں بہت ڈر گئی تھی کیونکہ میں لیبر میں چلی گئی تھی۔ کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ اگرچہ میرا حمل چھ ہفتے بعد ہی مر گیا تھا مگر نال (پلیسینٹا) اور حمل کی تھیلی نے بڑھنا بند نہیں کیا تھا۔‘
درد کی شدت کم کرنے کے لیے وہ گرم پانی کے ٹب میں بیٹھیں۔ بعد میں انھیں اور ان کے شوہر مائیکل کو اس پانی میں سے حمل کا ٹشو چھان کر نکالنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں، ’وہ شاید سب سے زیادہ مشکل مرحلوں میں سے ایک تھا۔‘
انھوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس ٹشو کو جینیاتی ٹیسٹنگ کے لیے بھیجا جائے گا تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ ان کا بچہ بار بار کیوں گر جاتا ہے۔ لیکن جب وہ ٹِشو کو لے کر ہسپتال پہنچیں تو انھیں بتایا گیا کہ اس طرح کے ٹیسٹس اب معطل کر دیے گئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’ہمارے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا کہ اس سب کے بعد بھی ہمیں کوئی جواب ملنے کی امید نہیں تھی۔‘
لائرن کہتی ہیں کہ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اس سب کے دوران مائیکل ان کے ساتھ نہیں تھے۔ ہر بار لائرن کو ہی مائیکل کو یہ بری خبر دینی پڑتی۔ ’مجھے لگا جیسے میں ہر بار اسے مایوس کر رہی ہوں۔‘
اور مائیکل خود کو بےبس محسوس کرتے رہے۔ ایک ڈاکٹر سے معلومات حاصل کرنے کی جگہ انھیں ایک پریشان اور جذباتی لائرن سے گاڑی میں بیٹھ کر بات کا پتہ چلتا۔ وہ کہتے ہیں، ’میرے ذہن میں نہ جانے کتنے سوال ہیں جو میں پوچھ ہی نہیں سکا۔ میں بھی اس سب میں شریک ہوں۔ مجھے باہر نکال دیا گیا، پھینک دیا گیا۔‘
جون کے اوائل میں لائرن کو پتہ چلا کہ وہ پھر سے حاملہ ہیں۔ جب وہ ہسپتال پہنچیں تو ان کے دل پر بوجھ سا تھا۔
وہ بتاتی ہیں، ’میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں گاڑی سے اترنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ میں اکیلے ہسپتال کی عمارت میں داخل نہیں ہونا چاہتی تھی تاہم میرے شوہر کو میرے ساتھ اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔‘
یہ حمل قابل عمل نہیں تھا۔ گھر پر ان کا حمل گرنا شروع ہو گیا اور شدید درد اور تکلیف میں وہ دوبارہ ہسپتال پہنچیں۔
وہ کہتی ہیں، ’جب میں ہسپتال پہنچی تو وہاں موجود مڈ وائف نے جو کیا اس سے سب بدل گیا: ’اس نے مجھے گلے سے لگایا۔ کووڈ۔19 کی وجہ سے اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، مگر اس نے بالکل صحیح کیا۔ وہ ایک زندگی بدل دینے والا لمحہ تھا۔‘
رائل کالج آف مِڈ وائیوز کی برٹے ہارلیو لیم کہتی ہیں، ’حمل گرنا ایک بہت شدید صدمہ ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس وبا نے پہلے سے ہی دردناک تجربے کو مزید مشکل بنا دیا ہے، کیونکہ سکینز اور دیگر اوقات پر آپ اکیلے ہوتے ہیں۔‘
کورونا وائرس کی وبا کے دوران حمل گرنے سے متعلق خیراتی ادارے ’ٹامیز‘ کی ہیلپ لائین کو موصول ہونے والے فون کالز میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ اس ادارے نے خواتین سے اصرارکیا ہے کہ اگر حمل کے دوران ان کے بچے کی حرکات میں کوئی تبدیلی آئے یا انہیں شدید درد یا بلیڈنگ ہو تو انہیں فوری طور پر طبی مدد حاصل کرنی چاہیے۔