صحت

خاتون کی چھاتی کا خراب آپریشن کرنے والے ’جعلی‘ سرجن کو سات سال قید کی سزا

Share

کولمبیا کی لورینا بیلتران نے سنہ 2014 میں 20 برس کی عمر میں اپنی چھاتی کا حجم کم کرنے والی سرجری کرائی مگر یہ آپریشن کامیاب نہ ہو سکا۔

ایک سال بعد اسی ڈاکٹر نے دوبارہ بہتری کے لیے ان کی ایک اور سرجری کی مگر صورتحال مزید ابتر ہو گئی۔

لورینا کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت سمجھ گئیں تھیں کہ کچھ بہت عجیب ہو گیا ہے جب ڈاکٹر نے ان سے انتہائی بیگانے طریقے سے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ اگر چھاتی کے ’نِپل‘ گر گئے تو پھر وہ جسم کے نچلے حصے سے گوشت کاٹ کر یہاں پیوندکاری کر دیں گے۔ اس طریقے میں ایک ٹیٹو اس طرح بنایا جاتا ہے کہ یہ دوسرے نپل کی طرح دکھائی دے۔

انھوں نے اس ڈاکٹر سے متعلق تحقیقات شروع کر دیں اور انھیں یہ معلوم ہوا کہ کولمبیا میں یونیورسٹی کی جعلی ڈگریوں کے اجرا کا نتیجہ متعدد متاثرین کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس بات کو اب سات برس گزر گئے ہیں۔

اس وقت لورینا 28 برس کی ہیں اور اب ان کے انصاف کے حصول کی جدوجہد میں انھیں ایک خاص خبر ملی ہے: فرانسیسکو سلیز پکینی جنھوں نے ڈاکٹر بن کر ان کا آپریشن کیا تھا وہ دراصل جعلی سند کی بنیاد پر ڈاکٹر بنے تھے انھیں اب ان کے چھ ساتھیوں سمیت سات سال قید اور جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔

متعدد ملزمان کے وکیل جمائم گراناڈوس نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔

بی بی سی منڈو نے اس حوالے سے لورینا سے بات کی ہے۔

لورینا
،تصویر کا کیپشندو سرجریوں کے بعد سنہ 2016 میں لی گئی تصویر

لورینا یونیورسٹی کے ایک دوست کی سفارش پر گائناکالوجسٹ فرانسسکو سیلز پکینی کے پاس علاج کی غرض سے گئی تھیں۔

ان کا کلینک بوگوٹا کے ایک خاص علاقے میں واقع تھا، جہاں لورینا اس بات کی تصدیق کرنے میں کامیاب رہیں کہ ڈاکٹر نے پلاسٹک سرجری کا ڈپلومہ کیا ہوا ہے۔ چونکہ سیلز پکینی قابل اعتماد لگ رہے تھے تو ایسے میں لورینا نے ان سے ’لپوسکشن‘ کروانے کا فیصلہ کر لیا۔

یہ آپریشن بظاہر ٹھیک ہو گیا جس نے انھیں اپنی چھاتیوں کے سائز کو درست کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔

’میں جسامت میں ایک بڑے ڈیل ڈول کی عورت ہوں، میرے کولہے اور چھاتیاں بڑی ہیں، اس لیے جب انھوں نے میرے پیٹ سے چربی کو ہٹایا تو میری چھاتیوں کا سہارا ختم ہو گیا اور وہ ڈھلکی ہوئی لگنے لگیں۔‘

اس جمالیاتی مسئلے کے ساتھ ساتھ کمر کے درد کا مسئلہ بھی شامل ہو گیا تھا جس سے وہ کچھ عرصے سے نمٹ رہی تھیں۔

سیلز پکینی نے اس وقت انھیں تجویز دی کہ وہ اپنی چھاتیوں کے حجم کو کم کرنے کے لیے مصنوعی تھیلیاں رکھ کر پیکسی کروا لیں۔ ان کی ایک دلیل یہ تھی کہ مصنوعی اعضاء کو کبھی تبدیل نہیں کرنا پڑے گا، اس لیے یہ ایک مستقل حل ہو گا۔

لورینا کہتی ہیں کہ ’اس وقت میں نے ان پر یقین کیا، سفید کوٹ میں ملبوس ڈاکٹر اعتماد اور قابلیت کی علامات ہے اور لوگ اس کی بات پر توجہ دیتے ہیں۔‘

’لیکن اب جب میں نے اپنی تحقیق مکمل کر لی ہے تو میں جانتی ہوں کہ کوئی امپلانٹ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا۔‘

ان کی آزمائش دوسری سرجری کے ساتھ شروع ہوئی، لورینا کی چھاتی خراب ہو چکی تھی اور ان کے زخم بھی خراب ہو رہے تھے اور ان کا ایک نپل بھی جسم کے دوسرے حصہ سے بنایا جانا تھا۔ تقریباً اس آپریشن کے ایک سال بعد لورینا صحت یاب ہوئیں لیکن انھیں ایک بڑا جمالیاتی نقصان اٹھانا پڑا۔

سیلز پکینی نے ایک حل کے طور پر زخم کا علاج تجویز کیا لیکن اس تیسری سرجری کا نتیجہ اس سے بھی زیادہ تباہ کن تھا۔

اس موقعے پر لورینا نے ایک اور ماہر سرجن تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔

’میں نے چند منظور شدہ سرجنوں کو فون کیا اور ان دونوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اس قسم کے پروسیجرز نہیں کیے، لیکن انھوں نے ڈاکٹر ہیوگو کورٹس کا نام تجویز کیا۔‘

لورینا کسی طرح ڈاکٹر کورٹس کو اپنا علاج کرنے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب رہیں اور وہ حیران رہ گئیں کیونکہ وہ سیلز پکینی کو جانتی تھیں۔

’انھوں نے مجھ سے کہا کہ ایک گائناکولوجسٹ نے آپ کی یہ سرجری کیوں کی؟ میں نے جواب دیا کہ وہ بھی ایک پلاسٹک سرجن ہیں، ان میں دونوں خصوصیات ہیں کیونکہ میں نے بطور ایک صحافی کے اس کی تصدیق کی تھی۔‘

اور تب انھوں نے مجھے جواب دیا کہ ’وہ پلاسٹک سرجن نہیں ہے۔۔۔ اور چونکہ آپ ایک صحافی ہیں لہذا اس بارے میں اچھی طرح سے تحقیق کریں۔‘

لورینا نے اپنی آواز کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک سوشل میڈیا مہم چلائی
،تصویر کا کیپشنلورینا نے اپنی آواز کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک سوشل میڈیا مہم چلائی

یونیورسٹی تو ہے لیکن وہاں وہ شعبہ نہیں

سیلز پکینی نے بظاہر پلاسٹک سرجری کی ڈگری برازیل کے ریو ڈی جنیرو میں واقع ویگا دی المیدا یونیورسٹی سے لی ہے اور کولمبیا کی وزارت تعلیم نے سنہ 2014 میں اس کی توثیق کر رکھی ہے۔

لورینا نے ریو میں رہنے والے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ ان کی تحقیقات میں مدد کریں۔

لورینا کا کہنا ہے کہ ’وہ وہاں گئے اور مجھے بتایا کہ لوری اس یونیورسٹی میں تو میڈیکل سکول ہی نہیں ہے۔‘

اس جواب کے ساتھ ہی لورینا نے اس گتھی کو سلجھانا شروع کیا۔

‘صورتحال کافی سنگین تھی کیونکہ ایک ادارہ جہاں کوئی میڈیکل سکول نہیں وہ لوگوں کو پلاسٹک سرجری میں کیسے میڈیکل گریجویٹ کی سند دے سکتا ہے؟

کولمبیا کی ایک اور صحافی اور لورینا کی کولیگ جوہانا فینٹس بھی اس معاملے میں شامل تحقیق ہو گئیں اور انھوں نے لورینا کی مدد کرنا شروع کی۔

’انھوں نے کولمبیا کی وزارت تعلیم سے سرکاری معلومات طلب کیں، اور اپنی درخواست میں پوچھا کہ کن کن ڈاکٹروں نے ویگا دی المیدا یونیورسٹی کی ڈگریوں پر ان سے توثیق حاصل کی ہے۔‘

وزارت نے جواب دیا اور سنہ 2016 میں نوٹیسیا یونو میڈیا نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ کم از کم ’34 ڈاکٹروں نے اس ادارے سے ڈپلومہ حاصل کرنے کا کہا تھا‘ اور جب برازیل کی یونیورسٹی سے رابطہ کیا گیا تو ڈائریکٹروں کو ’پتہ چلا کہ وہاں تو میڈیسن کا شعبہ ہی نہیں ہے اور جس کورس‘ کے کرنے کا ان ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے وہ تو ان کے نصاب میں ہی نہیں ہے۔‘

اس دوران ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا جس نے صحافیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور وہ یہ تھی کہ اس یونیورسٹی کی ڈگریوں کی متعدد توثیق صرف 12 دن کے ریکارڈ وقت میں کی گئی تھیں، جب کہ عام طور پر اس عمل میں مہینوں لگتے ہیں۔

’وزارت نے اس سلسلے میں جو جواب دیا کہ ایک ہی طرح کے کیسز میں کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک بار جب کسی شخص کی تصدیق کسی یونیورسٹی کے حوالے سے کر لی جاتی ہے تو پھر اس طرح کے دیگر معاملات اس کی بنیاد پر جلدی ہو جاتے ہیں۔‘

عوامی سطح پر شکایت

لورینا نے اپنے ساتھ ہونے والے معاملے کو عوامی طور پر بتانے کا فیصلہ کر لیا، حالانکہ انھوں نے ابھی تک اپنی شناخت ظاہر کرنے کے بارے پورے وثوق کے ساتھ فیصلہ نہیں کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’پھر میں نے بالآخر ایسا کرنے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ سرجن کو معلوم ہو ہی جاتا کہ وہ میں ہی ہوں اور ایک طرح سے اس طریقے سے عوام کے سامنے جانا میرے لیے بہتر تھا۔‘

لورینا قومی میڈیا میں پر آئیں اور انھوں نے اپنی کہانی سنائی۔ انھوں نے اپنی کہانی سنانے کے ساتھ ہی ایک ڈیجیٹل مہم شروع کی جس کا نام انھوں نے CirugíaSeguraYA رکھا تھا جس کا مطلب ہوتا ہے ’اب محفوظ سرجری۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ٹوئٹر پر میرے فالوورز کی پہلے ہی اچھی خاصی تعداد تھی اور اس طرح اس ہم نے اپنی تحریک کو مضبوط کیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایک خوش قسمت مریض تھی کیونکہ میں ایک صحافی تھی۔ میرے پاس معلومات کو منظم کرنے اور انھیں ایک وسیع تر سیاق و سباق کے ساتھ اکٹھا کرنے اور پیش کرنے کے وسائل تھے۔

اس کے ساتھ ہی وہ سیاسی معاملات پر رپورٹنگ کرنے والی صحافی بھی تھیں اور ان کی رسائی اعلیٰ سطح کے ذرائع تک تھی جیسے کہ اس وقت کے وزیر صحت۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے محسوس کیا کہ میں ایک بہتر پوزیشن میں ہوں جس میں بہت سی دوسری خواتین نہیں ہوتیں اور مجھے کچھ کرنا چاہیے اور مجھے اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔۔۔ شاید میں نے اس فیصلے کی ذاتی قیمت کا درست اندازہ نہیں لگایا تھا۔ لیکن پھر بھی مجھے اپنے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔‘

اگلا مرحلہ اپنے جسم پر رہ جانے والے نشانات کو عوامی طور پر دکھانا تھا۔ لورینا نے کچھ تصاویر شیئر کی جو کولمبیا کے ایک اخبار ال سپیکٹیدر میں شائع ہوئیں۔

’میری تصویر سرورق پر تھی، لیکن میں تنہا نہیں تھی۔ ہم آٹھ خواتین تھیں جن کے جسموں کو نقصان پہنچا تھا، تاہم میں ہی واحد تھی جس نے اپنے اوپری حصے کو ظاہر کیا تھا۔‘

تانیہ

عدالتی کارروائی

کولمبیا کے میڈیا کی تحقیقات اور لورینا اور دیگر متاثرین کی عوامی طور پر شکایات کی بدولت پراسیکیوٹر کے دفتر کو 42 ڈاکٹروں کے کیسز موصول ہوئے جن کی ڈگریوں کی توثیق مشکوک تھی۔

ڈاکٹروں کے ان گروہوں کے خلاف مجرمانہ مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔ پہلا گروہ چھ ڈاکٹروں پر مشتمل تھا جن میں سیلز پکینی اور اس کے بھائی کارلوس ایلیاس شامل تھے۔

اس گروہ پر مقدمے کی کارروائی اکتوبر سنہ 2017 میں شروع ہوئی اور چھ سال بعد رواں سال فروری میں پہلا فیصلہ آیا۔

جج نے کہا کہ چھ ڈاکٹروں کو بری کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے واضح کیا کہ اگر پیروی کے دستاویزات کو ’پرتگالی کے ساتھ ہسپانوی میں اس کے متعلقہ ترجمے کے ساتھ‘ پیش نہیں کیا گیا ہوتا تو وہ انھیں سزا سنانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

یعنی انھیں ایک ٹیکنیکل غلطی کی وجہ سے بری کر دیا تھا۔

’اس دن میں بہت روئی کہ کیا نہیں لکھا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس درجے کی غلطیوں کے لیے سزاوار نہ ہوں، صرف اس لیے کہ چند دستاویزات وقت پر فراہم نہیں کیے جاسکے؟‘

لیکن متوقع طور پر پراسیکیوٹر آفس نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی۔

وزارت تعلیم نے بھی اپیل کی اور کیس دوسری بار سماعت کے لیے مقرر ہوا اور پھر جج نے 25 ستمبر کو انھیں سات سال قید کی سزا سنانے کا فیصلہ کیا۔

لورینا بتاتی ہیں کہ بالآخر ’ان ڈاکٹروں کو پروسیجرل دھوکہ دہی اور ایک نجی دستاویز کی جعل سازی کا مجرم قرار دیا گیا۔ اس فیصلے کا اعلان عوامی طور پر چار اکتوبر کو کیا گیا۔‘

لیکن چونکہ پہلی بار وہ لوگ بری ہوگئے تھے اس لیے ملزمان کے پاس آخری راستہ یہ تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل کریں۔

اس میں کتنا وقت لگے گا یہ ابھی معلوم نہیں ہے، لیکن لورینا کو امید ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس فیصلے کی توثیق کرے گی اور چھ ڈاکٹر اپنی سزا پوری کریں گے۔

اور سب ٹھیک کیسے ہوگا؟

سنہ 2017 میں لورینا نے سیلز پکینی کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کی اور انھیں دوسری بار میں جیت حاصل ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ ’جج نے اسے مجھے اور میرے خاندان کو تقریباً 86 ملین کولمبیا پیسو (تقریباً 20,000 امریکی ڈالر) کا مالی معاوضہ دینے کی سزا سنائی لیکن آج تک مجھے یہ معاوضہ نہیں ملا ہے۔‘

لورینا کے لیے یہ سب بہت مشکل اور تکلیف دہ رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک سماعت کے بعد جس میں میرا سیلز پکینی سے سامنا ہوا تھا میں نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔ آج مجھے اس موضوع پر بات کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے، لیکن اس وقت یہ میرے لیے بہت شرمناک تھا۔‘

لورینا نے پچھلے سات سالوں میں جو تمام جسمانی اور جذباتی نقصانات سہے تھے اس کے متعلق جب نفسیاتی تشخیص ہوئی تو پتا چلا کہ وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہیں یہاں تک کہ ان میں خودکشی کے خیالات پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے پاس ایک ماہر نفسیات تھے جنھوں نے اس سارے بحران کے دوران میرا ساتھ دیا۔ میں تقریباً دو سال سے دوا لے رہی تھی۔ میں اب دوا نہیں لیتی، لیکن میری ہمیشہ نگرانی کی جاتی ہے۔‘

اور اس تمام صورتحال میں دھمکیوں کا ایک سلسلہ بھی شامل ہے۔

’سیلز پکینی کا وکیل بہت مشہور ہے اور سنہ 2016 سے اس نے میرے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔‘

بہر حال سزا کی خبر کو دیکھتے ہوئے لورینا کو لگتا ہے کہ انصاف ہونا شروع ہو گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک بہت مایوس کن عمل رہا ہے کیونکہ کئی سال گزر چکے ہیں۔ پورے معاملے کو دوبارہ جینا پیچیدہ ہے، لیکن میں پھر بھی جج کے فیصلے پر خوش ہوں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ میں چھ لوگوں کو جیل کی سزا سنائے جانے سے خوش ہوں، یہ ہمارے معاشرے کی ناکامی ہے۔ مجھے اس بات پر زیادہ خوشی ہوگی کہ پھر ایسا کبھی کسی کے ساتھ نہ ہو۔‘

’مجھے اس سرجن کو سلاخوں کے پیچھے بھی دیکھنے کی خواہش نہیں ہے جس نے مجھے اتنا نقصان پہنچایا ہے۔ بس میری خواہش یہ ہے کہ وہ دوبارہ کام نہ کر سکے۔‘